• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے سیاسی میدان میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے عظیم والد شہید ذوالفقار علی بھٹو کی سچی پیروکار بن کر ابھریں۔ بے مثال حکمت اور سیاسی دانش کے ساتھ جدوجہد جاری رکھی۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی زندگی ہی میں بیٹی کو ان کی سیاسی صلاحیتیں پرکھتے ہوئے اپنی سیاسی جانشین کے طور پر تیار کرنا اور تربیت دینی شروع کردی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو اعلیٰ تعلیم کے لئے ہارورڈ یونیورسٹی اور آکسفورڈ جہاں وہ آکسفورڈ یونین کی پہلی پاکستانی صدر بھی منتخب ہوئیں۔ جس سے ان کی بے مثال قائدانہ صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں۔ اپنی واپسی پر انہوں نے انٹرنی کی حیثیت سے وزارت خارجہ میں شمولیت اختیار کی تاکہ سفارت کاری کے ہنر سیکھ سکیں۔ ساتھ ہی انہوں نے میڈیا مینجمنٹ کی عملی تربیت بھی حاصل کی۔ کچھ وقت کے لئے انہوں نے پی ٹی وی میں اینکر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ اپنے والد کے ساتھ متعدد ممالک کے دورے کئے۔ عالمی رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں۔ مختلف فورمز پر قومی اور بین الاقوامی ایونٹس میں شریک ہوئیں۔ ان کے والد نے ملکی مفاد میں کس طرح جدوجہد کی، اس کا مشاہدہ کیا۔ یہ بھی دیکھا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو سابق بھارتی وزیر اعظم آنجہانی اندرا گاندھی کے ساتھ کس طرح شملہ سمجھوتے پر پہنچے اور دستخط کئے۔ کس کمال ہوشیاری سے90ہزار جنگی قیدیوں کی وطن واپسی کو ممکن بنایا اور ہزاروں مربع میل کے علاقے بھارت سے واپس لئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی سیاسی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے متحرک اور اپنے والد کے ساتھ وابستہ رہیں۔ ان سے حقیقی بے مثال سیاسی قائدانہ صلاحیتوں سے استفادہ کیا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے آمر کے سامنے سرجھکانے سے انکار کردیا تھا۔ ہم نے دیکھا بے نظیر بھٹو بھی ان کے نقش ِ قدم پر چلیں۔ ضیاء الحق اور دیگر طاقت ور حریفوںکے جھکنے سے انکار کیا۔ اپنے والد کو تختہ دار پر چڑھائے جانے کے بعد بھی اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ بحالی جمہوریت کے لئے محترمہ کی تحریک روکنے کے لئے بھٹو کو جھوٹے کیس میں پھانسی دیئے جانے کےبعد انہوں نے جدوجہد جاری رکھی۔ بحالی جمہوریت کے لئے تحریک روکنے کی غرض سے محترمہ بے نظیر شہید اور ان کی والدہ کو پابند سلاسل کیا گیا، ایذا دی گئی لیکن انہوں ے آمر کی خواہشات کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے۔ جب وہ اپنی والدہ اور بھائیوں کے ساتھ جلا وطن تھیں، جنرل ضیاء کی آمرانہ حکومت نے ان کے چھوٹے بھائی شاہنواز بھٹو کو فرانس میں قتل کرایا اور ان کی بیوی کی فرانس سے روانگی کو ممکن بنایا۔ حالانکہ وہ اس قتل کیس میں مرکزی ملزمہ تھیں۔ یہ صدمہ کسی عام آدمی کو توڑ دینے کے لئے کافی ہوتا ہے لیکن بے نظیر بھٹو ضیاء حکومت کے حربوں کے آگے نہیں جھکیں۔ 10 اپریل1986کو ان کی تاریخی وطن واپسی ہوئی۔ وہ دو سال جلا وطن رہیں۔ ان کی واپسی سے مخالفین گھبراگئے حالانکہ وہ کہہ چکی تھیں وہ انتقامی سیاست پر یقین نہیں رکھتیں۔ وہ جمہوریت کی بحالی اور ملک کی بھلائی اور خوشحالی کے لئے کام کرنے آئی ہیں۔ دنیا نے دیکھا لاہور میں ان کی آمد بے نظیر رہی۔ جس نے اسلام آباد میں اقتدار کی راہ داریوں کو ہلاکر رکھ دیا۔ اسی لئے وہ آمروں اور دیگر سیاسی مخالفین کے حملوں کی زد میں آئیں۔ انہیں بدترین سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا، وطن واپسی نے بے نظیر کے حق میں ٹرینڈ بنادیا۔ ان کے دشمن دھمکیوں، اسلحے اور گرفتاریوں سے ان کا راستہ نہ روک سکے۔ آمر کی گھبراہٹ اس بات سے ظاہر تھی کہ اس نے محترمہ کا راستہ روکنے کے لئے ایک اور مارشل لاء لگانے کی دھمکی دی۔ لیکن انہوں نے تمام دھمکیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے پورے ملک میں اپنے دورے جاری رکھے۔ مختلف گائوں اور شہروں میں جلسے کئے۔ دنیا نے دیکھا وہ ایک مضبوط اور باہمت رہنماء بن کر ابھریں۔ انہوں نے دنیا کو2دسمبر1988کو ان کی پہلی حلف برداری یاد ہے جب وہ مسلم دنیا کی پہلی وزیر اعظم بنیں۔ اس موقع پر انہوں نے قومی پرچم سے مشابہہ سبز لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔ جس سے ان کی وطن کے ساتھ بے مثال عقیدت اور محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ مسلم دنیا کی پہلی وزیر اعظم کا اس موقع پر خطاب آج بھی کانوں میں گونجتا ہے۔ سبز لباس میں محترمہ بے نظیر بھٹو کا مومی مجسمہ لندن میں مادام تسائو کے عجائب گھر میں موجود ہے۔ وہ تیسری دنیا کی واحد سیاسی شخصیت ہیں جن کی خدمات کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ اور ان کے سیاسی مخالفین کی ذہنیت نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو کبھی قبول نہیں کیا اور وہ مسلسل ان کے خلاف سازشیںکرتے رہے۔ جس طرح ایک نہیں دو بار انہیں اقتدار سے محروم کیا گیا وہ پاکستانی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔یہ المیہ ہے کہ ان کی وزارت عظمیٰ کے دوسرے دور میں ان کے ایک اور بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کو20 دسمبر 1996کو کراچی میں ان کے گھر کے قریب قتل کردیا گیا۔ یہ ان کی حکومت کے خلاف ایک اور سازش تھی۔1996میں ان کی دوسری حکومت کے خاتمے کے بعد ان کے سیاسی مخالفین نے سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی میں تبدیل کیا۔ محترمہ اور ان کے شوہر کو جھوٹے مقدمات میں ملو ث کیا گیا۔ ان کی جگہ آنے والی حکومت نے ہائی کورٹ کے ججوں پر دبائو ڈالا کہ وہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر کو مجرم ثابت کرکے زیادہ سے زیادہ سزا سنائیں۔ جو بعد ازاں ٹیپ اسکینڈل کے نام سے مشہور ہوا۔ سازش میں نمایاں ججوں کو جب اس کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے عدالت عظمیٰ سے ریٹائرمنٹ لے لی۔ یہ اس وقت انصاف کا معیار تھا اور اس پر آج تک کسی نے معذرت بھی نہیں کی۔تمام مصیبتوں اور رکاوٹوں کے باوجود جلاوطنی میں انہوں نے معقول اکثریت بھی حاصل کرلی لیکن ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی مخالف اسٹیبلشمنٹ سازش کی اور پیٹریاٹ تخلیق کیے جنہوں نے اپنی لیڈر کو چھوڑ دیا اور آمر جنرل پرویز مشرف سے مل گئے۔ یہ میری لیڈر محترمہ بے نظیر بھٹو کے لئے بہت بڑا جھٹکا تھا اور مجھے یاد ہے کہ انہوں نے ان پیٹریاٹس کو دبئی میں بلایا تھا اور جہاں انہوں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ جنرل پرویز مشرف سے مل کر ان سے بے وفائی نہیں کریں گے۔ مجھے افسوس ہوتا ہے جب میں ان میں سے کچھ کو آج بھی اپنے اردگرد دیکھتا ہوں اور مجھے دبئی کی وہ ملاقات یاد آجاتی ہے جہاں انہوں نے میری لیڈر کے ساتھ وفادار رہنے کے عزم کیا تھا لیکن بعد میں وزارتوں کی ترغیب نے انہیں اپنی لیڈر کو چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ آخرکار بے وفا پیٹریاٹس کی وجہ سے پیپلز پارٹی حکومت بنانے کا موقع کھو بیٹھی۔