• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ یہ دنیا امریکہ سے کہیں زیادہ بڑی ہے ۔ ‘‘اس جملے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی سطح پر ایک بہت بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے ۔ امریکہ کے نافذ کردہ نئے عالمی ضابطے ( نیو ورلڈ آرڈر ) کا عہد ختم ہو چکا ہے ۔ یہ جملہ گزشتہ ماہ اٹلی کے دارالحکومت روم میں ایرانی وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل برائے اقتصادی امور فریدون حاف بن ( Fereidun Haghbin ) نے ایک اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے ادا کیا ۔ یہ جملہ بہت مقبول ہوا کیونکہ آج کی دنیا کو سمجھنے کیلئے یہ جملہ ایک حوالہ بن گیا ہے ۔ اس جملے کا پس منظر یہ ہے کہ امریکہ نے ایران پر دو سال سے اقتصادی پابندیاں عائد کرا دی ہیں ۔ ان پابندیوں کے باوجود ایران کیلئے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا ۔ ایران میں پہلے سے زیادہ سرمایہ کاری ہوئی اور یہاں تک کہ امریکہ کے اتحادی یورپی ممالک نے ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات زیادہ مضبوط بنائے ۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ چین ایرانی معیشت میں اربوں ڈالرز انڈیل رہا ہے ۔ اس پس منظر کے ساتھ اس جملے کا دوبارہ ادراک کیا جائے کہ ’’ یہ دنیا امریکہ سے کہیں زیادہ بڑی ہے ۔ ‘‘
27 نومبر 2017 ء کو روم میں ایران اٹلی انویسٹمنٹ فورم کا انعقاد ہوا ، جس میں اٹلی کے سرمایہ کاروں اور وزارت اقتصادی امور کے عہدیداروں نے شرکت کی ۔ اٹلی میں اس فورم کے انعقاد سے ہی یہ پیغام ملتا ہے کہ یورپی ممالک ایران کے معاملے پر واشنگٹن سے اپنا راستہ الگ کر رہے ہیں ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ اکتوبر یہ اعلان کرکے دنیا کو چونکا دیا تھا کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام پر ایران امریکہ معاہدے کی توثیق نہیں کریں گے اور یہ معاہدہ ختم کر دیں گے ۔ انہوں نے کانگریس کو یہ بھی ہدایت کی تھی کہ ایران پر نئی پابندیاں عائد کی جائیں ۔ یورپی ممالک نے صدر ٹرمپ کے اس مہم جویانہ بیان کی حمایت نہیں کی ۔ اگرچہ یورپی سرمایہ کار ٹرمپ کے اس اعلان سے پریشان ہو ئے لیکن انہوں نے ایران کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات برقرار رکھنے کیلئے نئے راستے نکال لئے … جی ہاں !اب دنیا امریکہ سے کہیں زیادہ بڑی ہے ۔
ایران اٹلی فورم میں فریدون نے مغربی ممالک کو متنبہ کیا کہ اگر ایران میں مغربی ممالک نے سرمایہ کاری نہ کی تو چین وہاں ٹیک اوور کر لے گا ۔ فریدون کا کہنا یہ تھا کہ ٹرین آگے جا رہی ہے ۔ فریدون کے اس بیان کی مقبولیت کا اصل سبب یہ ہے کہ مغربی ممالک بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اگر وہ امریکی سیاست میں الجھے رہے یا پرانے سامراجی یا جدید نو آبادیاتی نظام پر انحصار کرتے رہے تو چین اور دیگر غیر مغربی ابھرتی ہوئی طاقتیں واقعی سب کچھ ٹیک اوور کر لیں گی ۔ چین نے ایران میں اربوں روپے کے منصوبے شروع کر رکھے ہیں ۔ ایرانی حکام کا کہنا یہ ہے کہ چائنا انٹرنیشنل ٹرسٹ انویسٹمنٹ کارپوریشن ( سی آئی ٹی آئی سی ) نے ایران میں 10 ارب ڈالرز کی کریڈٹ لائن قائم کی ہے ۔ جبکہ چائنا ڈویلپمنٹ بینک وہاں مزید 15 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری پر غور کر رہا ہے ۔ یہ سرمایہ کاری چین کے ’’ ون بیلٹ ون روڈ ‘‘ منصوبے کے تحت ہے ۔ واضح رہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) بھی اسی منصوبے کا حصہ ہے ۔ 2014 میں جب امریکہ نے ایران پر پابندیاں عائد کی تھیں ، اس کے بعد یورپی ممالک نے بھی ایران میں زیادہ سرمایہ کاری کی ۔ اٹلی ایران کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے ۔ اٹلی کی وزارت خارجہ کے اعدادو شمار کے مطابق 2016 میں ایران کو اٹلی سے 1.55 ارب ڈالرز کی برآمدات ہوئیں ، جو 2014 ء میں 1.15 ارب ڈالرز تھیں ۔ اسی طرح ایران سے اٹیلی کی درآمدات میں ان دو سالوں میں 140 فیصد حیران کن اضافہ ہوا اور یہ درآمدات 440 ملین ڈدالرز تک پہنچ گئیں ۔ اسی طرح ایران کی دیگر یورپی ممالک کے ساتھ تجارت میں بھی اضافہ ہوا ۔
