• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد علی جناح ایک ایسا نام کہ جس کا تصور کریں تو دل و نگاہ کے سامنے انسانی عظمت اور وقار کا پیکر آ جا تا ہے۔جس نے تمام عمراعلیٰ اخلاقی اقدار ،اصول پسندی، قانون کی حکمرانی،انسانیت کی سربلندی،معاشی و سیاسی آزادی،سماجی برابری ،عدل،منطقی استدال کی صرف بات نہیں کی عملی طور پر مظاہرہ بھی کیا۔جدوجہد کی طویل عمر میں اقدار اور قانون پررستے سے ہٹ کر چلنے کا ایک بھی واقعہ نہیں ملتا۔بلکہ اُن کا ہرعمل اور تقریر ایک مثال ہے۔قائداعظم کی یومِ ولادت پر اُنھیں ہر سال بھرپور طریقے سے یاد بھی کیا جاتا ہے اور خراجِ تحسین بھی پیش کیا جاتا ہے مگر اس برس حکومت پنجاب نے بڑے پیمانے پر جو تقریب منعقد کی جس میں پورے ملک سے مختلف شعبہ ء حیات کی نامور شخصیات کے علاوہ سفارت کاروں کو مدعو کیاگیا۔جس میں قائداعظم کو رسمی اور لفظی سیلوٹ مارنے کی بجائے پہلی بار وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے عظیم قائد کے ارشادات و فرمودات کو فراموش کرنے کو قومی پستی سے جوڑتے ہوئے دنیا میں عظیم ملک بن کر اُبھرنے کیلئے دوبارہ اُن کی فکر کو اپنانے کی بات کی۔اگر قائد کی سوچ اور اقبال کی فکر ہماری رہنما ہو تو ہم پہاڑوں کی چوٹیوں اور سمندروں کی گہرائیوں تک جا سکتے ہیں۔رہنما کے بغیر انسان کی حیثیت کشتی میں بغیر ملاح کی سی ہوتی ہے۔پانی کا بہائو جہاں اُسے لئے جاتا ہے وہ ادھر جانے پر مجبور ہوتا ہے کیونکہ کشتی چلانے والا رستوں سے باخبر ہوتا ہے۔اُسے مشکلات پرقابو پانے اور منجدھارسے بچنے کے گُر معلوم ہوتے ہیں۔پاکستانی قوم کی اخلاقی ،سماجی ،سیاسی اور معاشرتی بدحالی کا سبب ہی یہ رہا ہے کہ ابھی ملک اپنے پائوں پرکھڑا بھی نہیں ہوپایا تھاکہ قائد کو اگلی منزل کی طرف بُلالیا گیا۔اُس کے بعد اکثریت نے مفادات کو مقصدحیات قراردے کر شارٹ کٹ تلاش کرنے شروع کر دئیے۔ملکی اور قومی معاملات ،مسائل اور ترقی پسِ پشت رہ گئے اور مسندِ حکومت کیلئے مذہبی ،لسانی اور فرقہ واریت پرمبنی گروپوں کی تشکیل دی جانے لگی ۔ضیاء الحق کے دور میں اُنھیں خوب پروان چڑھایا گیا اور ملک پھر سے پیچھے کی طرف سفرکرنے لگا۔اسی دور سے قیامِ پاکستان کے مقاصد پرکاری ضرب لگائی گئی۔قوم کو تقسیم کے عمل سے گزارکر ہم آہنگی کوپارہ پارہ کردیا گیا۔پھریہ سلسلہ کسی نہ کسی صورت اپنا اثراور رنگ دکھاتا رہا ۔جب آپ کسی فریق کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں تو اُسے ایک پلیٹ فارم مہیا کردیتے ہیں۔آپ کا مقصد پورا ہونے کے بعد یا تو دوسرے اس سے مستفید ہوتے ہیں یا وہ خود خرید و فروخت کے نئے رابطے تلاش لیتا ہے ۔آج کے پاکستان کو قائد کا پاکستان بنانے کیلئے پہلے تقسیم کا سلسلہ ختم کرنا ہوگا۔وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے 25دسمبر کو خود سے سوال کرنے کی بات کی۔