• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مردم شماری اور حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی ترمیمی بل 2017کی منظوری نہایت اچھی خبر ہے۔ قومی اسمبلی میں یہ بل 16نومبر کو منظور ہوا تھا۔تاہم سینیٹ میں اس کی منظوری کو 35 دن لگ گئے۔ یہ پینتیس روز سیاسی منظرنامے پر بہت بھاری گزرے۔ اس دوران انتخابات 2018ءسےمتعلق طرح طرح کے خدشات اور افواہیں زیر گردش رہیں۔ ٹیکنوکریٹ حکومت کی باتیں ہوتی رہیں۔ کبھی طویل المعیاد نگراں حکومت کا تذکرہ اور حکومت کی رخصتی کے امکانات کا اظہار ہوتا رہا۔ اس عرصے میں واقعتا وفاقی حکومت بے بس اور گومگو کی کیفیت کا شکار نظرآتی تھی۔ حکومتی اراکین بھی انتخابات کے بروقت انعقاد کے حوالے سے کچھ ذیادہ پر امید نہ تھے۔ اس ضمن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے کردار پر بھی کچھ شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا۔عین اس وقت جب یہ بل قومی اسمبلی میں منظور ہونا تھا، پی پی پی نے اسے مشترکہ مفادات کونسل میں لے جانے کا مطالبہ کردیا۔ حکومت نے یہ مطالبہ پورا کیا تو اس کے بعد بھی مختلف اعتراضات اٹھائے جاتے رہے۔ یہاں تک کہاگیا کہ حکومت نے جان بوجھ کر مردم شماری کے عمل میں انتہا درجے کی تاخیر کی ہے۔ ایسا کہتے ہوئے پی پی پی نے یہ حقیقت فراموش کر ڈالی کہ اصل میں تو مردم شماری 2008 میں ہونا تھی، جب پی پی پی پورے طمطراق کیساتھ مرکز میں براجمان تھی۔ اپنے پانچ سالہ دورحکومت میں وہ اس اہم فریضے کی ادائیگی سے قاصر رہی۔
تاخیر ہی سے سہی، مسلم لیگ(ن) کے دور میں ایک اچھی پیش رفت ہوئی ، جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے تھا۔مگر حسب معمول اس معاملے پر بھی سیاست ہوتی رہی۔ اب اس بل کی منظوری سے اس سیاسی بے یقینی کا کافی حد تک خاتمہ ہوگیاہے جو گزشتہ کچھ ہفتوں سے ہمارے سیاسی منظرنامے پر چھائی ہوئی تھی۔ بل کی منظوری سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے بروقت انتخابات کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کو نئی حلقہ بندیوں کیلئے درکار تمام سہولتیں اور تعاون فراہم کریں۔
جس دن سینیٹ میں یہ بل منظور ہونا تھا، اسی دن بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے سینیٹ کو بند کمرے میں بریفنگ دی۔ میڈیا میں اس بریفنگ کے حوالے سے جو خبریں سننے کو ملیں ،وہ نہایت مثبت اور خوش آئند ہیں۔ ایک گھنٹے کی بریفنگ کے بعد ، سینیٹرز نے چیف صاحب سے سوالات کئے۔ سوالات، جوابات کا یہ سلسلہ کم و بیش چار گھنٹوں پر محیط تھا۔ اچھی بات یہ ہے کہ جنرل باجوہ نے واضح کیا کہ فوج کا سویلین حکومت کوغیر مستحکم کرنے میں کوئی کردار نہیں ہے اور نہ ہی فوج ایسا کوئی ارادہ رکھتی ہے۔ آرمی چیف نے یہ بھی کہا کہ ہم جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس بریفنگ کے بعد یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اس سے سول ملٹری تعلقات ٹھیک کرنے میں مدد ملے گی، کیونکہ بہر حال یہ اسقدر سہل معاملہ نہیں، البتہ اس سرگرمی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ آرمی چیف کا دیگر اعلیٰ افسران کیساتھ سینیٹ میں آنا اور سوالات کے جوابات دینا علامتی طور پر بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ واضح مطلب ہے کہ پارلیمنٹ (جو آئینی طور پر بالا دست ادارہ ہے)، اس کی بالادستی کو تسلیم کیا گیا ہے۔اس سے اور کچھ ہو نہ ہو فوج کے خود ساختہ ترجمانوں کی کچھ نہ کچھ حوصلہ شکنی ضرور ہوئی ہو گی، جو صبح شام ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر جمہوریت کے خلاف زہر اگلا کرتے ہیں۔ پھر ایک سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف بھی ہیں جو قومی اداروں کوپکارتے نظر آتے ہیں۔ کبھی عدلیہ کو آواز دی جاتی ہے کہ وہ فوری مداخلت کرئے ورنہ انہیں خدشہ ہے کہ اگر انتخابات ہوئے تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) جیت کر بر سر اقتدار آجائیں گی۔ چند دن پہلے یہ بھی کہہ ڈالا کہ وہ دل کی گہرائیوں سے چاہتے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت کو چلتا کیا جائے، ایک طویل المدت نگراں سیٹ اپ قائم کیا جائے اور کرپٹ سیاستدانوں کا کڑا احتساب کیا جائے۔ آج کل وہ میاں نواز شریف کو آئین و قانون اور عدالتوں کا احترام کرنے کی نصیحت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آئین و قانون سے کوئی بھی ماوریٰ نہیں ۔ اسی طرح عدالتوں کا احترام بھی ہم سب پر لازم ہے۔ مگر سابق آمر کے منہ سے ایسی باتیں انتہائی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہیں۔ موصوف دو بار آئین شکنی کے مرتکب ہوئے۔ جہاں تک عدالتوں کے احترام کی بات ہے تو انہوں نے 3 نومبر 2007 میں ایمرجنسی نافذ کی، آئین کو معطل کر دیا، سپریم کورٹ کے سترہ ججوں میں سے تیرہ کو غیر قانونی اور غیر آئینی طور پر گھر بھیج دیا۔ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بالوں سے پکڑ کر سر عام گھسیٹا گیا۔ قوم کی یاد داشت کمزور سہی مگر اتنی بھی نہیں کہ عدالتوں سے کیا گیا انکا سلوک بھول جائے۔اس بات کو دہرانے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ موصوف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کے مقدمے میں مطلوب ہیں۔ عدالتوں کے بلاوے کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ البتہ میڈیا پر بھاشن دینے کو ہمہ وقت آمادہ اور دستیاب ہوتے ہیں۔امید ہے کہ جنرل باجوہ کے سینیٹ میں آنے سے اور جمہوریت کے ساتھ وابستگی کے اظہار کے بعد ایسے لوگ ضرور سبق سیکھیں گے جو اداروں کو غیر جمہوری معاملات کی ترغیب دیتے دکھائی دیتے ہیں
اب امید ہے کہ نئے برس میں سیاسی جماعتوں کی توجہ عام انتخابات کی تیاریوں پر مرکوز رہے گی۔ یوں بھی مارچ کے پہلے ہفتے میں سینیٹ انتخابات منعقد ہونا ہیں۔ ان انتخابات کے بعد امکانی طور پر ایوان زیریں کی طرح ایوان بالا میں بھی مسلم لیگ(ن) کی اکثریت ہو جائے گی۔ اس سے قبل سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے بھی انتہائی بے یقینی پائی جاتی تھی، جو کہ اب نہیں ہے۔ان انتخابات میں اگرچہ دو ماہ کا عرصہ باقی ہے، مگر یہ دو ماہ بھی کچھ اسقدر آسان نہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری پنجاب حکومت کو 31 دسمبر کی ڈیڈ لائن دے چکے ہیں۔ اگرچہ انتخابی اور پارلیمانی سیاست میں ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ مگر جس طرح اپنے کنٹینر اور دھرنے کی مدد سے انہوں نے 2013 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا ناطقہ بند کئے رکھا اور 2014 میں مسلم لیگ(ن) کی حکومتی رٹ پامال کی، اس تناظر میں ان کی اہمیت ضرور ہے۔ حال ہی میں فیض آباد دھرنے والوں نے بھی ریاست کو بے بس کر ڈالا ۔سو علامہ طاہر القادری کے کنٹینر شو کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اب تو پی پی پی اور تحریک انصاف جیسی بڑی جماعتوں نے بھی علامہ صاحب کا ساتھ دینے کا عندیہ دے دیا ہے۔ اگر ڈاکٹر طاہر القادری پھر سے دھرنا دیتے ہیں اور دونوں جماعتیں ان کا ساتھ دیتی ہیں ،ایسی صورت میں مسلم لیگ(ن) تو مشکل میں پڑے گی ہی ملک بھی ایک بار پھر سیاسی بے یقینی کا شکار ہو جائے گا۔ خدا کرے کہ ایسا نہ ہو ۔

تازہ ترین