• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(عظیم گلوکار محمد رفیع کی سالگرہ کی مناسبت سے خصوصی تحریر)
یہ 1924ء کے دسمبر کی 24تاریخ تھی جب کوٹلہ سلطان پور کے ایک غریب روایتی گھرانے میں ایک ایسے نونہال نے جنم لیا جسے خدا نے غیرمعمولی آواز سے نوازا تھا، اس خداداد صلاحیت میں نکھارلانے کیلئے اس ننھے منے نے لڑکپن میں ہی ریاض شروع کر دیا تھا۔ گھر کا روایتی ماحول، غربت اس پر مستزاد! حکم ہوا لوگوں کے بال کاٹا کرو اور بس۔ حکم عدولی پر جوتوں سے تواضح ہوئی ۔ ’’سچی لگن ہو تو پربت بھی دھول ہے‘‘ پھر کیا تھا کہ اندرون بھاٹی کے تھڑے سے بلند ہونے والی یہ آواز ایسی ابھری کہ براستہ ممبئی دنیا میں گونجی اور گونج رہی ہے۔ یہ آواز ہے محمد رفیع صاحب کی۔ جنہوں نے پدم شری ایو ارڈ ہی نہیں 6فلم فیئر ایو ارڈبھی اپنے نام کر لیے اور 26ہزار گیتوں کی بر سات کر تے ہو ئے نہ صرف گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام بھی درج کروا لیا۔ رفیع صاحب کے یہ ہزاروں گیت گائے اردو ہندی کے علاوہ مرہٹی، بنگالی، پنجابی اور آسامی زبانوں میں ہیں۔ 80ء کے بعد کتنے برس بیت گئے جب بھی اکتیس جولائی آتی ہے ہم اپنے من کی دنیا میں مو سیقی کی ایک ایسی محفل منعقد کرتے ہیں جس میں ان کی یادوں کے دیے جلائے جاتے ہیں ان کی پرسوز آواز میں درد انگیز گیتوںکی لے سنتے ہوئے بار ہا آنکھیں نمنا ک ہو جا تی ہیں مگر ’’جانے والے کبھی نہیں آتے، جانے والے کی یاد آتی ہے‘‘ ہمیں ’’زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات‘‘ جب ان کے اچانک جانے کی خبر سن کر بے بسی و لاچاری کے عالم میںہم ادھر حیران پریشان سر گر داں تھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ’’کیا سے کیا ہوگیا‘‘ ’’دنیا وہی دنیا والے وہی، اک تارا نہ جانے کہاں کھو گیا‘‘۔ رفیع صاحب کا آخری نامکمل گیت ہم نے بیسیوں دفعہ سنا اور سچ تو یہ ہے کہ یہ گیت سنتے ہوئے اکثر ہماری آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔’’تیرے آنے کی آس ہے دوست، پھر یہ شام کیوں اداس ہے دوست۔۔۔۔۔‘‘ مہکی مہکی فضا کہہ رہی ہے تو کہیں آس پاس ہے دوست۔۔۔۔‘‘عظیم موسیقار نوشادصاحب نے محمد رفیع کو مخاطب کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے ؎’’تجھے نغموں کی جاں اہل نظر یونہی نہیں کہتے،تیرے گیتوں کو دل کا ہم سفر یونہی نہیں کہتے،دکھی تھے لاکھ پھر بھی مطمئن تھے درد کے مارے،تیری آواز کی شبنم سے دھل جاتے تھے غم سارے تیری تا نوںمیں حسن زندگی لیتا تھا انگڑائی، تجھے اللہ نے بخشا تھا انداز مسیحائی،تو ہی تھا پیار کا اک ساز اس نفرت کی دنیا میں۔ارے غنیمت تھی تیری آواز اس نفرت کی دنیا میں‘‘موسیقارنوشادسے رفیع صاحب کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ پہلی مرتبہ گاڑی خریدی تو سو چا کہ سب سے پہلے گاڑی ڈرائیوکر کے اپنے استاد کے حضور پہنچوں ، والہانہ پن کی یہ کیفیت تھی کہ نوشاد صاحب کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی ایکسیڈنٹ کر بیٹھے۔بلا شبہ رفیع صاحب کے گائے ہوئے گانوں کی تخلیق کا کریڈٹ ساحر لدھیانوی اور شکیل بدایونی جیسے تخلیق کاروں کے ساتھ ساتھ بابائے موسیقی نوشادصاحب اور دلیپ کمارصاحب جیسے فنکاروں کو بھی جاتا ہے لیکن ان کی لا جواب آواز کا اتار چڑھائو بے مثال ہے۔ یہ آواز جس غزل جس گیت کو لے کر اٹھی اسے لازوال بنا گئی۔ دکھ درد کے بول بولے تو لگا کہ خون جگر سے نہا کر واردات قلبی کے ساتھ نکلے ہیں شوخ اور چنچل گیت گائے تو محسوس ہوا کہ کا ئنا ت کی ساری خوشیاں، ساری شوخیاں اور ساری شرارتیں انہی لبوں پر مرتکز ہو گئی ہیں۔’’نین لڑ گئی رے‘‘ سن لیجئے۔مشکل سے مشکل گیت رفیع صاحب نے ایسی مہارت سے گائے کہ سننے والا بس سنتا ہی رہ جائے۔بیجوباوراکے گیت ’’دنیا کے رکھوالے‘سن درد بھرے میرے نالے‘‘ میں جس طرح آواز اٹھائی گئی ہے دنیائے موسیقی میں اس کی کوئی مثال نہیں مل سکتی ۔محمد رفیع کے گیتوں میں ایسی وارئٹی ہے کہ ان کی آواز سچوئشن کے مطابق ڈھل کر نئی کہانی نیا فسانہ تشکیل دے دیتی ہے۔ المیہ کے ساتھ ساتھ طربیہ، کلاسیکل اور نیم کلاسیکل ہر طرح کے گیت انہوں نے منفرد انداز سے گائے ۔ فلم ’’دل دیا درد لیا ‘‘کا وہ گانا جس کے بول ہیں ’’پھولوں میں گزاری کبھی کانٹوں میں جیا، کر لیا چاک گریبان کبھی دامن کو سیا۔کیا کہوں تیرے لیے میں نے آنسو بھی پیئے کبھی خاموش رہا کبھی شکوے بھی کئے اور یہ کہ ’’کوئی ساغر دل کو بہلاتا نہیں‘‘فلم دیدار میں ’’میری کہانی بھولنے والے‘‘ اور ’’نصیب در پہ تیرے آزمانے آیا ہوں‘‘ امر میں’’ انصاف کا مندر ہے یہ بھگوان کا گھر‘‘ ہے’’دکھ درد ملے جس میں وہی پیار امر ہے ’’ایک پھول دومالی میں ’’او ننھے سے فرشتے‘‘سنتے چلے جائیں رفیع صاحب کے گیتوں کا سلسلہ ختم نہ ہو گا۔ ان کی آواز ہمیشہ زندہ رہے گی اور یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ رفیع صاحب کی خدمات سے متاثر ہو کر جب وزیراعظم ہندپنڈت جواہرلعل نہرو نے یہ کہا کہ رفیع صاحب کوئی ایسی خواہش بیان فر مائیں جوکہ ہرحال پوری کی جا ئے گی تو اس بھولے بھالے انسان نے وزیراعظم ہند کو جواب دیا ’’پنڈت جی میری تمنا ہے کہ میرے نام سے لفظ ’’محمد‘‘ بھی جدا نہ کیا جائے۔ مجھے محمد رفیع بولا جائے‘‘۔

تازہ ترین