مگرہم خود سے سوال کیسے کریں۔ہمیں اُلجھانے والوں نے اپنا محاسبہ کرنے کی طرف راغب ہی نہیں ہونے دیا۔ہمارا حال تو کشتی کے مسافروں جیسا ہے ۔جس میں ملاح کی سیٹ ہی ختم کردی گئی ہے۔ریمورٹ کنٹرول سسٹم میں عوام کی رائے،فکر اور احتساب ،چہ معنی دارد،تاہم قائداعظم کی تصویر کے ساتھ سکرین پرجاری اور مکمل منصوبوں کی ڈاکومینٹری دیکھ کربحیثیت قوم اس بار زیادہ پچھتانے اور شرمندہ ہونے سے بچت ہوگئی۔اس ملک کوکمٹمنٹ،فیصلے کی قوت سے بھرپور ،وژنری اور مخلص ملاح کی اشد ضرورت ہے جو طیب اُردگان کی طرح بیرونی قرضوں کی غلامی سے نجات دلا کر قوم کا مورال بلند کرے۔تو ایک عہد ہم سب کوکرنا ہے اپنی آزادی کوسلامت رکھنے کیلئے کیونکہ ہماری آزادی سے ملک کی آزادی مشروط ہے کہ قائد اعظم کے افکار کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل مرتب کریں۔ بنیادی سہولتوں اورعدل پرکوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ پھردیکھیں قائداعظم کا پاکستان اخلاقی اور معاشی حوالے سے کتنا روشن اور خوشحال ہوگا۔مسلم لیگ ن کی طرف سے اگلے وزیراعظم کیلئے شہباز شریف کے نام پر فیصلہ ہوچکا ہے۔ایسی صورتِ حال میں خود کو سب سے بڑا خادم کہنے والے وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے سب سے عظیم قائد کی یومِ پیدائش کے موقع پر قومی حیثیت کی محفل میں قائداعظم کے وژن کے مطابق پاکستان کو چلانے کا عزم کرکے اپنے مستقبل کے عزائم کا اعلان کر کے قومی رہنما کے طور پرخود کورجسٹر کرالیا ہے۔بلکہ سفارت کاروں کے ذریعے پوری دنیا پراپنی پالیسی واضح کردی ہے کہ وہ قائداعظم کے فرمودات کے مطابق اتحاد،یقین،نظم کو اپنا ہتھیار بناتے ہوئے ہرکسی کے حقوق کی پاسداری کرینگے۔
تاہم ہمیں آج فیصلہ کرنا ہے کہ دنیا ہمیں قائداعظم کے حوالے سے پہچانے۔ہماری ذات میں اُن کی جھلک دیکھے یا خادم حسین رضوی کے پیروکار کی حیثیت سے ہم سے مکالمہ کرے۔ترقی کے اس دور میں ہم نے محبت کے رستے کا چنائو کرنا ہے۔یا تعصب کا ؟زندگی کو اخلاقی قدروں کے تناظر میں ڈھا لنا ہے یا اندھا دھند تاریک راہوںپر بھٹکنا ہے۔آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی حالیہ سینٹ حاضری اور جمہوریت کے حوالے سے اُن کے خیالات بھی پاکستان کو قائداعظم کے وژن کی طرف لے جانے کا عکاس ہیں ۔آنے والا کل خوبصورت بھی ہے اور روشن بھی یقین کیجیے کیونکہ یقین ہی اصل راز ہے۔
تاہم ایک سوال تو یہ بھی ہے کہ وقتا فوقتا مختلف لوگ اپنے ناموں کے ساتھ معتبر لاحقے لگا کر کہاں سے نمودار ہوجاتے ہیںاور حالات کا رُخ ہی موڑ دیتے ہیں۔شر،نفرت اور تعصب کا بیج ساون (موقع محل)میں اُبھرہی آتا ہے۔اسلئے اس کی بیج کنی زیادہ ضروری ہوجاتی ہے۔آج ایک فرد کے خلاف بویا جانے والا بیج کل پورے معاشرے کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔

تازہ ترین