• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوں تو ہر مہینے کی اپنی اہمیت ہوتی ہے لیکن دسمبر کا مہینہ اپنی موسمی خوبصورتی کے ساتھ ایک رومانوی موحول پیدا کردیتا ہے جی چاہتا ہے اچھلیں کودیں ناچیں گائیں۔ درویش کی بہت سی پسندیدہ شخصیات اس ماہ دنیا میں تشریف لائیں جن میں سرفہرست دی سیکنڈ لاسٹ پرافٹ حضرت عیسیٰ ؑ کی ولادت با سعادت ہے جسے کرسمس ؑ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں مسیح ؑ کی ولادت کو دنیا والوں کے لیے ایک کرشمے کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے اس ہستی کو جنم دینے والی عظیم خاتون حضرت مریم ؑ کے لیے ارشاد ہے کہ پروردگار عالم نے دنیا جہاں کی خواتین پر انہیں فضیلت بخشی ہے۔ اگر ہم کلام پاک سے ان ہر دو برگزیدہ ہستیوں کے مناقب پیش کریں تو یہ کالم اس کی وسعت کا متحمل نہیں ہو سکے گا۔ یہ کیسا مظلوم انسان ہے کہ جس پر لوگوں نے مظالم کے پہاڑ توڑے مگر اس نے کسی کے لیے بد دعا کی نہ کسی برائی کا سوچا۔ روئے زمیں پر اس سے زیادہ عدم تشدد کا پرچارک کون ہو سکتا ہے؟
ہم پاکستانیوں کے لئے کتنے بڑے فخر کی بات ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی ولادت کے اس مبارک دن ہمارے قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی پیدائش بھی ہوئی۔ وہ قائد جس نے اس مملکتِ خداداد کی بنیاد رکھتے ہی یہ اعلان کر دیا کہ آج کے بعد یہاں نہ کوئی ہندو ہو گا نہ مسلمان، مذہبی لحاظ سے نہیں کہ وہ ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے سیاسی حوالے سے اس مملکت کے شہری کی حیثیت سے کسی کا کوئی بھی عقیدہ ہے ریاستِ پاکستان کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوگا کیونکہ ان سب کی مساوی و برابر حیثیت ہو گی۔ ہمارے قائد اگر پاکستان کو اس کے مطابق نہیں ڈھال سکے تو اس میں ان کا نہیں ہمارا قصور ہے کیونکہ ان کو تو زندگی نے مہلت ہی نہ دی یہ فرض تو ان کے سیاسی جانشینوں کا تھا کہ وہ وطنِ عزیز کو قائد کا پاکستان بناتے۔
وطن عزیز کے سیاستدانوں میں آج اگر کوئی قائد کی نظروں سے دیکھ رہا ہے تو وہ تین مرتبہ منتخب ہونے والا عوامی امنگوں کا محور ہر دلعزیز رہنما نواز شریف ہے جس کا جنم دن بھی حضرت عیسیٰ ؑ اور قائداعظمؒ کی طرح 25دسمبر ہی ہے۔ وہ عوام اور پاکستان کی امید ہیں لیکن منفی پروپیگنڈے کے زیر اثر سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ شاطرانہ چالوں کے بالمقابل خلوص اور سچائی کی پہچان نہیں کر پاتے ہیں۔ اتنے طوفان بدتمیزی کے باوجود اگر عامتہ الناس اس پیکر و فا کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں تو یہ واقعی نادیدہ انقلاب ہو گا۔ ’’سنو سنو اے دنیا والو! باپو کی امر کہانی‘‘ جیسا لازوال گیت گانے والے عظیم فنکار جناب محمد رفیع کی ولادت بھی اسی ماہ دسمبر کی 24 تاریخ کو ہوئی وہ محمد رفیع جو اپنے فن کا بانی کہلایا اس جیسا کوئی گیت گانے والا آیا نہ آئے گا اور پھر 11دسمبر کے روز پشاور میں جنم لینے والے جنوبی ایشیاء کے مہان فنکار جناب دلیپ کمار کو ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔ وہ جس روپ میں بھی ہو لگتا ہے پیدا ہی اس روپ میں ہوا تھا۔ وہ جنوبی ایشیاء کے لاکھوں نہیں کروڑوں انسانوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہوا جس کے فن کا جادو ایک نسل پر نہیں کئی نسلوں پر چھایا رہا۔ جو نئے آنے والے فنکاروں کے لیے رول ماڈل اور لائٹ ہاوس بن گیا۔
