• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی نشیب و فراز سے عبارت اور غم و خوشی کا استعارہ ہے، ایک دن کا درد بسااوقات برسوں کی راحتوں پر بھاری ہو جاتا ہے ۔شب و روز کی گردش سے مگر کیفیتیں بدلتی رہتی ہیں۔ بس قدرت کی جانب سے استقامت مقدور ٹھہرے تو رنگین و سنگین حالات زیرِ نگیں ہو سکتے ہیں۔ گزشتہ دو ماہ طبیبوں کے دام میں رہا۔ سرجری کا مرحلہ بھی آ یا، واقعہ یہ ہےکہ 2011 میںکالا یرقان جان کو آ یا تو شفا بھی ملی ،رواں برس اس نے پلٹ کر مگر پھر جگرِمن کوگھائل کردیا۔ معالج سے رجوع کیا تو ٹیسٹ سے پتہ چلا کہ جگر تو جگر، ایک گردہ بھی ساتھ چھوڑ چکا ہے۔ گویا بقول فانی بدایونی۔
دردکو پھر ہے میرے دل کی تلاش
خانہ برباد کو گھر یاد آیا
سوچا کہ کیسے کیسے بے وفا تن بدن کے چمن میں جمع کر رکھے تھے۔کُھلی آنکھ سے مگر دیکھا تو نگارِمن گردہ بے وفا نہیں تھا، اسے تو عدو نے پامال کیا۔ وہ جو میر اثر نے کہا تھا۔
بے وفا کچھ نہیں تری تقصیر
مجھ کو میری وفا ہی راس نہیں
خیر ہم یہ سطور آپ بیتی کی نذر کرکے اپنے مکھڑے کا دھکڑا سنانا نہیں چاہتے۔ سو آگے چلتے ہیں کہ، ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔ ہاں! دوماہ تک مختلف اسپتالوں کے چکر کے دوران رہ رہ کر یہ خیال ضرور ستاتا رہا کہ ایک شخصیت ادیب الحسن رضوی نے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ (SIUT) جیسے شاہکار ادارے کو کمال تک ایسےپہنچایا کہ جہاں ملک بھر کے بے کسوں کا علاج کیا جاتا ہے، اس سلوگن تلے کہ ’’علاج عزت نفس کے ساتھ‘‘ پھر یہ ادارہ توانا اور نیک نام کیوں نہ ہو کہ پروفیسر ڈاکٹر الطاف ہاشمی جیسے متحرک اور ایثار کوش آپ کی ٹیم کا حصہ ہیں۔ کاش اس ملک میں قحط الرجال نہ ہوتا تو وہ سب کچھ جو اس ناچیز نے سرکاری اسپتالوں میں سرگرداں پھرتے مریضوں کے ساتھ دیکھا، نہ ہوتا۔ ہمارا موضوع دنیا کی ساتویں ایٹمی ریاست پاکستان کے کروڑوں ایسے پاکستانی ہیں جنہیں افریقا کے چھوٹے سے چھوٹے ممالک کے باشندوں سے بھی کم طبی سہولتیں میسر ہیں۔ قدرت موقع دیتی ہے تو ایس آئی یو ٹی پر کچھ زیادہ لکھنے کی اپنی سی سعی کرینگے، دقتوں کی نشاندہی بھی۔ نامور صحافی مدثر مرزا اور کیپٹن فہیم الزماں لبرل ہیں ،وہ اس ادارے پر یوں بھی نازاں ہیں کہ یہاں بلاامتیاز شیخ و رنداور امیر و غریب کا مفت علاج کیا جاتا ہے اور یہاں سفارش اور اثر و رسوخ شجرِ ممنوعہ۔ کیپٹن فہیم الزماں کو تو آپ جانتے ہی ہیں ،جب کراچی کے ایڈمنسٹریٹر تھے تو نمایاں کام کئے۔بے داغ، عبدالستار افغانی صاحب کی طرح اُجلے اُجلے نکھرے نکھرے۔ایسا نہیں ہے کہ راقم کو قبل ازیں سرکاری اسپتالوں میں جانے کا موقع ’’نصیب‘‘ نہیں ہوا، مگر اس مرتبہ شاید بوجھ زیادہ تھا، سو قدم قدم پر تکلیف کا احساس گراں بار بنا۔ جناح، سول اور عباسی اسپتال کراچی کے بڑے شفاخانے ہیںمگر جہاں یہ سیاست کی نذر ہیں تو وہاں زیادہ کمانے کی ملک بھر میں بپا ہوس کے نتیجے میں یہاں کے ڈاکٹرز بھی اپنے فرائض سے کماحقہ انصاف نہیں کرپاتے۔ یہ محض الزام نہیں، آج اگر نیب فرائض کے حقیقی ردھم کے ساتھ حرکت پذیر ہوجائے تو معلوم ہو کہ ان ڈاکٹروں کے بڑے بڑے نجی طبی ادارے کیسے معرض وجود میں آئے۔ملک کے بادشاہ حکمران تو اپنا علاج دیارغیرمیں کراتے ہیں لیکن قائداعظم کے پاکستان میں غریبوں پر کیا گزرتی ہے، صرف ایک واقعہ لکھنے کی ہی سکت ہے۔ گو کہ اس کی حدت قلب و نظر کو راکھ کر گئی۔امر واقعہ یہ ہے کہ ہم اپنے امراض بابت ایک سرکاری اسپتال کے متعلقہ شعبے کی جانب رواں تھے کہ ایک آواز نے اپنی حصار میں لے لیا۔ ’’ماں! میں مرجائونگا۔