• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس ملک میں اسلام کے بعض نام لیوا ، اللہ اور اس کے نبی ﷺ کے پاک نام اور دین کو ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لئے استعما ل کرکے ، لوگوں کو دین سے متنفر کررہے ہوں ۔وہ ملک جو اسلام کے نام پر بنا ہو لیکن دنیا میں سب سے بڑھ کر اس ملک میں ہی اسلام مظلوم ہو اور وہ بھی کسی اور کے ہاتھوں نہیں بلکہ خود اسلام کے ٹھیکیداروں کے ہاتھوںمظلوم ہو ۔ جس ملک میں رحمت اللعالمینﷺ کے نام پر سڑکوں کو بند کرکے اس کی امت کو تکلیف دینا روز کا معمول بن گیا ہو۔ جس ملک میں دین کےبعض نام لیوا لوگوں کو مسلمان بنانے کی بجائے کافر بنانے میں لگے ہوئے ہوں ۔ جو ملک مذہب کے تزویراتی استعمال کے بھیانک نتائج دہشت گردی اور انتہاپسندی کی صورت میں بھگت رہا ہو اور ابھی وہ سلسلہ ختم نہ ہو کہ مذہب کا سیاسی مقاصد کے لئے استعمال پوری قوت کے ساتھ شروع کردیا جائے ۔ جس ملک میں مذہب کے نام پر دہشت گردی سے ابھی قوم لڑ رہی ہو اور اسے فقہ اور مسلک کی بنیاد پر ایک نئی انتہاپسندی اور دہشت گردی سے دوچار کیا جارہا ہو۔جس ملک میں قومی سلامتی کے محافظین ، حب الوطنی کے نام پر ذاتی اور ادارہ جاتی مقاصد کی خاطر اس ملک کے شہریوں کو ریاست سے متنفر کررہے ہوں ۔جس ملک میں ریاستی ادارے انتہاپسندی اوردہشت گردی کے خلاف یک جاں ہونے کی بجائے اسی عفریت کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کررہے ہوں ۔ جس ملک میں عدالت سیاست میں لگ گئی ہو اور صحافت مختلف قوتوں کا مہرہ بن کر جھوٹ اور افواہیں پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہو۔ اس ملک کو شام اور عراق بننے سے صرف اللہ ہی بچا سکتا ہے اور آئیے دعا کریں کہ اللہ اس ملک کی حفاظت فرمائے ۔
مذہب، فرقہ اور قوم پرستی کے نام پر فتنے پہلے بھی اس ملک میں سراٹھاتے رہے ۔ انتہاپسندی اور دہشت گردی کے جراثیم پہلے بھی اس قوم کے وجود میں سرایت کرچکےتھے لیکن بہر حال ریاست کے ادارے کسی نہ کسی شکل میں ان کے خلاف یک زبان ہوا کرتے تھے ۔ لیکن کچھ عرصہ سے دیکھنے میں آرہا ہے کہ ریاست کے مختلف ادارے ان کے خلاف یک زبان ہونے کی بجائے ، ایک دوسرے کے خلاف ان فتنوں کو استعمال کرتے نظر آرہے ہیں ۔ ہر فتنے کی سرکوبی کے لئے پولیس فرسٹ لائن آف ڈیفنس ہوا کرتی تھی لیکن اداروں کی اس جنگ میں اس کا بیڑہ غرق کیا جارہا ہے ۔ بے نظیر بھٹو کے قتل میں سب کو کلین چٹ مل گئی لیکن درمیان میں پولیس افسران کو رگڑا مل گیا۔ پھر عمران خان صاحب اور قادری صاحب کو میدان میں اتارا گیا۔ ان کے ذریعے پارلیمنٹ کو بھی بے عزت کروایا گیا ، عدلیہ کو بھی بے توقیر کرنے کی کوشش کی گئی اور میڈیا کو بھی تقسیم کرکے گالیوں اور حملوں سے نوازا گیا۔ ان لوگوں نے سول نافرمانی کے اعلانات بھی کئے ، پارلیمنٹ پر بھی حملہ آور ہوئے اور پی ٹی وی کے اندر بھی گھسے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان سے اسلام آباد پولیس افسروں اور جوانوں کے سر تڑوائے گئے ۔ باوردی سپاہیوں کو سڑکوں پر گھسیٹا گیالیکن عمران خان اور ان کے سیاسی کزن سے ان جرائم کا کسی نے نہیں پوچھا۔ الٹا منتیں کروا کر ان کو دوبارہ اس اسمبلی میں واپس لایا گیا جس کو ان ممبران نے گالیاں دی تھیں ۔چھ سات ماہ تک پارلیمنٹ سے غیرحاضر رہنے والے پی ٹی آئی کے ممبران کو حرام تنخواہیں ہاتھ میں پکڑا دی گئیں ۔وہ پولیس افسران اور سپاہی جو قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنانے اور سرکاری املاک کو بچانے کی کوشش میں ان لوگوں کے ہاتھوں ڈنڈے کھاچکے تھے ، تماشہ دیکھتے رہ گئے ۔ جو لوگ ان کو پتھر اور ڈنڈے ماررہے تھے، معزز بن کر ان کے سامنے دندناتے پھررہے تھے ۔
ریت چل پڑی ہے اور اب جس کے جی میں آتا ہے چند لوگوں کو جمع کرکے اسلام آباد میں دھرنا دینے آجاتا ہے ۔ اب ایک اور صاحب جو گالیاں دینے کے لئے عالمی شہرت پاچکے ہیں آکر اسلام آباد اور پنڈی کے درمیان سڑک پر بیٹھ گئے ۔ پنڈی اور اسلام آباد میں رہنے والے نبی کریمﷺ کے لاکھوں امتی تین ہفتے تک عذاب میں مبتلا رہے ، حالانکہ ان شہریوں کا قانون بنانے یا بدلوانے میں کوئی کردار نہیں تھا۔ پوری دنیا میں پاکستان بدنام ہوتا رہا۔ کئی بار مذاکرات ہوئے لیکن بات نہ بنی ۔ بالآخر پولیس کو عدالت کے حکم کی تعمیل میں کارروائی کرنا پڑی ۔ ایک طرف دھرنا دینے والوں کو بھرپور طاقت کے استعمال کی آزادی تھی تو دوسری طرف پولیس اور فرنٹیئر کانسٹیبلری والوں کو بندوق ساتھ رکھنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ چند گھنٹوں کی کارروائی کے بعد قریب تھا کہ پولیس سب کو قابو کرلیتی لیکن اچانک آپریشن روکنے کا حکم ملا۔ اس کارروائی میں سینکڑوں پولیس اہلکار زخمی ہوئے ۔ دو پولیس اہلکاروں کو خیموں میں بند کرکے مارا پیٹا گیا۔ لیکن اگلے دن اچانک ایک معاہدہ سامنے آیا جس میں گھیرائو جلائو کرنے اورباوردی اہلکاروں کو زخمی کرنے والوں کے تمام مطالبات منظور کرلئے گئے لیکن ریاست نے اپنی کوئی بات منوا ئی اور نہ پولیس کو مارنے پر کسی کوکوئی سزا دی گئی ۔ انہوں نے عدلیہ کی اعلیٰ شخصیات تک کے بارے میں غلط زبان استعمال کی تھی لیکن ان سے اس پر بھی معذرت نہیں کروائی گئی ۔ انہوں نے عدلیہ کی حکم عدولی کی تھی لیکن ان سے اس جرم کا بھی نہیں پوچھا گیا ۔ پولیس اور ایف سی کے وہ جوان جو بھوکے پیاسے اور موسمی سختیاں برداشت کرتے ہوئے تین ہفتے تک دھرنا دینے والوں کی گالیاں اور ڈنڈے برداشت کرتے رہے ، حیران و پریشان دیکھتے رہ گئے کہ جس صاحب نے ان کو گالیاں تھیں وہ فاتح بن کر واپس اپنے گھر لوٹ گئے اور جن لوگوں نے ان پر ڈنڈے برسائے تھے ، وہ فاتح قرار پائے ۔ رہی سہی کسر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے یہ کہہ کر پوری کردی کہ پولیس نے کارروائی ان کے حکم پر نہیں کی تھی ۔ گویا اب ان کے سپریم کمانڈر نے بھی ان کو تنہا چھوڑ دیا۔ ماضی کی پولیس ہوتی تو پانچ سو پولیس والے بھی خادم حسین کے دھرنے کو ختم کرنے کے لئے کافی تھے لیکن عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنوں میں جو کچھ ہوا تھا۔
