• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قانون کا احترام، دیانت ، امین و صادق ہونا قائداعظم محمد علی جناح کا طرئہ امتیاز رہا۔ وہ اس قانون کی پابندی بھی ضروری سمجھتے تھے جو انگریز نے اپنی قابض حکومت کو قائم رکھنے کے لئے بنایا تھا اور اس کے اندر رہتے ہوئے پاکستان کی جدوجہد کی اور پاکستان حاصل کیا۔ قائداعظم اصولوں کے پابند تھے اور جدید تعلیم خود بھی حاصل کی اور نئی نسل کو اس پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرتے رہے، البتہ کرپشن کے سخت مخالف تھے۔ پاکستان کی تحریک میں جب خواتین نے اپنے زیورات نذر کئے تو لینے سے انکار کردیا اس لئے کہ اُس کی رسید نہیں دی جاسکتی تھی اور قیمت کا تعین نہیں ہوسکتا تھا جس سے کرپشن کا خدشہ تھا، انہوں نے جو ٹیم تیار کی وہ پاکستان کے سچے شیدائی تھے اور پاکستان کے حصول میں دل و جان سے کوشاں رہے، لیاقت علی خان نے اپنی دہلی کی کوٹھی جہاں اب پاکستان کا سفارتخانہ ہے اور جو ایک پُرشکوہ عمارت ہے پاکستان کے نام کردی اور خود ان کے پاس شہادت کے وقت صرف ایک ہزار سے کچھ زیادہ ذ روپے جبکہ قمیض میں پیوند اور جرابوں میں سوراخ تھے، مولانا حسرت موہانی کو ایک شہر کے دورے پر ایک سو روپے دے کر بھیجا گیا تاکہ سفر کے اخراجات پورے کریں تو 65 روپے واپس کردیئے، پوچھا گیا تو بتایا کہ یہ قوم کا پیسہ ہے میرا کیا ہے میں ہوٹل کی بجائے سرائے میں سو گیا یا مسجد میں رات گزاری تاہم اس پیسے کو بچانا ضروری ہے۔ پاکستان کی تحریک عوام تک پہنچانے کے لئےعلی گڑھ کے طلبا کو بھیجا گیا تو انہوں نے دی ہوئی رقم میں سے کچھ پیسے تو خرچ کئے اور باقی رقم واپس کردی، اس پر قائداعظم نے طلبا سے پوچھا کے طلبا تو ویسے بھی والدین کے پیسے کھا جاتے ہیں تم نے کیوں واپس کردیئے، انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کی تحریک کا پیسہ ہے جتنی ضرورت تھی ہم نے خرچ کر لئے اور باقی واپس اس لئے کررہے ہیں کہ یہ تحریک پاکستان میں کام آئے ۔ پھر آگرہ میں ایک کیس کے سلسلے میں جب عدالت میں پیش ہونے کے لئے آئے تو آگرہ کے عوام نے اُن کو استقبالیہ کی دعوت دی اور اُن کو ایک روز رکنے کو کہا تو انہوں نے کہا کہ وہ اپنے موکل کے کیس کے سلسلے میں آئے ہیں اور فی گھنٹہ فیس چارج کرتے ہیں، اگرچہ میں نے کیس جیت لیا ہے مگر میں اپنے موکل کے پیسوں پر سیاست نہیں کرسکتا، آپ مجھے دعوت دیں میں بمبئی سے اپنے پیسے سے آگرہ آجائوں گا۔ یہ واقعات بتانا موجودہ حالات میں اس لئے ضروری ہیں کہ کرپشن کا بازار گرم ہے، حق و حلال کی تمیز مٹ گئی ہے، اقدار گم ہوگئی ہیں، قانون کو توڑنا فیشن اور وی آئی پی ہونے کا نشان بن گیا ہے۔ ایسے میں قائداعظم کی زندگی مشعل راہ ہے، کرپشن کےساتھ اور میرٹ کے بغیر ملک آگے نہیں جاسکتا ، جمہوریت سب سے بہترین طرز حکومت ہے۔ مگر طرز حکمرانی عوام کے مفاد میں ہونا چاہئے نہ کہ ذاتی منفعت کو مقصد حیات بنا لیا جائے، جو اِس وقت مروج ہے۔ قانون کی حکمرانی اور صائب علم، صائب عمل اور اہل لوگوں کو وزیر اور اعلیٰ عہدوں پر فائز کرنا چاہئے اور وہ ایماندار، پر خلوص اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو، قائداعظم کے اِس یوم پیدائش کے موقع پر پاکستان مشکلات کا شکار ہے۔ دو اہم باتیں اس وقت ہوئی ہیں ایک تو نواز شریف کے دور میں توانائی کی کمی پورا کرنے پر کام کیا گیا ہے اور دوسرے ایک شخص نے تحریک کے ذریعے کرپشن کو بہت نمایاں کیا ہے تاہم معاملات اگر دونوں کے ملاپ سے نکالے جائیں تو اچھا نتیجہ نکل سکتا ہے کیونکہ پاکستان دشمنوں میں گھرا ہوا ہے، اگرچہ اس نے اپنے دفاع کا مناسب بندوبست کر رکھا ہے۔ وہ ایٹمی طاقت ہے مگر دشمن نے اُس کے خلاف مختلف حربے استعمال کرنا شروع کردیئے ہیں، اس پر مخلوط جنگ مسلط کی ہوئی ہے، یعنی ہر تضاد کو ابھارنے کی کوشش کی جا رہی ہے، فرقہ وارانہ تصادم کرانے کی کوشش کی گئی مگر ناکامی ہوئی ۔ بریلوی دیوبندی معاملے کو بھی ہوا دی مگر وہ بھی اُن کے کسی کام نہ آیا۔ دھرنے دیئے گئے، عوام کی مشکلات کا فی بڑھیں مگر آخر کاار بادل چھٹ گئے اور معاملہ سیاسی اور عدالتوں سے رجوع کرنے کی طرف بڑھا، اب امریکہ کی طرف سے دبائو بڑھایا جارہا ہے تاکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری مکمل نہ ہوسکے۔ مگر پاکستان نے کبھی اپنا مفاد ات پر سمجھوتہ نہیں کیا، سیٹو اور سینٹو میں اس لئے شامل ہوئے کہ سوویت یونین سے خطرہ تھا اور ہمیں ہتھیاروں کی ضرورت تھی، سو سیٹو اور سینٹو کے ذریعے ہتھیار لئے، سوویت یونین کے افغانستان پر قبضہ کے خلاف دو سال تک خود لڑتے رہے پھر امریکہ کے ساتھ سوویت یونین کے خطرے سے نجات ملی اور اسی دوران ایٹمی طاقت بن گئے۔
امریکہ افغانستان میں مجاہد طالبان کو چھوڑ کر نکل گیا جس کے اثرات ہمیں بھگتنے پڑے،کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر کی صورت میں۔ یہاں ہماری بندوبست کی صلاحیت کمزور دکھائی دی تاہم کسی نہ کسی طرح معاملے کو سنبھالا گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ا مریکہ پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے کہ وہ دہشت گردی کو ختم کرائے ورنہ وہ پاکستان کے خلاف کارروائی کرے گا۔ پاکستان کا موقف ہے کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف اپنے حصے کا کام کرلیا ہے، اب دہشت گردی کے خلاف جو کام کرنا ہے وہ امریکہ کو کرنا ہے۔ قائداعظم کے اس پاکستان کو جو چیلنج درپیش ہیں اُن کا مقابلہ سیاسی استحکام ،قومی یکجہتی اور قائداعظم کے اصولوں پر عمل کر کے ہی کیا جاسکتا ہے۔
جمہوریت میں اگر کرپشن نہ ہو تو جمہوریت اچھا نظام ہے، عوام کے نمائندے اگر عوام کے مفاد میں کام کریں تو وہ پاکستان کے عوام کا دل جیت سکتے ہیں۔ اُن کو یکسو، یکجا، متحد و مستعد کرسکتے ہیں تاکہ وہ دشمن کے مذموم عزائم ناکام بنا سکیں۔ قائداعظم کا پاکستان دولت سے مالامال ہے مگر اُسے کرپشن دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے اور دشمن معدنیات نکالنے نہیں دے رہا ۔ نااہل لوگ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔ اُن کی بجائے اہل لوگوں کا انتخاب کیا جائے تو پاکستان مشکلات پر بہ حسن و خوبی قابو پا سکتا ہے اور اُن بیرونی و اندرونی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوجائے گا جو اُسے پریشان کئے ہوئے ہیں تاہم قیادت کو کرپشن سے پاک کر، اچھی حکمرانی، قانون کی پابندی، عدالتوں کا احترام اور جمہوریت کے زرین اصولوں پر عمل کرکے قائداعظم کے 142 ویں یوم پیدائش کے موقع پر ہم قوم کو ایک اچھا تحفہ دے سکتے ہیں۔

تازہ ترین