• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

25دسمبر کے روزنامہ جنگ کی شہ سرخی میرے سامنے ہے، اسی شہ سرخی میں بہت کچھ ہے۔ اس میں پاکستانی سیاستدانوں کا جھوٹ، ان کی قلابازیاں، ان کا ٹریک ریکارڈ، ان کا حقائق سے آنکھیں چرانا، ان کی دھمکیاں، گویا پاکستانی سیاست کا پورا ’’چہرہ‘‘ ہے۔ یہ ایک تقریب کا احوال ہے، کہنے کو تو یہ خواجہ رفیق شہید کی برسی تھی، اُس خواجہ رفیق شہید کی جس کے پاس دولت کے انبار نہیں تھے۔ وہ خواجہ رفیق جو نظریات کی سیاست کرتے تھے اور نظریئے کو دولت پر ترجیح دیتے تھے۔ ایک خالصتاً جمہوری کارکن کی برسی پر جن خیالات کا اظہار کیا گیا وہ تمام خیالات غیر جمہوری تھے۔
اس تقریب میں جو سیاستدان سب سے معزز سمجھا جا رہا تھا اُس کا نام جاوید ہاشمی ہے۔ ہاشمی صاحب نے جیسے جیسے اپنے نام میں تبدیلی کی ویسے ویسے ہی پارٹیاں تبدیل کیں۔ قلابازیوں کے ماہر اس کرتبی سیاستدان کا فرمانا ہے کہ ’’جمہوریت کے سوا کوئی نظام نہیں چل سکتا‘‘۔ واہ کیا بات ہے ہاشمی صاحب کی، ایک زمانے میں وہ ضیاء الحق کی کشتی میں بیٹھ کر ’’جمہوریت‘‘ کی خدمت کیا کرتے تھے۔ آج کل وہ ایک مرتبہ پھر سے اسی مسلم لیگ ن کا حصہ ہیں جس سے انہیں مبینہ طور پر ’’باردانہ‘‘ کے مبینہ الزام پر نکالا گیا تھا، جونہی چوہدری نثار علی خان پس پردہ گئے ہیں، جاوید ہاشمی نمودار ہو گئے ہیں۔ ان کی تازہ رونمائی کے لئے خواجہ سعد رفیق نے بہت کام کیا۔ وہی خواجہ سعد رفیق جنہیں 2004ء میں مسلم لیگ ن میں برداشت نہیں کیا جا رہا تھا۔ اس سلسلے میں کئی مسلم لیگیوں کو پتہ ہے کہ چوہدری نثار علی خان، خواجہ سعد رفیق کو پارٹی میں نہ رکھنے پر بضد تھے۔ خواجہ صاحب کو جماعت کے اندر رہنے کے لئے کئی پاپڑ بیلنا پڑے حتیٰ کہ چوہدری نثار علی خان کے سامنے مبینہ طور پر جھکنا پڑا۔ ایک بزرگ صحافی کے بقول خواجہ سعد رفیق مایوسی کے عالم میں ایک زمانے میں تحریک انصاف کا حصہ بننے کے لئے بھی تیار تھے۔ چونکہ ن لیگ میں خواجہ سعد رفیق کے پیر و مرشد جاوید ہاشمی ہی تھے، ہاشمی صاحب کی اپنی کشتی ہمیشہ ن لیگ کے سیلاب میں ہچکولے کھاتی رہی۔ میں یہاں یہ تفصیل تو نہیں لکھوں گا کہ آغاز سفر میں ہاشمی صاحب یا خواجہ سعد رفیق کی مالی حیثیت کیا تھی کیونکہ یہ کام میرا نہیں، یہ نیب کا کام ہے اور نیب اس سلسلے میں اپنا کام کر رہا ہے۔ میرا تو جو مشاہدہ ہے وہی ہے کہاں موٹر سائیکلیں اور پھر کہاں دولت کے انبار۔ حضرت علیؓ اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ ’’جہاں کہیں بھی دولت کے انبار دیکھو تو سمجھ لو کہ کہیں نہ کہیں گڑبڑ ضرور ہوئی ہے۔‘‘
اب اس تقریب کے ایک اور مقرر کی سن لیں، جنہوں نے میزبانی تقریر میں ہی بہت کچھ کہہ دیا ہے۔ ان حضرت صاحب کا نام خواجہ سعد رفیق ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ’’لڑائی سے کچھ نہیں ملے گا، سب ایک دوسرے کو معاف کریں، آگے بڑھیں، آرمی چیف جمہوریت کے حامی ہیں، ان کا حکم ماننے والے بھی اس پر عمل کریں، عدلیہ سے ٹکرائو چاہتے ہیں نہ ہو گا، لوگوں کا فیصلہ چلے گا بند کمروں کا نہیں، کسی نے زیادتی کا پروگرام بنایا ہے تو ترک کر دے کیونکہ ہار ماننے والے ہم بھی نہیں، ہمارا ٹریک ریکارڈ موجود ہے‘‘ واہ کیا بات ہے خواجہ سعد رفیق کی، سبحان اللہ، خواجہ سعد رفیق ہی نے گوجرانوالہ اور پھر ہری پور میں عدلیہ کے خلاف تقریریں کیں، ایک تقریر انہوں نے لاہور میں بھی کی، میڈیا پر ان کے خیالات سے کون واقف نہیں۔ اب وہ فرما رہے ہیں کہ عدلیہ سے ٹکرائو نہیں چاہتے۔ لوگوں کے فیصلے کی بات کرنے سے پہلے انہیں سوچنا چاہئے تھا کہ لوگوں نے تو 2013ء میں اور فیصلہ دیا تھا، ملک کی بائیس سیاسی جماعتوں نے الیکشن میں دھاندلی کا سوال اٹھایا تھا، آپ کا حلقہ تو بہت زیر بحث رہا کہ وہاں دھاندلی کے انمٹ نقوش تھے۔ لوگوں کے فیصلے کا حال جاوید ہاشمی نے ضمنی الیکشن میں دیکھ لیا تھا جب پوری ن لیگ اور تمام سرکاری وسائل انہیں سپورٹ کر رہے تھے اب اگر آپ نیب کی کارروائیوں کو زیادتی کہہ رہے ہیں تو کیا کہا جا سکتا ہے، پاکستانی قوم کا جو پیسہ آپ کے چہیتے لیڈروں نے لوٹ کر بیرون ملک منتقل کیا، قوم اس پر کیا کہے۔ اسحاق ڈار کا تو اعترافی بیان بھی موجود ہے۔ رہی بات آپ کے ٹریک ریکارڈ کی تو ایم ایس ایف کے بہت سے ایسے لوگ ابھی زندہ ہیں جن کے کندھوں پر پائوں رکھ کر آپ آگے بڑھے۔ خواجہ صاحب کی کیا بات ہے وہ اپنے نااہل لیڈر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فوج کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی اس بات کا مطلب لوگوں کو بخوبی سمجھ آ رہا ہے کہ ’’آرمی چیف جمہوریت کے حامی ہیں، ان کا حکم ماننے والے بھی اس پر عمل کریں‘‘ خواجہ سعد رفیق کی خدمت میں عرض ہے کہ پاکستانی فوج ایک منظم ادارہ ہے وہاں آرمی چیف ہی کا حکم چلتا ہے وہاں ایسے لوگ نہیں ہیں جو آرمی چیف کا حکم نہ مانیں، آپ نے یہ اختلاف کہاں سے ڈھونڈ نکالا ہے۔ درحقیقت یہ آپ کے لیڈر کی چال ہے جو عدلیہ کے خلاف بھی تحریک چلانا چاہتے ہیں۔ فوج میں اختلافات پیدا کرنے کی کوشش آپ لوگوں نے پچھلی صدی میں بھی کی تھی لڑائی سے واقعی کچھ نہیں ملتا مگر یہ بات آپ جاتی امرا میں بھی سمجھایا کریں۔ اب آپ کہتے ہیں معاف کر دینا چاہئے۔ حضور! آپ کی پارٹی کے لوگ لوٹی ہوئی دولت واپس لے آئیں، آپ ختم نبوتؐ کے سلسلے میں ترمیم کرنے والے اصل چہرے بے نقاب کر دیں، خلیجی ریاستوں اور یورپ سے اپنے پیارے دیس کا پیسہ لے آئیں پھر شاید قوم آپ کو معاف کر دے۔ معافی تو ویسے بھی آپ لوگوں کی نہیں بنتی کیونکہ آپ کے انوکھے وزیر خزانہ نے ملک کو مقروض بنا دیا ہے، اس نے تو موٹر وے سمیت کئی ادارے گروی رکھوا دیئے۔ کیا آپ لوگ جمہوریت پسند ہیں؟ کہ آپ کے ملک میں 80فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔
اب آ جایئے تقریب کے تیسرے کردار کی طرف، پروفیسر احسن اقبال۔ موصوف فرماتے ہیں کہ ’’اگست کا لانگ مارچ اور سانحہ ماڈل ٹائون ایک ہی قوت نے کروایا‘‘۔ کیا بات ہے ہمارے پیارے وزیر داخلہ کی، اگر وہ قوت کا نام بتا دیتے تو لوگوں کو قوت کا پتہ چل جاتا کہ اصل قوت کونسی ہے۔ پروفیسر احسن اقبال کی والدہ محترمہ جنرل ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کی رکن تھیں خود پروفیسر بھی ہاتھ باندھ کے ملاقات کیا کرتے تھے، پروفیسر صاحب نے بچپن ہی سے جمہوریت کا سبق پڑھنا شروع کر دیا تھا، رہی سہی کسر ان کے فرسٹ کزن وصی ظفر نے مشرف دور میں وفاقی وزیر رہ کر پوری کر دی تھی۔
اس تقریب کے ایک مقرر کا نام خالد مقبول صدیقی تھا۔ اگرچہ خواجہ سعد رفیق نے ایم کیو ایم کے نام پر مکھن تو لگایا مگر خالد مقبول صدیقی پھر بھی پتے کی بات کر گئے۔ انہوں نے ن لیگی وزراء کی موجودگی میں کہا کہ ’’ن لیگ موروثی قیادت سے باہر نکلے، اُسے موروثی سیاست چھوڑنا ہو گی‘‘۔
سیاستدانوں نے فریب دینے میں کمال کر دیا ہے، کس کو پتہ نہیں کہ اداروں سے کون لڑ رہا ہے، کس کو خبر نہیں کہ پیارے ملک کو کس نے لوٹا، کس نے دولت لوٹی ہمارے دیس کی۔ بقول ساغر ؎
جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

تازہ ترین