یا پھر ماڈل ٹائون میں جو کچھ ہوا ہے ، اس کی وجہ سے نوبت یہاں تک آگئی تھی کہ آٹھ ہزار پولیس والے ، چند سو مظاہرین کو قابو نہ کرسکے اور اب جو کچھ ہوا ہے ، اس کے بعد تو ایک لاکھ پولیس والے بھی چند سو مظاہرین کا سامنا نہیں کرسکیں گے ۔ سوال یہ ہے کہ ملک ایسے کیسے چلے گا؟۔
زیرنظر کالم کا اصل محرک بچپن کے ایک دوست کا آڈیو مسیج بنا۔شعبہ تدریس سے وابستہ ایک دوست جن کا مذہبی گھرانے سے تعلق ہے اور خود دیندار اور پانچ وقتہ نمازی ہے ، نے تحریک لبیک کے دھرنوں کے دنوں میں ایک وٹس ایپ آڈیو میسج دوستوں کو بھجوایا ہے ۔ کہتے ہیں کہ قریب المرگ ساس کیلئے حالت نزع میںدوائی لینے بازار گیا تھا(ان کی ساس محترمہ گزشتہ روز انتقال کرگئیں) لیکن میلادالنبی ﷺ کے جلوسوں کی خاطر سڑکوں کی بندش کی وجہ سے انہیں کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑا ۔ واپس آکر جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد گیا تو مولوی صاحب سیاسی تقریر جھاڑ کر نفرتوں کو ہوا دے رہے تھے ۔مجھ سے برداشت نہ ہو سکا اور اس لئے جمعہ پڑھے بغیر گھر واپس آگیا۔ کہتے ہیں آج یہ میری سیکولر زندگی کا آغاز ہے اور قیامت کے روز میں اپنے رب کی عدالت میں عرض کروں گا کہ مولویوں اور دین کے نام پر سیاست کرنے والے اسلام کے ٹھیکیداروں نے مجھے مسجد جانے سے روکا ۔ تازہ ترین مثال دنیاوی اور سیاسی اغراض کے لئے مذہب کا بے دردی سے استعمال کرتے ہوئے دو سیاسی جماعتوں کا ایم ایم اے کی صورت میں جمع ہونا ملاحظہ کیجئے ۔ ابھی جماعت اسلامی خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے حکومتی دسترخوان پر بیٹھی ہے اور مرکز میں جے یو آئی میاں نوازشریف کی حکومت کے دسترخوان پر ۔ دونوں چند ماہ کے لئے بھی ان حکومتوں کو چھوڑنا نہیں چاہتیں ۔ مولانا فضل الرحمان فاٹا کے لوگوں کو بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے لئے اس کے انضمام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں جبکہ سراج الحق صاحب اس کے سب سے بڑے چیمپئن بنے پھرتے ہیں۔ دونوں میں سے کسی نے اپنی اپنی حکومت چھوڑی ہے اور نہ فاٹا سے متعلق اپنے موقف سے پیچھے ہٹا ہے لیکن اگلے حکومتی دسترخوان میں اپنا حصہ بڑھانے کے لئے دونوں ایم ایم اے کی صورت میں ایک سیاسی اتحاد میں بیٹھ گئے ۔ درون خانہ جو بحث ہورہی ہے ،اس میں اسلام کا ذکر ہورہا ہے اور نہ مسلمان کا صرف اور صرف ٹکٹوں کی تقسیم پر لے دے ہورہی ہے لیکن افسوس کہ میڈیا اور قوم کے سامنے آکر یہ دونوں مذہبی لیڈر کہتے پھرتے ہیں کہ ایم ایم اے کی بحالی کی کاوشیں اسلام کی خاطر ہورہی ہیں ۔ اب اسلام کے سیاسی ٹھیکیداروں کی یہ حرکتیں دیکھ کر کیا ہم جیسے عام مسلمان مسجد اور منبر سے دورنہیں ہوں گے۔
رحمت سید لولاکﷺ پہ کامل ایمان
امت سید لولاک ﷺسے خوف آتا ہے..

تازہ ترین