• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موبائل فون پر پیغامات کے لئے مخصوص ٹوں ٹوں سنائی دی، دیکھا تو ایک دوست کا نہایت ہی موٹیویشنل میسج(حوصلہ افزا پیغام لکھنا کچھ عجیب سا ہے) تھا، انداز تحریر سے لگ رہا تھا کہ forwarded as received ہے یعنی جوں کا توں پیغام۔ الفاظ کچھ یوں تھے’’ اس فلم نے سال کی بہترین اینیمیٹڈ فلم کا آسکر حاصل کیا ہے، یہ صرف چھ منٹ کی مختصر فلم ہے لیکن اسے مکمل کرنے میں ہدایتکار کو تین برس لگے، یہ ایک شاندار فلم ہے جس میں یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ آپ کی زندگی بدل سکتی ہے اگر آپ اپنے خوف پر قابو پالیں ۔‘‘ پیغام کے ساتھ اس فلم کا کلپ بھی تھا۔ دوستوں کو زچ کرنے کی میری خاص عادت ہے سو اسی سے مجبور ہو کے میں نے جواباً لکھا کہ اس فلم کے متعلق دعوے کی حقیقت کو جاننے کے لئے کیا آپ مجھے کوئی معتبر حوالہ بھیجنا پسند فرماویں گے، جیسے کسی قابل بھروسہ ویب سائٹ کا کوئی لنک وغیرہ۔ جواب میں قہقہے کی شکل کی ایک ایموجی(اس کا ترجمہ تعبیری چہرہ ہی ہوسکتا ہے) بھیجی جس کے آنسو بھی بہہ رہے تھے اور ساتھ میں لکھا تھا کہ جیسا پیغام مجھے موصول ہوا جوں کا توں آپ کو بھیج دیا، جناب کی طرح اتنی باریکی میں نہیں پڑتا کہ بھیجنے والے سے ہر بات کا ثبوت مانگتا پھروں ۔ اس کے بعد میں نے مزید کج بحثی کرنے کی بجائے وہ مختصر فلم دیکھی، ایک عام فلم تھی جس میں آسکر والی کوئی بات نہیں تھی اور نہ ہی ایسا کوئی شعبدہ جس کے لئے ہدایتکار کے تین برس لگ گئے ہوں اِلّا یہ کہ وہ میری طرح سست الوجود ہو۔ مسئلہ فلم کانہیں، مسئلہ اس دعوے کا ہے جو فلم کے کلپ کے ساتھ موصول ہوا اورجس کی صداقت کو پرکھے بغیر میرے دوست نے اسے جوں کا توں مجھے بھیج دیا۔ جی ہاں کوئی قیامت نہیں آگئی، ایک بےضرر سا پیغام تھا، آگیا، پڑھ لیا، مٹا دیا، آگے چلتے ہیں ۔
گزشتہ دنوں علامہ اقبال کی آواز میں شکوہ/ جواب شکوہ کے ایک کلپ نے بھی مقبولیت کے ریکارڈ توڑ ڈالے، یار لوگوں نے ایک دوسرے کو یہ کلپ نہایت جذباتی انداز میں اس جوں کے توں پیغام کے ساتھ بھیجا کہ اس آواز کی تحقیق ریڈیو پاکستان سے کروا لی گئی ہے جس میں ثابت ہو چکا ہے کہ یہ آواز علامہ کی ہے، سنئے اور سر دھنئے۔ اب قائد اعظم کی صوتی اور بسری دستاویز تو ہمارے علم میں ہیں مگر علامہ کی آواز کبھی کسی نے نہیں سنی تھی سو جونہی کسی مرد عاقل نے ایک بوڑھی سی مترنم آواز میں شکوہ سنا،جھٹ سے اسے علامہ اقبال کے ساتھ جوڑا، ساتھ میں ایک پیغام گھڑا اور کردیا فارورڈ۔ اس کے بعد اس پیغام نے ایسا طوفان مچایا کہ علامہ کے پوتے کو اپنا ایک کلپ بنا کر تردید کرنی پڑی کہ علامہ کی کوئی ریکارڈنگ موجود نہیں اور یہ آواز ان کی نہیں(ویسے پوتے کا کلپ بھی دیکھنے کی چیز ہے، جس انداز میں موصوف نے وضاحت کی ہے وہ اپنے آپ میں ایک آسکر وننگ پرفارمنس ہے)۔ جن کرم فرمائوں نے مجھے’’علامہ‘‘ کی آواز میں شکوہ بھیجا تھا ان سب سے میں نے پوچھا کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یہ اقبال کی آواز ہے تو کم وبیش ہر کسی نے یہی جواب دیا کہ انہیں نقل شدہ پیغام ملا تھا کہ یہ علامہ کی آواز ہے سو انہوں نے جوں کا توں آگے بھیج دیا !