جنرل پرویزمشرف نے ایک ووٹ کی اکثریت سے حکومت بنائی، جس کے لئے ظفر اللہ جمالی کو وزیراعظم بننے کی ضرورت تھی۔ ایک ووٹ کے لئے سپاہ صحابہ پاکستان کے سربراہ اعظم طارق کو اڈیالہ جیل سے رہا کیا گیا اور ایک اہم ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے قومی اسمبلی میں لایا گیا اور اس کے عوض سودے بازی میں ان کی جماعت کے کئی قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ یہ اس وقت کی حکومت کی سیاسی حمایت سے انتہا پسندی کو فروغ دینے کا آغاز تھا۔ شہید بےنظیر بھٹو ایک منفرد رہنما تھیں جن کی شخصیت میں اسلامی اور مشرقی اقدار اور پاکستان کے لئے اعتدال پسند چہرہ بھی تھا۔ ایک خوش، ترقی یافتہ اور خوشحال پاکستان ان کا خواب تھا اور انہوں نے اپنی آخری تقریر میں اس خواہش کا اظہار بھی کیا تھا۔ بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وجہ سے انہوں نے دنیا کی موجودہ خراب صورت حال کی پیش بینی کرلی تھی۔ وہ دنیا کو کسی بھی سیاسی فائدے کے لئے انتہاپسندی اور عسکریت پسندی کو فروغ دینے کے خلاف انتباہ کرتی رہتی تھیں۔ ایک مرتبہ انہوں نے کہا کہ ’’انتہاپسندی آج چیلنج ہے۔ ایک ایسا چیلنج جسے ہم سب کو مل کر لازما سمجھنا اور اس پر قابو پانا چاہیے قابل اس کے کہ یہ ہم پر حاوی ہوجائے اور ہمیں ختم کردے اور اپنے راستے میں تباہی چھوڑ جائے۔ نہایت صاف الفاظ میں انہوں نے دنیا کو انتباہ کیا تھا کہ انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کو فروغ نہ دیا جائے کیونکہ یہ بہت بڑی عفریت بن جائے گی، جو ہر کسی کو نقصان پہنچائے گی۔ ان کی پیش گوئیاں بالکل درست ثابت ہوئیں کیونکہ آج دہشت گردی اور انتہاپسندی ہر معاشرے میں ہے اور ہر کسی کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ انہوں نے دنیا پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اعتدال پسندی اور انصاف کی قوت کو مل کر لازمی طور پر انتہاپسندی کے بدصورت چہرے کا مقابلہ کرنا چاہیے۔‘‘ کاش کہ دنیا نے شہید بےنظیر بھٹو کی بات سنی ہوتی اور ان کی بصیرت کو اچھی طرح سمجھا ہوتااور آج انتہاپسندی اور دہشت گردی کے عفریت نے ہم سب پر اس طرح غالب نہ آئی ہوتی۔ ہر فورم پر انہوں نے جمہوریت کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور مجھے ان کے ایک ملک سے دوسرے ملک تک طویل کام اور سفر یاد ہیں جہاں وہ لیکچر دیتیں اور پاکستان میں جمہوریت کی وکالت کرتی تھیں۔ انہوں نے جمہوریت پر عالمی کانفرنس میں شرکت کے لئے تھائی لینڈ سے نائیجریا تک کا سفر کیاجہاں انہوں نے جمہوریت کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ مجھے یاد ہے کہ بنکاک میں پوری دنیا کی سیاسی جماعتوں کی کانفرنس تھی جہاں وہ اہم مقرر کے طور پر مدعو تھیں اور انہوں نے شیخ حسینہ واجد سمیت دنیا بھر سے آنے والے رہنماؤں سے گفتگو کی۔ شہید بی بی کی تقریر دانائی، بصیرت سے بھرپور تھی اور مستقبل کے حوالے سے تھی جس کے لئے دنیا کے ہر لیڈر اور تمام شرکا کی جانب سےان کے لئے تشکر کے جذبات کا اظہار کیا گیا۔ حسینہ واجد نے ان سے الگ سے ملاقات کی اور مجھے یاد ہے کہ بی بی نے انہیں کس قدر اچھا مشورہ دیا ، بی بی نے انہیں ان کے ملک اور دنیا بھر کی سیاسی صورتحال پر مشورہ دیا۔ بنگلا دیش کی وزیرا عظم بننے کے بعد حسینہ واجد نے محترمہ بے نظیر بھٹو سے ملاقات کی اور سیاسی مشورہ دینے پر ان کا شکریہ ادا کیا اور اسے حسینہ واجد نے انتہائی اہم اور گائیڈ لائن قرار دیا۔ وہ عالمی سیاست کا نشان تھیں اور سب ان سے متاثر رہتے تھے اور ان سے ہمیشہ مشورہ کرتے تھے۔ مجھے نائجیریا کے صدر اولسیگن اوباسانجو کی دعوت یاد ہے، انہوں نے بی بی کو سرکاری مہمان کے طور پر مدعو کیا تھا اور دورے کے دوران انہوں نے محترمہ کو اپنے گھر دعوت دی اور ان کا تعارف اپنے اہل خانہ خاص طور پر اپنی بیٹی سے کرایا۔ ناشتے کی میز پر صدر نے اپنی بیٹی کی جانب دیکھتے ہوئے ریمارکس دیے، ’’میں چاہتا ہوں کہ تم بے نظیر کی طرح بنو اور ان کی طرح بطور لیڈر ابھرو۔‘‘وہ اپنے کام میں انتھک اور مستقل مزاج تھیں اور انہوں نے کبھی آج کا کام کل پر نہیں چھوڑا۔ وہ وقت سے بہت پہلے اپنا شیڈول بنالیا کرتی تھیں اور بہت دیر تک مسلسل کام کرنے پر یقین رکھتی تھیں۔ وہ اپنے بچوں سے محبت کرتی تھیں اور اپنا زیادہ تر وقت ان کے ساتھ گزارنے کی کوشش کرتی تھیں۔ ان کا اپنے بچوں کے ساتھ باہمی تعلق نوٹ کرنے کے قابل ہےجو بہت متاثرکن اور محبت سے بھرپور تھا۔ میں ان تکلیف دہ لمحات کو نہیں بھول سکتا جب انہوں نے 25 دسمبر 2007 کو دبئی سے اسلام آباد کے لئے ایئربلیو کی آخری پرواز لی تاکہ اگلے روز پشاور میں عوامی جلسے میں شرکت کر سکیں۔ مجھے یہ سوچ کر دکھ محسوس ہوتا ہے کہ کس طرح دشمنوں نے بختاور اور آصفہ سے ان کی ماں اور بے مثال محبت چھین لی جنہوں نے بہت مسکراہٹوں اور حوصلے سے اپنی ماں کو خدا حافظ کہا لیکن ان کے چہروں پر جدا ہونے کے افسردہ جذبات تھے۔ انہوں نے دونوں کو گلے لگایا اور جاتے ہوئے اپنے دونوں بچوں کو کار سے دیکھ کر ہاتھ ہلایا۔ پہلی مرتبہ میں نے دیکھا کہ بے نظیر بھٹو اپنے بچوں کو پیچھے مڑ کر دیکھ رہی ہیں اور آخری نظر تک دیکھ کر ہاتھ ہلا رہی ہیں۔ان دنوں چیئرمین بلاول اپنی تعلیم کے لئے آکسفورڈ میں تھے اور انہیں کوئی آئیڈیا نہیں تھا کہ محض چند گھنٹوں کے بعد درد کا ایک طوفان ان کی جانب آئے گا۔ انہوں نے آمریت سے جمہوریت تک کے سفرکے لئے کس طرح کام کیا، یہ ایک اور باب ہے جس کی میں اپنی آنے والی کتاب میں وضاحت کروں گا۔ تمام تر عالمی سیاسی دباؤ کے باوجود جنرل پرویز مشرف نے بڑی صفائی سے اپنا ذہن واضح کیا تھا کہ وہ بے نظیر بھٹو کو ملک میں واپس آنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ مجھے جنرل پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان ایک گفتگو یاد ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ’’بی بی، میں توقع کرتا ہوں کہ آپ الیکشن کے بعد 21 دسمبر 2007 کو آئیں گی اور ہم مل کر نیا سال منائیں گے۔‘‘ محترمہ بے نظیر بھٹو نے جواب دیا، ’’جنرل، میں آنے کے لئے اپنا وقت خود منتخب کروں گی اور میں اپنی واپسی کے وقت کے لئے آپ کی ڈکٹیشن نہیں لوں گی۔ میں نے اپنے لوگوں سے وعدہ کر لیا ہے کہ میں پاکستان واپس آؤں گی اور اس وجہ سے اپنے لوگوں کے ساتھ اپنے وعدے کے مطابق واپس آؤں گی۔‘‘ ظاہر سی بات ہے کہ اس سے جنرل پرویز مشرف بجھ سے گئے کیونکہ انہیں جواب پسند نہیں آیا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب میں کئی واقعات کا ذکر کیا ہے جہاں جنرل پرویز مشرف نے ان کی واپسی پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ اب یہ ایک کھلا راز ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے کہا تھا کہ ان کو سیکورٹی کی فراہمی ان کے ساتھ محترمہ کے تعاون کی سطح پر منحصر ہوگی۔ یہ اس ذہنیت کا پس منظر تھا کہ حکومت نے محترمہ کو اتنی سیکورٹی فراہم نہیں کی جتنی دو سابق وزرائے اعظم کو دی گئی تھی۔ نامناسب سیکورٹی نے دہشت گردوں کو یہ موقع فراہم کر دیا کہ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو پاکستان کے سیاسی منظر سے ہٹانے کے ناپاک ارادوں میں کامیاب ہوگئے۔ اس سلسلے میں سازش کا سلسلہ 1993 تک جاتا ہے جب القاعدہ کے آپریٹرز نے کراچی میں ان پر پہلے قاتلانہ حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ پاکستان کے عوام اور جمہوریت کے لئے شہید بے نظیر بھٹو کی انتھک خدمات اور قربانیوں پر کتابوں کی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں لیکن آج میں اپنی عظیم لیڈر اور بہن کو بھرپور خراج تحسین پیش کرنے تک محدود رہوں گا جنہیں میں نے قریب سے دیکھا کہ ان کی شخصیت بے مثال اور خوبیاں بے مثال تھیں۔ میں اب بھی پرامید ہوں کہ جنہوں نے انہیں قتل کیا ان کی زندگی پر حملے کی سازش کی، قاتلوں کی معاونت کی اور پیسہ دیا اور مجرموں کو سہولتیں فراہم کیں جلد پھانسی پر چڑھ کر اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایس ایم بی بی کے منجمد کیس کو پنجاب سے ایف آئی اے میں ٹرانسفر کرایا۔ کیس کی تحقیقات اعلی سطح کی جے آئی ٹی نے کی تھی اور ٹیم نے سازشیوں، ہینڈلرز، فنانسرز، سہولت کاروںا ور کاروائی انجام دینے والوں کو شناخت کرلیا تھا۔ ایک بھرپور طور پر تفتیش کردہ کیس دستیاب گرفتار ملزمان کے ہمراہ عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ ایف آئی اے کی تحقیقات کے دوران سات ملزمان پراسرار طور پر ہلاک ہوگئے تھے۔ ٹرائل سات سال اور 22 دن تک تاخیر کا شکار رہا ۔ پیپلز پارٹی انصاف کی توقع رکھتی ہے کیونکہ انہیں دو مرتبہ منتخب وزیراعظم ہونے کے باوجود بلیو بک کے مطابق مناسب سیکورٹی فراہم نہیں کی گئی تھی۔ آخر میں، میں افغانستان کے صدر اشرف غنی سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اکرام اللہ محسود کو ڈی پورٹ کریں، یہ دوسرا بمبار تھا جو نہیں پھٹا اور جائے وقوعہ سے چلا گیا۔ وہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی سازش کا حصہ تھا اور اس سے تفتیش بہت اہم ہے۔ جس قدر جلد ممکن ہو اس سے تفتیش کرنے کی ضرورت ہے، اس کے بارے میں بھی توقع ہے کہ شہید بے نظیر بھٹو کے قتل کا ماسٹر مائنڈ اسے اڑا دے گا۔ میں امریکا کے صدر سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہمیں مطلع کریں کہ خیبر ایجنسی میں واحد ڈرون حملہ عباد الرحمن پر کیوں کیا گیا جو شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا چیف ہینڈلر تھا اور ٹی ٹی پی اور القاعدہ کا رکن تھا۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس ڈرون حملے کا پس منظر عوام کے سامنے لایا جائے گا تا کہ خیبر میں ہونے والے واحد ڈرون حملے پر کئی شکوک صاف ہو سکیں، جہاں وہ واحد ہدف تھا۔ ہم نے اس سےقبل امریکی حکام سے درخواست کی تھی لیکن آپ کے متعلقہ حکام نے پاکستانی حکومت اور پاکستانی تفیش کاروں سے تعاون نہیں کیا۔ ہم اب بھی جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔ آج محترمہ بے نظیر بھٹو کو بہترین خراج تحسین یہ ہے کہ ان کے کارکن بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ایک خوش و خرم، ترقی پسند اور ترقی یافتہ پاکستان کے خواب کو پورا کرنے کے لئے متحد رہیں اور ان کی وراثت کو بلند رکھیں۔ بی بی، ہم آپ کو سلام پیش کرتے ہیں، آپ دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ آپ آج ہمارے ساتھ نہیں ہیں لیکن ملک کی خدمت کرنے کے لئے آپ کی بصیرت ہماری رہنمائی کرتی رہے گی۔ پاکستان زندہ باد اور پاکستان پیپلز پارٹی پائندہ باد۔مصنف تھنک ٹینک ’’گلوبل آئی‘‘ کے چیئرمین اور پاکستان کے سابق وزیر داخلہ ہیں۔

تازہ ترین