• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایاز صادق نے چند روز پہلے کہا تھا ’’کچھ ہونے کو ہے‘‘۔دو دن پہلےسینیٹ کے ان کیمرہ اجلاس سے صدا آئی ۔نہیں کچھ ہونے کونہیں ۔نواز شریف نے بھی لندن سے آوازدی کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی۔کل پھر اِسی یقین کا اظہار کیا۔تاریخیں دینے والوں کو بتایا کہ دوہزار اٹھارہ شروع ہونیوالا ہے ۔ دوسری طرف ’’مہانجومیوں نے کہا ’’نہیں نہیں ہماری پیشین گوئی ابھی تک قائم ہے ۔حکومت کا ستارہ زوال کے برج میں ہے ۔ خاندانِ شرفا کی بندر بانٹ خوابوں تک محدود رہے گی ۔ کسی خاتون کے وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کا کوئی امکان نہیں ۔ خاتون وزیر اعلیٰ کا قصہ بھی تھوڑاسا سُن لیجئے ۔کچھ بزرجمہروں کا خیال ہے کہ آئندہ انتخابات میں ممکن ہے وفاق میں نون لیگ اپنی حکومت بنانے میں کامیاب نہ ہوسکے مگرپنجاب میں حکومت بنانے کے بارے میں پُر یقین ہے اور بیچارے خادمِ پنجاب تو خادمِ پاکستان بننے کی جنگ لڑ رہے ہونگے۔ اسلئے کسی خاتون کے خادمہ ِ پنجاب بننے میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی ۔ہاں تو میں مہا نجومیوں کی بات کر رہا تھا ۔پتہ نہیں مہا نجومی الیکشن کے کیوں مخالف ہیں ۔اُن کے زائچوں میں دوہزار بیس اکیس سے پہلےانتخابات کیوں نہیں دکھائی دیتے۔انہیں عمران خان دو ہزار اٹھارہ میں وزیر اعظم کیوں نظر نہیں آتے۔حالانکہ موجودہ حالات دیکھ کر کوئی معمولی سی معمولی شد بد رکھنے والاسیاسی کارکن بھی یہی کہے گا کہ پاکستان کے اگلے وزیر اعظم عمران خان ہونگے ۔کیونکہ پیپلز پارٹی پنجاب میں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے ۔ نون لیگ کرپشن کی نذر ہوچکی ہےاور اس وقت بچے کھچے اقتدار پرقبضہ برقرار رکھنے کیلئے آپس میں دست و گریباں ہے ۔نواز شریف کی عدل مخالف تحریک کی چوہدری نثار نے کھل کر مخالفت کردی ہے ۔اس معاملے میں شہباز شریف بھی ان کے حمایتی ہیں مگر دانشوران ِ نون کی توپوں کا رخ عدالت گاہوں کی طرف ہے ۔سچ تو یہی ہے کہ صرف عمران خان ہی دکھائی دے رہا ہے ۔اقتدار کے ہما کے بیٹھنے کیلئے اُنکے کاندھے کے سوا کوئی اور جگہ شانہ موجود نہیں ۔ مگرمہا نجومیوں کو یہ سب کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔ ان کے زائچے میں ابھی تک ٹیکنو کریٹس کی حکومت کا شور و غوغا ہے حالانکہ گزشتہ ماہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی کہا ہے کہ ٹیکنو کریٹس کی حکومت کا کوئی امکان نہیں ۔اور بظاہر کوئی امکان ہے بھی نہیں ۔راوی ہر طرف چین لکھتا ہے ۔
