• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابھی چند دن پہلے خبر آئی کہ چین کی آن لائن کیب سروس ’’دیدی‘‘ نے چار ارب ڈالر کی خطیر رقم سرمایہ کاروں سے حاصل کی تاکہ اپنے آپریشنز کو وسعت دی جاسکے۔ چین کی سب سے بڑی رائیڈ ہیلنگ سروس کے طور پر جانی جانے والی کمپنی کے ڈالر کے ذخائر اب بارہ ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے اور اسکی قدر چھپن ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ عالمی سطح پر یہ دوسری بڑی کمپنی ہے۔ مزید اس نے پہلے ہی چین سے ایک ایسی ہی سروس خرید کر بین الاقوامی سطح پر دوسری کمپنیوں کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
آن لائن رائیڈ ہیلنگ سروسز پچھلے پانچ چھ سالوں سے ایک بہت بڑی تجارت کی شکل میں سامنے آئی ہے جسکی مالیت کھربوں ڈالر ہے۔ ان سروسز کیوجہ سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو گئے اور عام لوگوں کو بھی سفر کی کافی سہولیات میسّر آئیں مگر یہ کاروبار ہنوز ایک 'نو مینز لینڈ میں ہے۔ حال ہی میں ہسپانیہ کی ایک عدالت نے حکم دیا کہ آن لائن رائیڈ ہیلنگ سروسز محض موبائل ایپس نہیں بلکہ عام ٹیکسی سروسز کی طرح ہیں جن پر ٹیکسی سروس کے قوانین لاگو ہونے چاہئیں۔ لکسمبرگ کی ایک عدالت نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ آن لائن کمپنیاں لوگوں کو نا تجربہ ڈرائیوروں کی معیت میں ٹرانسپورٹ فراہم کررہی ہیں اور یہ کہ ریاست کو لازما اس ضمن میں قانون سازی کرنی چاہئے۔ پاکستان میں آن لائن ٹیکسی سروسز لگ بھگ دو سالوں سے کام کررہیں ہیں۔ اس دوران انکو غیر معمولی پذیرائی ملی ہے اور ابھی بھی روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں نئے ڈرائیور با عزت روزگار کی تلاش میں ان سروسز کے ساتھ وابستہ ہو رہے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے مگر اس سے ان سروسز کے میعار پر کافی فرق پڑا ہے۔ یہاں تک کہ ابھی کراچی سے ہماری ایک صحافی کولیگ نے یہ ہوشربا انکشاف کیا کہ حال ہی میں دوران سفر ایک ایسی کمپنی سے وابستہ انکے ڈرائیور کو پولیس نے شناخت کیلئے روکا تو انکے پاس نہ شناختی کارڈ تھا اور نہ ڈرائیونگ لائسنس۔ یہ صورتحال نہ صرف تشویشناک بلکہ خطرناک بھی ہوسکتی ہے۔ میں پاکستان میں لگ بھگ ایک سال سے یہ ٹیکسی سروس استعمال کر رہا ہوں۔ پچھلے سال کے اواخر میں اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ نے مجھے ایک خصوصی خطبے کیلئے مدعو کیا۔ میں سرینگرکشمیر سے تازہ تازہ اسلام آباد وارد ہوا تھا۔ کشمیر میں ہونے والے ریاستی قتل اور غارت نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا جسکی وجہ سے ڈاکٹر نے مجھے وقتی طور گاڑی نہ چلانے کا مشورہ دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مجھے اسلام آباد میں ٹیکسیوں پر ہی گزارہ کرنا پڑا اور میں اپنے ماضی کے تجربوں کی بنیاد پر عام کیب سروس استعمال کرنے لگا جو نہ صرف اپنی خستہ حالی کیوجہ مشہور ہے بلکہ اسکے کرایہ طے کرنے کے دشوار گزار مراحل کسی کارے دارد سے کم نہیں۔ یونیورسٹی نے میرے لئے ایک گاڑی کا انتظام کیا تھا جو میری رہائش کے باہر مجھے لینے آ گئی۔ کچھ حیرانگی اور گومگو کے عالم میں میں ٹیکسی میں سوار ہوا- پرانے ماڈل کی یہ سیڈان اندر سے بالکل صاف و شفاف تھی۔ ڈرائیور بڑے مودبانہ انداز میں پرمغز باتیں کرتا رہا۔
مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ ڈرائیور اس پہلے وسطی ایشیاء میں انسانی وسائل کا ماہر رہ چکا تھا اپنی بیمار ماں کیوجہ سے واپس پاکستان آیا تھا۔ وہ اپنے نئے کام سے خوش تھا۔ اس نے اس بات پر اطمینان ظاہر کیا کہ اسکے اکثر گاہگ پڑھے لکھے اور مہذب ہوتے ہیں جسکی وجہ سے سفر بلا کسی تردد کے گذرتا ہے۔ ایک مہینے کے اندر میں نے اسلام آباد میں پڑھانے کا پیشہ اختیار کیا اور آن لائن ٹیکسیاں میری زندگی کا حصہ بن گئی۔ اسی دوران میری ملاقات بہت سے کیپٹنز( ڈرائیورؤں) کے ساتھ ہوئی۔ ان میں سےکچھ نئے اور کم تجربہ کار کسی اچھے کام کی تلاش میں وقتی طور ٹیکسی چلاتے تھے۔ مجھے کچھ ماہر استاد بھی ملے جو اپنے کام سے خوش تھے کیونکہ بقول انکے انہیں اس کام میں اچھی عزت مل رہی تھی۔ مختلف قسم کے ڈرائیوروں کیساتھ وقت گذارنا میرے لئے بہت معلوماتی اور پسندیدہ شغف ثابت ہوا۔ ان میں سے ایک سینئر ریٹریڈ انجنیئر تھے جو اپنی بیگم اور بہو کے روز روز کے جھگڑؤں سے تنگ آکر گھر سے باہر رہنے کے بہانے ڈھونڈتے رہتے تھے۔ آزاد کشمیر کا ایک نوجوان فٹبال کا کھلاڑی بننے کا خواہش مند تھا۔ وہ کشمیر میں ہونے والے ظلم و جبر پر افسوس کرتا رہا اور آزادی کیلئے دعائیں بھی۔ کشمیر کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار میں اس نے مجھے مفت رائیڈ آفر کی جو میں نے شکریہ کے ساتھ نکار دی۔ ایک اور ڈرائیور کیساتھ تبادلہ خیال کے دوران میں تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت کا وعدہ کربیٹھا جو ہنوز تشنہ تکمیل ہے۔ ایک اور صاحب میرے لئے فرنیچر سپلائر بن گئے جنکی دوکان پر مجھے قدرے مناسب داموں پر فرنیچر ملا۔ ایک صاحب ماضی قریب میں پراپرٹی ڈیلر رہ چکے تھے جنھوں نے دولت تو بہت کمائی مگر قسمت کے کھیل میں سب کچھ گنوا دیا۔ انھوں نے میرے لئے بحریہ ٹاؤن میں کرایہ پر مکان ڈھونڈنے کی سعئ ناکام بھی کی جس سے انکے گھٹتے ہوئے اثر و نفوذ کے بارے میں مزید جانکاری ملی۔
ایک نوجوان اس سے پہلے مرغے کی دکان پر کام کرتا تھا۔ میں اسکے نئے جاب میں اسکا پہلا گاہک تھا۔ پریشانی اور تذبذب کےعالم میں وہ رائیڈ سٹارٹ کرنا ہی بھول گیا۔ آدھا سفر طے کرنے کے بعد اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ ڈوب سا گیا۔ منزل پر پہنچ کر جب میں نے اسے روزانہ کے حساب سے بننے والا پورا کرایہ ادا کیا تو اسکے چہرے پر طمانیت کا احساس واقعی دیدنی تھا۔ قریبا دو ہفتے بعد میں نے اسکی گاڑی میں دوبارہ سفر کیا تو وہ پر اعتماد بھی نظر آیا اور خوش بھی۔ گزشتہ رمضان المبارک شروع ہوتے ہی چیزیں بدلنے لگیں۔ مجھے دوران سفر اچانک بدصورت اور قدرے گندی گاڑیاں ملنے لگیں۔
ڈرائیور حضرات بھی کچھ بدلے بدلے تیوروں میں نظر آنے لگے۔ وہ لمبے لمبے یا ٹریفک سے بھرے راستے لینے یا دانستہ آہستہ چلنے کی کوششیں کرنے لگے تاکہ زیادہ سے زیادہ پیسے کمائے جاسکیں۔ سفر کا معیار اس حد تک گر گیا کہ ڈرائیوروں سے بات کرنے کے بجائے میں خاموشی میں ہی عافیت سمجھنے لگا۔ جون کے مہینہ میںصرف ایک گھنٹے کے اندر ایک ہی مسافت کیلئے مجھے نہ صرف دو مختلف کرائے چارج کئے گئے بلکہ مسافت بھی مختلف دکھائی گئی۔ میں نے کمپنی سے تحریری شکایت کی تو انھوں نے جلد چھان بین کا یقین دلایا۔ مگر افسوس کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ نومبر کے اواخر میں میری بیگم اور تین سالہ بچی اور اسکی نانی نے لاہور کے ایک بس ٹرمینل سے ٹیکسی بک کی۔ آدھے راستے میں جب انھوں نے ڈرائیور سے گاڑی کی قدرے سست رفتاری کی شکایت کی تو ڈرائیور نے انہیں زبردستی ایک سنسان سڑک پر اتار دیا اور غصّے کے عالم میں سامان پھینک دیا۔ میری فیملی ایک گھنٹے تک خوف اور کسمپرسی میں پڑی رہی اور بڑی مشکل سے دوسری ٹیکسی حاصل کرکے گھر آگئی۔ اگرچہ اب کسٹمر سروسز کی صورتحال کچھ بہتر ہوئی ہے مگر ان کمپنیوں میں ایک بڑی کمپنی نے اب پیک اورز کے نام پر بے انتہا لوٹ مار شروع کی ہے۔ دن کے کئی اوقات میں ہائی ڈیمانڈ کے نام پر یہ کمپنی اپنے کرایہ دو گنا تک بڑھا دیتے ہیں اور بچارے مجبور مسافر دو دو ہاتھوں سے لوٹے جارہے ہیں۔ ایسے حالات میں ایک واضح قانون سازی ہی ایسی کھلی جعل سازی کو روکنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ اسکے علاوہ مزید کمپنیوں کے مارکیٹ میں آجانے سے ایک صحتمند مقابلے کی توقع بھی کی جاسکتی ہے جس سے حالات میں بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔

تازہ ترین