• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے مسلمانوں کو progressive اور لبرل بنایا جا رہا ہے تا کہ امریکا و یورپ کسی طرح خوش ہو جائیں۔لیکن جو مرضی کر لیں اسلام کو نہیں بدلا جا سکتا ۔اور ہاں جنہیں خوش کرنے کے لیے یہاں رہنے والے مسلمانوں کو جدّت پسندی اور روشن خیالی سیکھائی جا رہی ہے وہ بھی کبھی مطمئن نہیں ہوں گے تا وقت کہ دین اسلام کو ہی خیر باد کہہ دیا جائے۔ ایک خبر کے مطابق وفاقی حکومت نے قومی کلچر پالیسی کا مسودہ تیار کیا ہے جس کے تحت ملک بھر کے اسکولوں میں جماعت اول سے میٹرک تک کے نصاب میں موسیقی، رقص اور مصوری بطور مظامین شامل کرنے کی تجاویز شامل ہیں۔ خبر کے مطابق اس پالیسی کا مقصد’’ قومی ثقافت‘‘ کو محفوظ بنانا ہے جبکہ اس پالیسی کی تیاری کے لیے پاکستان بھر سے نامور اداکاروں، فنکاروں اور ہنر مندوں سے مشاورت کی گئی۔ کوئی پوچھے ناچ گانے کا ہماری ثقافت سے کیا تعلق کہ اسکولوں میں بچوںکو اب میوزک اور رقص سیکھایا جائے گا۔ اگر یہ کلچر کسی کا تھا تو وہ اُس مخصوص طبقہ کا جن کا تعلق حسن کے بازاروں سے ہوتا تھا اور جن کو معاشرہ کبھی اچھی نظر سے نہیں دیکھتا تھا۔ ہمارے دین میں تو ایسی ثقافت کی کوئی گنجائش ہے ہی نہیں لیکن اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں ایسی روشن خیالی اور لبرل ازم کو پروان چڑھایا جا رہا ہے جو امریکا و یورپ کے لیے تو قابل قبول ہو سکتا ہے لیکن اُس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ اسلام تو اپنے پیروکاروں کو ایسے گناہ کے کاموں سے سختی سے روکتا ہے۔ میڈیا کے ذریعے ناچ گانے کو تو ہر ایک گھر میں پہلے ہی پہنچا دیا گیا ہے اور اب قومی کلچر پالیسی کے نام پر موسیقی اور رقص کی باقاعدہ تعلیم بھی دی جائے گی۔ اس پالیسی کے بنانے میں اداکاروں، فنکاروں وغیرہ نے اپنا کردار ادا کیا جو سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن جو سرکاری افسران اور سیاسی افراد اس کام میں شامل ہیں کیا اُن میں سے کسی کے اپنے گھر یا خاندان کا وہ کلچر ہے جسے ـ’’قومی کلچر پالیسی‘‘ کے نام پر وہ پوری قوم پر مسلط کرنے کی حکمت عملی بنارہے ہیں؟پہلے ہی یہاں حالات بہت خرابی کی طرف گامزن ہیں۔ ابھی چند روز قبل ہی میں نے سوشل میڈیا پر اسلامی اسکالرز ڈاکٹر ذاکر نائیک اور مفتی تقی عثمانی صاحب کا یہ پیغام کہ مسلمانوں کو Merry Christmas نہیں کہنا چاہیے، شیئر کیا لیکن اُن کی بات پر توجہ دینے کی بجائے بہت سے دیسی لبرلز میرے ہی پیچھے پڑ گئے۔ لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنمائوں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عسکری قیادت بھی Merry Christmas کا کیک کاٹتے ہوئے دیکھائی دی۔ بہت لوگ کہتے ہیں کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ بھی بحث کی جاتی ہے کہ ایسا کرنے کا مقصد تو بین المذاہب ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کو معاشرہ میں پروان چڑھانا ہے۔ چند برسوں سے ہمارے سیاسی رہنما ہندوئوں کے ساتھ عبادت کرتے اور اُن کی مذہبی رسومات میں حصہ لیتے دیکھائی دیئے۔کرسمس کے موقع پر کیک کاٹنا اور مسیحی برادری کی مذہبی رسومات میں شامل ہونےکا بھی اب رواج زور پکڑتا جا رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اسلامی ریاست میں بسنے والی غیر مسلم اقلیتوں کو اُن کے حقوق دیئے جائیں، اُن سے اچھا برتائو کیا جائے، اُن کی عزت و آبرو اور جان و مال کا تحفظ کیا جائے، اُ نہیں تعلیم و صحت کی سہولتیں میسر کی جائیں اور اُن سے کسی قسم کی ناانصافی سے گریز کیا جائے اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی جائے لیکن مغرب کی دیکھا دیکھی مختلف مذاہب کے رسومات جن کا تعلق faith سے ہے انہیں کلچر کا درجہ دے کر مسلمانوں کے لیے منانا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے اور یہی بات اسلامی اسکالرز کہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل اسی موضوع پر محترم جسٹس مولانا تقی عثمانی نے ایک کالم جنگ اخبار کے لیے لکھا جس کے کچھ اقتباسات یہاں قارئیں کرام کے لیے پیش کیے جا رہے ہیں :’’اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو شائستگی کے دائرے میں اپنے مذہبی تہوار منانے کا پورا حق حاصل ہے، اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس میں نہ خود کوئی رکاوٹ ڈالے، نہ دوسروں کو ڈالنے دے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ان کی وہ مذہبی رسمیں جو ان کے عقیدے پر مبنی ہیں، ان میں کوئی مسلمان انہی کے ایک فرد کی طرح حصہ لینا شروع کر دے......غیر مسلموں کے ساتھ رواداری، حسن وسلوک اور ان کی باعزت اور آرام دہ زندگی کا خیال رکھنا ضروری ہے اور مستحسن ہے، لیکن ہر چیز کی کچھ حدود ہوتی ہیں اور ان حدود سے آگے نکلنے ہی سے انتہا پسندی کی قلمرو شروع ہوتی ہے۔غیر مسلموں یا ان کی عبادت گاہوں پر حملے کرنا، یا ان کے اپنے مذہب پر عمل کرنے میں رکاوٹ ڈالنا یقیناً گناہ اور قابل مذمت ہے، لیکن کسی مسلمان کا ان کے عقیدوں پر مبنی رسوم میں شریک ہونا بھی ناجائز اور قابل مذمت ہے۔ اعتدال کا راستہ افراط و تفریط کی انتہائوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔ـ‘‘

تازہ ترین