‘‘ ...دل دہل گیا، ایک نوجوان اسٹریچر پر بے بسی کی تصویر بنا اپنی ماں کی صورت پر نظریں جمائے وقفے وقفے سے یہ کرب آموز الفاظ فضا میں اچھال رہا تھا۔ بے بس ماں آسمان کی طرف ہاتھ ملتے ہوئے دیکھتی، بہتے آنسو، نیم مردہ لاشے پر پڑتے اور زبان سے بہ مشکل یہ جملہ ادا ہوتا۔ یااللہ! میں اپنے لخت جگر کو کہاں لیکر جائوں؟فخرِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کہنا ہے کہ میں غریب سے غریب ملکوں میں گیا ہوں لیکن وہاں دوا خالص ملتی ہے جبکہ پاکستان وہ ملک ہے جہاں حرصِ زر کے باعث ملاوٹ کی جاتی ہے۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد دو کروڑ تک پہنچ چکی ہے ۔ پوری دنیا سے پولیو کا خاتمہ ہوچکا لیکن پاکستان ــــاپنے’ جوڑی دار ‘ افغانستان کے ساتھ اپنے بچوں میں معذوریاں بانٹ رہا ہے۔ امراض قلب کے سینکڑوں بچے ازلی دشمن بھارت جانے پر مجبور ہیں۔دو کروڑ افراد مختلف ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ایشیا کے ٹاپ 20اسپتالوں میں کوئی پاکستانی نہیں ، وطن عز یز میں غربت کا یہ عالم ہے کہ 60 فیصد آبادی یومیہ صرف دو سو روپے کما پاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ اس کمائی سے وہ پیٹ کا دوزخ ٹھنڈا کرینگے یا علاج... !اب آپ ہی بتائیں کہ بھوک، بیماری و لاچاری سے دوچار ایسے ملک کے سیاستدانوں ،مولویوں،ججوں، جرنیلوں، جرنلسٹوں کا طرز عمل کیسا ہونا چاہئے ،کیا وہ جو آج کل ہے؟
تو اسلام کی آن، نظریہ پاکستان کی جان، اے محبانِ وطن! معلوم ہوا کہ متذکرہ نوجوان کو پھیپھڑوں کا عارضہ ہے اور سانس میں سہولت کی فراہمی کیلئے اس اسپتال میں موجودوین ٹیلیٹرپر پہلے سے مریض موجود ہیں۔ لہٰذا اسکے داخلے کی گنجائش نہیں۔ نجی اسپتال میں یہ سہولتیں موجود ہیں لیکن ظاہر ہے کہ وہاں جانا کسی غریب کے بس کی بات نہیں۔ آپ ہم نجی اور سرکاری اسپتالوں میں آنے والوں کے لباس، سواری اور چہروںسے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ایک پاکستان کو کس طرح امرا اور غربا میں تقسیم کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ ایک پاکستان میں بھوک بیماری اور جہالت ہے جبکہ دوسرے پاکستان میں ہر آسائش، ہر سہولت، کیا قائداعظم نے ایسی فلاحی مملکت کا سوچا تھا؟۔ قائداعظم نے فرمایا تھا کہ ’’میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں‘‘ اور ان کھوٹے سکوں نےوسائل سے مالا مال ریاست کی قسمت کو ایسا کھوٹا کرکے رکھ دیا ہے کہ جہاں اشرافیہ کے کتوں، بلیوں اور گھوڑوں کیلئے تو تمام سہولتیں موجود ہیں لیکن غریبوں کیلئے سانس کی مشین تک دستیاب نہیں۔ پھر کیوں نہ دل بھر آئے۔
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
مختصر یہ کہ اسپتال میں لوگ آجا رہے تھے، ہر ایک کو اپنی پڑی تھی۔ محشر کی طرح ، بےگانہ کردینے والا… میں بھی اس شعبے کی جانب بڑھا، جہاں کی خاطر آیا تھا۔ واپس آیا تو ماں و مریض موجود نہیں تھے۔ میں یہ سوچ کر کہ شاید کسی اور بڑے سرکاری اسپتال میں چلے گئے ہوں، بوجھل قدموں کے ساتھ گھر کی جانب چل پڑا، سماعت پر مگر یہ صدا بار بار سنگ باری کرتی رہی، ماں! میں مرجائونگا... میں اگلے لمحے سوچتا کہ جس ملک میں ہزاروں بے قصور بم دھماکوں کے ذریعے تہہ ِ خاک ہوچکے ہوں، وہاں ہم میں سے کسی کے مرنے پر بھلا اختیار مند کیوں اپنے راگ رنگ بدمزہ کریں گے، پھر سچ کیوں نہ کہیں کہ کسی کے مرنے سے کاروبارِ دنیا کہاں رکتا ہے،ناصر کاظمی نے بھی توکہا تھا۔
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہونگے کوئی ہم سا ہوگا

تازہ ترین