ہاں ڈاکٹر طاہر القادری دھرنا دے سکتے ہیں ۔ پیر حمید الدین سیالوی کچھ اور استعفے اسمبلیوں کے اسپیکرز کو بھجوا سکتے ہیں ۔ایک وفاقی وزیر کا شمار بھی ان کے مریدین میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے دھرنا دیا تو پھر پی ٹی آئی بھی پیچھے رہنے والی نہیں ۔اسے اب دھرنوں کا تجربہ ہو چکا ہے ۔پاکستان کی تاریخ کا سب سے طویل ترین دھرنا پی ٹی آئی نے دیا ہے۔عمران خان نے کہا بھی ہے کہ اگر عدلیہ اور نیب کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی تو پی ٹی آئی دھرنا دے گی ۔الیکشن سے پہلے اپنے ورکرز کو متحرک کرنے کےلئے پی ٹی آئی کو ایک دھرنے کی اشد ضرورت بھی ہے ۔پیپلز پارٹی کے بھی نون لیگ کے ساتھ معاملات طے نہیں ہو سکے۔ان کی طرف سے بھی ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنےکی حمایت ہوسکتی ہے اور اگر ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ پیر سیال بھی مل گئے تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ۔خادم حسین رضوی کے دھرنے نے حکومت کی چولیں ہلا دی تھیں اگر یہ سب اکٹھے ہو گئے تو خیال آتا ہے کہ مہا نجومیوں کی پیشین گوئی پوری ہو جائے گی ۔ویسے انہیں اکٹھا ہونے سے روکنے کےلئے افواہیں گرم ہیں کہ سویلین حفیہ ادارے نے کام شروع کر رکھا ہے اس کام کےلئے فنڈنگ بھی موجود ہے ۔مہا نجومیوں کے مطابق عمران خان بھی نگران حکومت کے قیام پر راضی ہیں مگر وہ اُس کا دورانیہ چھ ما ہ سے زیادہ نہیں چاہتے ۔ان کی خواہش ہے کہ غیر جانب دار نگران حکومت آئے اور صاف شفاف انتخابات کرا کے چلی جائے مگر آنیوالے جانے کےلئے تھوڑی آتے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی میں جہانگیر ترین ایک ایسی شخصیت ہیں جو ٹیکنو کریٹس کی حکومت کے حق میں ہیں مگر سپریم کورٹ سے نااہل ہونے کے سبب ان کی آواز بہت کمزور ہو گئی ہے ۔مہا نجومیوں کے خیال میں پی ٹی آئی سے بھی کچھ لوگ ٹیکنو کریٹس کی حکومت کا حصہ بنیں گے جن میں شیخ رشید اور نعیم الحق کے نام سر فہر ست ہیں ۔وزیر ریلوے کے ایک قریبی دوست نے الزام لگایا ہے کہ موصوف کے خلاف نیب میں شروع ہونے والی کارروائی کا سبب ان کی طرف سے ٹیکنو کرٹیس کی امکانی حکومت کے متعلق رویہ ہے ۔
حکومت کی تبدیلی کے معاملے میں امریکہ کے کردار سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ۔امریکی نائب صدر کی دھمکیوں کا سبب تلاش کرنے والے امریکی رویہ کو پاکستان میں آنے والی امکانی تبدیلیوں کیساتھ بھی جوڑ رہے ہیں ۔نون لیگ کی حکومت امریکہ کیساتھ شروع ہونے والی لفظی گولہ باری کو بہت اہمیت دے رہی ہے ۔دانشورانِ نون کے خیال میں پاک امریکہ کشیدگی کی شدت جتنی بڑھتی جائے گی ٹیکنو کریٹ حکومت کے امکان اتنے کم ہوتے جائیں گے ۔ دوسری طرف یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ اگر امریکہ کی پسندیدہ ٹینکو کرٹیس کی حکومت آجائے تو یہ کشیدگی کی تازہ ترین تقریب فوراً اختتام پذیر ہو جائیگی ۔بہر حال دیکھتے ہیں کہ اس ساری صورتحال میں حمزہ شہباز کیا کرتے ہیں ۔پنجاب سے دستبردار ہونے کا اعلان کرتے ہیں یا ٹیکنو کریٹس کی حمایت کے متعلق سوچتے ہیں ۔

تازہ ترین