آپ بھی کہیں گے میں کس مسئلے میں الجھ کر رہ گیا ہوں۔ اس ملک میں لوگوں کو تیس تیس سال تک انصاف نہیں ملتا، راہ چلتے بےگناہ افراد گولیوں سے بھون دئیے جاتے ہیں، کرپٹ طبقہ ملک پر قابض ہے، غریب رل رہا ہے، سفارش کے بغیر سرکاری محکمے میں کوئی سیدھے منہ بات نہیں کرتا اور میں ہوں کہ موبائل فون کے پیغامات پر سینہ کوبی کرنے بیٹھ گیا ہوں۔ بات مگر اتنی سادہ نہیں۔ مسئلہ نقل شدہ پیغامات کو پھیلانے کا نہیں، مسئلہ ہمارے مزاج، ہماری ذہنیت کا ہے۔ مثلاً پہلی بات تو یہ ثابت ہوئی کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی تحقیق اور جستجو کی بنیادی خصوصیت سے محروم ہے، ناخواندہ بیچاروں کو کیا دوش دیں۔ بغیر تحقیق کے آگے بات بڑھانے کو ہم سرے سے معیوب ہی نہیں سمجھتے بلکہ الٹا زیادہ تر لوگ تو اپنے آپ کو اس مقدمے سے یہ کہہ کر خود ہی بری کر دیتے ہیں کہ میں نے کب کہا کہ یہ سچ ہے، میں نے تو بس یہ پیغام جوں کا توں آپ کو بھیجا ہے، حالانکہ جب آپ کوئی مواد یا معلومات یا دعویٰ کسی کو بھیجتے ہیں تو اس کی صداقت اور ثبوت کی ذمہ داری بھی آپ پر ہی عائد ہوتی ہے ، یہ کہہ کر بری الذمہ نہیں ہوا جاسکتا کہ میں نے تو بس میسج فارورڈ کیا ہے۔ حدیث نبوی ﷺ بھی ہے کہ کسی کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ بغیر تصدیق کئے بات پھیلا دے (مفہوم)۔
جہاں تعلیم یافتہ افراد کا یہ حال ہو کہ وہ کسی نامعلوم شخص کی آواز کو محض اس لئے علامہ اقبال کی آواز مان لیں کہ انہوں نے کاپی پیسٹ پیغام میں یہ لکھا پایا تو پھر ایسی تعلیم کا ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ ہم ہر ٹائپ شدہ عبارت کو سچ مان لیتے ہیں چاہے وہ ٹوائلٹ کی دیواروں پر ہی کیوں نہ لکھی ہو۔ استثنا صرف یہ ہے کہ وہ کسی دوسرے سے متعلق ہو، ہم سے نہ ہو۔ آج کل ویب سائٹس کا حوالہ بھی بہت معتبر سمجھا جاتا ہے جبکہ یہ بھی ایک مغالطہ ہے، کسی ویب سائٹ پر کچھ موجود ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ سچ بھی ہے۔ معتبر ویب سائٹس بھی مستند اخبارات کی طرح ہوتی ہیں، وہ کوئی بھی خبر یا مواد بغیر تحقیق کے اپ لوڈ نہیں کرتیں۔ اس بات کا پتہ چلانا چنداں مشکل نہیں کہ کون سی ویب سائٹ کتنی مستند ہے، مگر کون اتنا تردد کرے، ہم تو وہ لوگ ہیں جو دوسروں کی کردار کشی پر تالیاں بجاتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ جس دور میں ہم زند ہ ہیں وہ اس قدر خوفناک ہے کہ اب یہاں کسی کی عزت محفوظ نہیں رہے گی۔ دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے والے اس عمل سے اپنے آپ کو کیسے بچا سکتے ہیں جب ایک بچے کے ہاتھ میں بھی موبائل ہو اور وہ ہر پیغام کو بغیر پرکھے جوں کا توں آگے بھیج سکتا ہو۔ سو، تیسری بات یہ ثابت ہوئی کہ جوں کے توں پیغامات کو فقط یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ یہ محض تفنن طبع کے لئے ہوتے ہیں اور اس سے منسلک کوئی بھی مواد یا معلومات اگر غیر مستند بھی ہوں تو چنداں فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ بات محض وقتی تفریح کی نہیں، یہ قوم کی افتاد طبع کی بات ہے۔
بعض اوقات تو ہم جانتے بوجھتے ایسے پیغامات ایک دوسرے کو بھیجتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں سو فیصدی یقین ہوتا ہے کہ جھوٹ پر مبنی ہیں مگر اپنی افتاد طبع کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں۔ ہم ویلے لوگ ہیں، کرنے کو کچھ نہیں، ایک موبائل فون ہاتھ میں ہے، پیغامات جوں کے توں آگے بھیجتے جاؤ،’’ جھوٹی گنگا ‘‘میں ہاتھ دھونے کا اس سے بہتر طریقہ بھلا اور کیا ہوسکتا ہے، اگر ایسا ہی ہوتا رہا تو آنے والے وقت میں ہم سب جھوٹ کے سمندر میں سے سچ کی سوئی تلاش کرنے کا کام کررہے ہوں گے!

تازہ ترین