جس طرح دن کے ساتھ رات اور خوشی کے ساتھ غمی جڑی ہوئی ہے پھولوں کے ساتھ کانٹے بھی قانونِ فطرت کا مظہر ہیں۔ اسی طرح دسمبر کی ان تمام تر خوشیوں کے ساتھ کئی غم بھی جڑے ہوئے ہیں اگر ہم ان ہستیوں کا ذکر شروع کر یں جو اس مہینے ہم سے بچھڑ گئیں تو کالم اپنی طوالت سے ناقابلِ اشاعت ہوجائے گا اس لئے ہم خود کو پشاور کی ان معصوم کلیوں تک محدود رکھتے ہیں جنہیں 16دسمبر کے روز طالبانی وحشیوں نے بے دردی سے کچل دیا۔ ان معصوم بچوں کی آہیں 16دسمبر کے دن کو ہمیشہ سوگوار کرتی رہیں گی اور ہمیں فلسفہ عدم تشدد کے پرچارک باچاخاں کے پیغام کی یاد دلاتی رہیں گی وہی فلسفہ جس کا اولین درس حضرت عیسیٰ ؑ نے اہلِ جہاں کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ 16دسمبر کا سوگوار دن ہمارے بہت سے اہل وطن کے لیے دہرُے افسوس کا سماں پیدا کر دیتا ہے کیونکہ 1971ء میں اسی روز ظلم، جبر، تشدد ، نفرت، دہشت اور آمریت پر یقین رکھنے والی طاقت کے ہاتھوں مملکت ِ پاکستان دو لخت ہو گئی تھی۔ ان دکھوں کے ساتھ پاکستانی قوم دسمبر کے آخر میں اس بدترین سانحہ کو کیسے بھول سکتی ہے جو ہماری ہر دلعزیز وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کو موت کے منہ میں لے گیا۔
آج سے ٹھیک دس سال قبل 27 دسمبر کی شام لیاقت باغ پنڈی میں جن لیزر شعاعوں سے محترمہ کے دماغ کو بھسم کیا گیا وہ درحقیقت ہمارے اجتماعی قومی شعور پر حملہ تھا۔ محترمہ کو ٹارگٹ کرتے ہوئے یہ ہماری لبرل سیکولر سوچ کو اڑا دینے کی کاوش تھی۔ یہ جنونی حملہ وطنِ عزیز میں ابھرتی انسانی و جمہوری اور امن و سلامتی کی سوچوں کو جلا کر راکھ بنا دینے کے لئے تھا۔ یہ اپنے تئیں آئین پارلیمنٹ اور قانون کی بالادستی کے خاتمے کا اعلان تھا۔ آمریت، جبر اور مفاد پرستی کا بول بالا کرنے کے لیے زمام کار اناڑیوں اور کٹھ پتلیوں کے ہاتھوں میں دینے کا پروگرام تھا جس طوفانِ بدتمیزی کے سامنے آج سوائے نوازشریف کے کوئی ایک بھی کھڑا دکھائی نہیں دیتا ہے۔ افسوس محترمہ کی اپنی پارٹی آج محترمہ کی خطے میں امن پسندی، انسان نوازی اور بلند فکری پر مبنی سوچ سے دستبردار ہے۔ بحیثیت قوم چاہئے تو یہ تھا کہ محترمہ کو غیر متنازع قومی شخصیت قرار دیتے ہوئے قائد کے بعد سب سے زیادہ متفق علیہ حیثیت سے قومی سیلیبس کا حصہ بنایا جاتا جس کے تہوار قومی سطح پر منائے جاتے اس کی فکری عظمت سے نئی نسلوں کو روشناس کروایا جاتا مگر افسوس غیر تو غیر اُن کے نام سے سیاسی فوائد حاصل کرنے والوں نے بھی انہیں محض اپنی سیاسی مقبولیت کا ذریعہ ہی سمجھا ان کے قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لئے کچھ نہیں کیا ۔ دسمبر کی رخصتی کے ساتھ جہاں ہمیں 31دسمبر کی رات اپنی ناکامیوں اور محرومیوں کا دکھ ہوتا ہے وہیں اسی رات نئی امیدوں اور ولولوں کے ساتھ ہم نئے سال کا استقبال بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ یوں ہم سب کو ماہِ دسمبر کی اہمیت کا اقبال و اقرار کرنا پڑتا ہے۔

تازہ ترین