یہ معاملہ صرف ایران تک محدود نہیں ہے ۔ شمالی کوریا اور قطر جیسے ممالک کے ساتھ چین اور مغربی ممالک کے تجارتی حجم میں اضافہ ہوا ، جن کا امریکہ نے معاشی گھیراؤ کرنے کی کوشش کی ۔ ایک اور بڑی تبدیلی یہ آ چکی ہے کہ ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکہ کے جن خطوں کے معدنی اور قدرتی وسائل کی وجہ سے امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے ان خطوں کو پسماندگی اور بدامنی میں دھکیلے رکھا ، وہاں بھی اب دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں خصوصاً غیر مغربی معیشتوں نے اپنا اثرورسوخ حاصل کر لیا ہے اور ان خطوں کی سیاسی اور معاشی حرکیات ( Dynamics ) تبدیل ہو رہی ہے اور وہ ’’ نیو ورلڈ آرڈر ‘‘ کے شکنجوں سے نکل رہے ہیں ۔ سرد جنگ کے خاتمہ اور سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا تھا اور دنیا میں ’’ یک قطبی ‘‘ ( Uni-Polar ) نظام قائم ہو گیا تھا ۔ دنیا میں وہ ہوتا تھا ، جو امریکہ اور اس کے اتحادی چاہتے تھے ۔ یہ عہد ’’ نیو ورلڈ آرڈر ‘‘ سے تعبیر ہوتا تھا اور گزشتہ پانچ صدیوں سے جاری استعماری اور نو آبادیاتی نظام کی بدترین شکل میں تھا ۔ ایک مرحلہ ایسا بھی آیا تھا کہ یہ دنیا کسی تبدیلی اور بہتری کے امکان سے مایوس ہو چکی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے ۔
یک قطبی نظام دم توڑ رہا ہے اور پھر سے دنیا کثیر قطبی ( Multi-Polar ) ہو رہی ہے ۔ نئی طاقتیں خصوصاً غیر مغربی سپر پاورز ابھر رہی ہیں ۔ دنیا میں نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں ۔ ابھرتی ہوئی غیر مغربی طاقتوں نے ترقی میں شراکت داری کا نیا نظریہ دے دیا ہے ، جس نے جنگوں اور بدامنی کے ذریعہ دنیا کو کنٹرول کرنے کا نظریہ غیر موثر بنا دیا ہے ۔ سرد جنگ اور نیو ورلڈ آرڈر کے زمانوں میں امریکہ کے اتحادی رہنے والے مغربی ممالک کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ امریکی سیاست میں پھنسے رہنے سے انہیں نقصان ہو گا اور چین ، روس ، ایران ، بھارت ، قطر ، پاکستان اور دیگر ابھرتی ہوئی معیشتیں ان کی تجارتی منڈیاں چھین لیں گی ۔ اب یہ دنیا امریکہ سے کہیں زیادہ بڑی ہے ۔ انہیں اس بات کا شدت سے احساس ہو گیا ہے ۔ یورپی ممالک کے علاوہ ان غیر یورپی ممالک خصوصاً مسلم ممالک کی لیڈر شپ کو شاید اس تبدیلی کا ادراک نہیں ہے ، جو ابھی امریکی ورلڈ آرڈر کی سیاست کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ وہ اپنے وسائل امریکی ورلڈ آرڈر کے عہد کے تضادات کو ہوا دینے میں ابھی تک جھونک رہے ہیں ۔ پاکستان کی سیاسی اور غیر سیاسی قیادت کو اس تبدیلی کا شاید ادراک ہو گا کہ ’’ یہ دنیا امریکہ سے کہیں زیادہ بڑی ہے ‘‘ لیکن اس تبدیلی سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت نہیں ہے ۔ امریکہ تذبذب کا شکار پاکستان کو اپنی نئی مہم جوئی کا میدان بنا سکتا ہے کیونکہ امریکہ اب بڑی مہم جوئی ضرور کرے گا تاکہ اس بات کو غلط ثابت کر سکے کہ ’’ یہ دنیا امریکہ سے کہیں زیادہ بڑی ہے ۔ ‘‘ اس مہم جوئی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹرین آگے جا رہی ہے اور تاریخ آگے کا سفر کر چکی ہے ۔ پاکستان کی سیاسی اور غیر سیاسی قیادت کیلئے بہت بڑا امتحان ہے ۔

تازہ ترین