• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ستمبر ’’ستم گر‘‘ دسمبر ’’دشمن بر‘‘ کے طور پر جانے والے مہینے سال 2018ء کی آمد سے قبل اپنا رخ بدل رہے ہیں سردی کی شدت میں سورج کی تمازت سے سکون محسوس کرتے دسمبر کی روشن کرنیں ایک بار پھر نئی امید اور امنگ کے ساتھ ابھر رہی ہیں، پاکستان کی ایک نئی تاریخ لکھی جارہی ہے۔ بے یقینی کو یقین‘ ناامیدی کو امید میں بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے مایوس چہروں پر خوشی کی لہر محسوس ہورہی ہے دور جاتی منزل پھر سے قریب محسوس ہونے لگی ہے وہی شخص امید کی کرن بن کر ابھرا ہے جسے ہر بار ناامیدی کا طعنہ دیا گیا، کتنے تلخ سوالات تھے جمہوریت کے دعوے داروں کے‘ جن کا خندہ پیشانی سے جواب دیا گیا وہ بار بار یقین دلاتا گیا کہ ہم پر بھروسہ رکھیں‘ فوجی آمریت کا دور اب نہیں آئے گا جمہوریت کا چلن ہی چلے گا، ہم سے خوف زدہ نہ ہوں آپ رہنمائی فرمائیں ہم عمل کریں گے۔ اس نے ایک بار پھر کہا ’’ہم نہیں آنا چاہتے سیاست دان موقع کیوں دیتے ہیں‘‘ جی ہاں! سپہ سالار پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایوان بالا کی ہول کمیٹی کے روبرو دل کی باتیں کھول کر رکھ دیں۔ یہ نئی تاریخ ہی تو لکھی جارہی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے بابا جی بھی اپنے فیصلوں کے بعد بول پڑے کہ ہم نے آئین اور جمہوریت کے تحفظ کی قسم کھا رکھی ہے۔ جمہوریت ہے تو آئین ہے اور آئین ہے تو ریاست ہے، کیا وقت آگیا ہے کہ عدل کے بابا جی کو بھی قسم کھا کر کہنا پڑا کہ عدلیہ پر کوئی دبائو نہیں، کسی کا دبائو ہوتا تو حدیبیہ کا فیصلہ اس طرح نہ آتا یہ تاریخ ہی تو لکھی جارہی ہے کہ ایک بڑا منصف یقین دلا رہا ہے کہ ہم آئین پاکستان کا تحفظ کریں گے۔
جی ہاں! یہ پاکستان کی تاریخ ہی رقم ہو رہی ہے کہ چند ماہ قبل سیاست کے سب سے مضبوط ستون میاں محمد نواز شریف اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کے نتیجے میں وزارت عظمی کے عہدے سے نااہل قرار پائے اور وہ شدید غصے میں سڑکوں پر نکل آئے، جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی سازش کا واویلا مچایا‘ عدلیہ کے فیصلوں کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لائے اور ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہوئے۔ یہ پاکستان کی نئی تاریخ ہی تو لکھی جارہی ہے کہ موجودہ سیاسی تاریخ کا مضبوط ترین کردار ایک دن قبل عدل بحالی تحریک کا اعلان کرتا ہے اور دوسرے دن ہی اپنے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف کو اپنا سیاسی جانشین مقرر کر کے ناصرف اپنی نااہلی کے فیصلے پر مہر ثبت کرتا ہے بلکہ خود ہی اپنی اعلان کردہ عدل بحالی تحریک کا انجام بھی لکھ دیتا ہے۔ یہ تاریخ ہی تو ہے کہ فیصلے قبول نہ کرنے والے فیصلے قبول کررہے ہیں اور عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے دو مضبوط کردار یکے بعد دیگرے جمہوریت کے خلاف سازش کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کو شٹ اپ کال دے رہے ہیں اور ایسے سیاسی چکر بازوں کو وارننگ دی جارہی ہے کہ وہ اپنے کام سے کام رکھیں مقتدر اداروں کو سیاست میں مت گھسیٹیں، اعلیٰ ترین اداروں کے نام پر لوگوں کو دھوکہ نہ دیں اور ان کے نام پر اپنی سیاست کی دکان مت چمکائیں، پاکستان کے سیاست دانوں کا المیہ یہ ہے کہ اپنے پلّے کچھ نہیں، ایک دوسرے کے کانے ہیں مگر حالات خراب کرنے، کنفیوژن پیدا کر کے بار بار سیاسی بحران پیدا کرنے کے ماہر ہیں، آئے دن قوم اور ملک کو ایک نئے دوراہے پر لا کھڑا کرتے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے حالیہ خیالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو ایک نقطہ بڑا واضح ہے کہ دونوں مقتدر، قابل احترام اداروں کے اندر بھی پاکستان کے عوام کی طرح سیاست دانوں کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں پائی جارہی۔ دونوں ادارے پاکستان کے سیاست دانوں سے مایوس نظر آتے ہیں جو توقعات ملکی دفاع، ترقی، خوش حالی ، انصاف، احتساب اور خارجہ امور بارے ان سے رکھی جارہی ہیں وہ پورا نہیں کررہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ملکی دفاع بلکہ نظام عدل بھی بری طرح دبائو کا شکار ہے۔ ترقی کا پہیہ بار بار رک رہا ہے۔ حیرت ہو رہی ہے کہ جن کو جمہوریت بچانے کی فکر ہونی چاہئے وہ جمہوریت لٹنے کا خدشہ ظاہر کررہے ہیں اور جن سے جمہوریت کو خطرہ لاحق ہے وہ اس کے تحفظ کا یقین دلا رہے ہیں اور قسم کھا کر کہہ رہے ہیں کہ وہ آئین پاکستان کا، جمہوریت کا تحفظ کریں گے۔ یاد رکھیئے ایک سچی تاریخ پاکستان کے عوام بھی لکھیں گے کہ کس کس نے پاکستان کا پیسہ کھایا، کس نے احتساب کے نام پر قوم کا وقت برباد کیا، کون کون انصاف کے نام پر انتقام کی بھینٹ چڑھا، احتساب کے نام پر کیسے کیسے جال بُنے گئے، کٹہرے سجے، ہنگامہ برپا ہوا، انصاف کے بڑے بڑے دعویدار پیدا ہوئے مگر انجام کچھ بھی نہیں، گلاس توڑا بارہ آنّے۔ جمہوریت اور سیاست کا ایک نیا انداز معاشرت و سیاست در آیا ہے کہ چور بھی کہتا ہے کہ مجھے انصاف چاہئے۔ ٹکرائو کی سیاست ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوئی ایک دوسرے کو دبائو میں لانے کا کھیل اب ختم ہونا چاہئے۔ ایک نئی تاریخ، اپنی ذات کی نفی کر کے پاکستان کی تاریخ۔ اور اس تاریخ میں میاں محمد نوازشریف کا کردار ابھی باقی ہے۔ وہ اقتدار سے باہر ہوئے ہیں پاکستان کی سیاست سے نہیں، وہ ایک قدم آگے بڑھیں، ٹکرائو کی سیاست سے باہر نکلیں۔ پاکستانی سیاست کے بابا رحمت بنیں۔ انتقام غصے کو چھوڑ کر اداروں کے درمیان پل کا کردار ادا کریں صرف اقتدار ہی ان کی منزل نہیں، آپ پاکستانی قوم کے رہنما کے طور پر فرنٹ لائن پر آئیں۔ رحمت بنیں زحمت نہیں۔ قوم کو اس کشمکش سے نکالیں جس نے سب کو گھما کر رکھ دیا ہے۔ ملک جن حالات سے گزر رہا ہے ان میں خود ساختہ ترجمانی تاریخی حقائق کو مسخ بھی کرسکتی ہے۔ بلامبالغہ حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کرنا سیاست دانوں کا وطیرہ بھی ہے اور ان خود ساختہ ترجمانوں کی روش بھی لیکن اگر ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے کی ڈگر اپنالی جائے تو اجڑے گلستان میں بہار آجائے۔ ہر کوئی اپنے حصے کا انصاف تلاش کررہا ہے تو کوئی اپنا حق۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ کچھ لوگ دوسروں کے حصے کا انصاف بھی اپنے ساتھ منسوب کرنا چاہتے ہیں۔ سینیٹ ارکان کو بریفنگ دے کر ضد، انا اور محاذ آرائی کے سمندر میں آرمی چیف نے جو ارتعاش پیدا کیا ہے اس سے خوش گوار احساس پیدا ہوا ہے اور صحت مند ریت نے بھی جنم لیا ہے مگر ان حالات میں جو لوگ تاریخ کے سنہری حروف کے نام پر کالے لیکھ لکھ رہے ہیں ان کا محاسبہ بھی ضروری ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اور جمہوریت کے استحکام کے لئے سیاست دان، ججز، فوج اور میڈیا متحد ہو کر ایک نئی تاریخ لکھیں جو حق سچ پر مبنی ہو جس کا فیصلہ عوام اپنے ووٹ سے کریں اور اس کا مقصد ایک روشن پاکستان کا قیام ہو۔

تازہ ترین