• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے ہفتے لاہور میں دو اہم تقریبات منعقد ہوئیں۔ دونوں کے مہمان خصوصی پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہباز شریف تھے۔ پہلی تقریب کا تعلق انسانی صحت سے جبکہ دوسری کا تعلق تعلیم کے اہم شعبے سے تھا۔پنجاب فوڈ اتھارٹی نے انٹرنیشنل فوڈ سیفٹی اینڈ نیوٹریشن پر سیمینار منعقد کرایا۔ ہمارے ملک میں ماہرین کے بقول پچاس فیصد بیماریاں آلودہ پانی اور باقی پچاس فیصد بیماریاں ناقص، گندی خوراک اور جعلی ادویات سے ہورہی ہیں۔ پاکستان کے قیام کے 61برس تک کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ شہریوں کو ملنے والی خوراک کو بھی چیک کیا جائے کہ وہ کیا کھا رہے ہیں؟ اس کا معیار کیا ہے؟ خالص اور ناقص خوراک کس کو کہتے ہیں؟ فوڈ کلرز کیا ہوتے ہیں؟ 9برس قبل پنجاب میں یہ ادارہ قائم کیا گیا اور اس کی پہلی ڈائریکٹر عائشہ ممتاز نے جب دھڑادھڑکھانے پینے کی اشیا بنانے والی فیکٹریوں اور ہوٹلوں پر چھاپے مارے۔ تب ایک دم سوئی ہوئی قوم کو پتہ چلا کہ وہ جو کچھ کھا رہے ہیں وہ غذا نہیں بلکہ زہر ہے۔ ایسا میٹھا زہر جو ان کو بے شمار خطرناک جسمانی بیماریوں میں مبتلا کر رہا ہے۔ پاکستان میں کھانے پینے سے فوڈ پوائزننگ سب سے زیادہ ہے۔ آئے دن آپ اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں کہ زہریلی خوراک کھانے سے لوگ مر گئے۔ بلکہ پچھلے دنوں توکسی اسکول اور کالج میں بھی اس قسم کے واقعات سننے کو ملے۔
صوبہ پنجاب باقی صوبوں سے اس حوالے سے سب سے آگے ہے کہ یہاں سب سے پہلے فوڈ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ شہباز شریف کا وژن اس حوالے سے لائق تحسین ہے کہ انہوں نے کئی ایسے کام شعبہ صحت کے حوالے سے کئے ہیں جن کے ثمرات آنے والے برسوں میں ضرور سامنے آئیں گے۔ کسی بڑے کام کے اثرات تو فوراً سامنے آجاتے ہیں۔ مگر کسی اچھے کام کے نتائج اور ثمرات آنے میں کچھ وقت ضرور لگتا ہے۔ پھر بھی ان نو برسوں میں ناقص خوراک کی آگاہی کے بارے میں بہت کام ہوا ہے۔ وزیراعلیٰ نے اس سیمینار میں کہا کہ میں فوڈ اتھارٹی کے موجودہ ڈائریکٹر نور الامین مینگل اور ان کی ٹیم کو سلیوٹ کرتا ہوں کہ انہوں نے لاکھوں قیمتی جانوں کو بچایا۔اشرافیہ تو معیاری ریستورانوں میں اچھے اور معیاری کھانے کھا کر لطف اندوز ہوتی ہے جبکہ ملک کی آبادی کا بڑا حصہ چھاپڑی فروشوں اور چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں سے کھانا کھا کرزندگی کا وقت پورا کرتے ہیں‘‘۔ہمیں وزیراعلیٰ شہباز شریف کی باتوں سے پورا اتفاق ہے اور ان کے اقدامات سے عوام کو فائدہ پہنچ رہا ہے لیکن دوسری طرف فوڈ اتھارٹی کی توجہ تعلیمی اداروں کے اندر اور باہر فروخت ہونے والی اشیا خورونوش اور رنگ برنگ کے شربتوں کی طرف زیادہ نہیں، ملک کی 70فیصد آبادی نوجوانوں، اسکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم اسٹوڈنٹس پر مشتمل ہے۔ ذراسوچیں کہ جو بچہ/بچی چھوٹی عمر میں ہی ناقص اور گندی خوراک کھائے گا/گی اس کا جسم کیسے نشوونما پائے گا۔ اس کی ہڈیاں کیسے مضبوط ہوں گی؟ اشرافیہ کے گھروں میں بھی جو کھانا پکایا جاتا ہے عام آدمی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ایسے گھرانے بھی ہیں جو مچھلی بھی باہر کے ممالک سے منگواتے ہیں۔ ہمارے ہاں دیہات میں کبھی خالص خوراک ملتی تھی اب وہاں بھی ملاوٹ شدہ اشیا ملتی ہیں۔ اس وقت پورے ملک کے تعلیمی اداروں میں اور باہر سڑک پر انتہائی مضر صحت کھانے پینے کی اشیا فروخت ہورہی ہیں۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام اشیا تمام سرکاری اسکولوں، گلی او ر محلوں میں، مکانوں میں قائم پرائیویٹ اسکولوں کے اندر اور باہر فروخت ہورہی ہیں۔ میاں صاحب نے خود اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق معیاری خوراک کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے اور انسانی صحت کیلئے انہوں نے دو ارب 70کروڑ روپے کے فنڈز بھی جاری کردیئے ہیں۔پنجاب فوڈ اتھارٹی کا سارا زور لاہور اور چند ایک بڑے شہروں تک ہے۔ جبکہ دوسری جانب پنجاب کے سینکڑوں دیہات اور چھوٹے شہروں میں اس وقت بھی انتہائی مضر صحت اشیا فروخت ہورہی ہیں۔ رہی بات دودھ کی تو ڈبے کے دودھ کے بارے میں بھی بہت تحفظات ہیں۔ آج عمومی طور پر عوام کی صحت کا معیار گر چکا ہے۔
اسپتال مریضوں سے بھرے پڑے ہیں۔ بچوں کے قد بڑھ نہیں رہے، کینسر، پیٹ، ہڈیوں اور دانتوں کی بیماریاں عام ہو چکی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے اب عینکیں لگائے رہے ہیں۔حکومت اگر چاہتی ہے کہ پاکستان میں عوام کی صحت کا معیاربلند ہو تو سب سے زیادہ توجہ نوزائیدہ چھوٹے بچوں کی صحت پر توجہ دینا ہوگی۔دوسری جانب اسکولوں کے اندر کینٹینوں پر کام کرنے والے اسٹاف کی صحت کو چیک کرنا ہوگا۔ہوٹلوں میں کام کرنے والے ان لوگوں کی صحت کوسختی کے ساتھ چیک کرنا بھی ضروری ہے جو کھانے پکانے، سبزیاں بنانے اور مٹھائیاں بنانے کا کام کرتے ہیں۔ بہت ساری بیماریاں صرف ہاتھ نہ دھونے کی وجہ سے لگ رہی ہیں۔ان معلومات کو نصاب کا حصہ بنائیں۔ امتحانات میں اس کے بارے میں سوالات دینے چاہئیں۔
ملک میں کام کرنے والے لاکھوں فوڈ ورکرز مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ فوڈ ورکرز کے ٹائیفائڈ، ہیپاٹائٹس، دمہ، ٹی بی اورپیٹ کی بیماریوں کا فوراً چیک اپ کرائے۔ تمام ہوٹلوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے فوڈ ورکرز کا چھ ماہ/سال بعد میڈیکل چیک اپ کرائیں اور اس کی رپورٹ فوڈ اتھارٹی کو بھیجیں۔پاکستان میں خوردنی تیل لوگ بہت استعمال کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہرپاکستانی فی کس سال میں 30/25کلو تیل استعمال کرتاہے۔ امریکہ میں 15کلو فی کس تک ہے۔ جبکہ چینی فی کس دو سے چار کلو تیل سالانہ استعمال کرتے ہیں ۔اب آپ خود سوچ لیں کہ ہمارے لوگوں کی صحت کا عالم کیا ہوگا؟
حکومت پنجاب نے فوڈ ایگریکلچر ڈرگ ٹیسٹنگ لیب اتھارٹی بنا کر ایک اچھا قدم اٹھایا ہے۔ شہباز شریف نے 183ایکڑ رقبے پر انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے مین کیمپس کا سنگ بنیاد رکھا۔ یہ یونیورسٹی پاکستان کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہوگی۔ اس یونیورسٹی کو بنانے اور اس کا تصور پیش کرنے کا سہرا ڈاکٹر عمر سیف کو جاتا ہے جنہوں نے پنجاب کے ہر سرکاری محکمے میں آئی ٹی کو متعارف کرایا ہے اور بہت جلد اس کی مدد سے ای چالان بھی شروع ہورہے ہیں۔
وزیراعلیٰ نے اس موقعے پر بالکل درست کہا کہ ہم نے قائداعظمؒ، علامہ اقبالؒ کے فرمودات اور افکار پر عمل نہیں کیا لیکن انفارمیشن یونیورسٹی غریب اور امیر دونوں کو تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کرے گی۔ پاکستان کے لئے یہ بات بڑے اعزاز کی ہے کہ کئی عرب ممالک اور دیگر ممالک نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے نظام کو وہاں متعارف کرایا ہے۔ اس سلسلے میں پنجاب آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ نے بہت کام کیا ہے۔ ڈاکٹر عمر سیف پاکستان کے پہلے فرد ہیں جنہوں نے سب سے چھوٹی عمر میں پی ایچ ڈی کی اور صرف پاکستان کی خدمت کا جذبہ لے کر امریکہ سے لاکھوں روپے کی ملازمت چھو ڑ کر آئے۔ اگر پاکستان کے ہر ادارے میں ایک عمر سیف آجائے تو یقیناً وہ ادارہ بہت ترقی کرے گا۔
اس تقریب میں وزیراعلیٰ نے بڑے خوبصورت اشعار بھی پڑھے ۔ انہوں نےکہا؎
خوشبوئوں کا اک نگر آباد ہونا چاہئے
اس نظام زر کو اب برباد ہونا چاہئے
اگر پاکستان کے باقی صوبوں میں بھی شہباز شریف جیسا وژن رکھنے والا فرد آجائے تو وہاں بھی ترقی کا عمل تیز ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں ہنرمندافراد کی کمی نہیں۔ صرف انکی صلاحیتوں کو کسی ٹریک پر لانے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین