• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے۔ اسلام اور جمہوریت دونوں میں حقوق العباد کی ادائیگی، علم کی فراہمی و حصول کی بہت اہمیت ہے۔ لیکن اکیسویں صدی میں اسلامی جمہوریہ پاکستان تعلیم کے لحاظ سے عالمی اشارئیے میں 187ممالک کی فہرست میں 147 ویں پوزیشن تک نیچے چلا گیا ہے۔ حقوق العباد کی صورتحال بھی قابل رشک نہیں۔ پاکستان کے آئین کے تحت پانچ سے سولہ سال کی عمر تک کے ہر بچے کو تعلیم دینا ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن آئین کے نفاذ یعنی 1973ء سے آج تک آنے والی جمہوری اور فوجی حکومتوں نے یہ ذمہ داری کس قدر اور کس طرح ادا کی ہے یہ ہم سب کے سامنے ہے۔ 1973ء سے پہلے پاکستان میں گورنمنٹ اسکولوں کا معیار والدین اور معاشرے کے لئے اطمینان بخش تھا۔ شہری اور دیہی علاقوں میں قائم ان سرکاری اسکولوں اورکالجوں نے قوم کو ہر شعبے میں نہایت قابل افراد فراہم کئے۔ ان تعلیمی اداروں نے اچھے مسلمان اور اچھے پاکستانی معاشرے کے حوالے کئے۔ 1973ء کے بعد سے گورنمنٹ اسکولوں کے معیار میں انحطاط آنا شروع ہوا۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں جہاں دیگر کئی خرابیوں نے پاکستانی معاشرے کی بنیادیں ہلا ڈالیں وہاں تعلیم کو بھی پیلے اسکول اور پرائیویٹ اسکول کے نچلے اور بالائی خانوں میں بانٹ دیا گیا۔ اس طرح پورے ملک میں طبقاتی تقسیم اور مراعات یافتہ ومحروم طبقات کے درمیان خلیج کو گہرا کرنے کا اہتمام کیا گیا۔
پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے کم از کم چار طبقات وجود میں آچکے ہیں۔ پہلا طبقہ ان طالب علموں کا ہے جن کے والدین امیر یا اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوسرا مڈل کلاس، تیسرا لوئر مڈل کلاس اور چوتھا طبقہ غریب و نادار والدین کے بچوں کا ہے۔ ریاست کا فرض تو یہ ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 25الف کے تحت پانچ سے سولہ سال تک کے ہر پاکستانی بچے کے لئے مفت اور لازمی تعلیم کی فراہمی کا اہتمام کرے۔ یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے پاکستانی عوام کی ضروریات اور روایات سے ہم آہنگ نصابِ تعلیم کی تیاری اور اس کی تعلیم کے لئے اساتذہ کی معیاری تربیت بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ نصاب قوم کی سماجی اور مذہبی روایات کا حقیقی عکاس ہو۔ اسکول میں دی جانے والی تعلیم وقت کے تقاضوں کے مطابق ہر شعبے کے لئے تعلیم اور ہنر سے آراستہ افراد فراہم کرنے کا ذریعہ بھی ہو۔ لیکن پاکستان کے تعلیمی اداروں میں رائج نصاب، ہمارے اسکول ٹیچرز کی اہلیت اور ہماری درس گاہوں کا ماحول مندرجہ بالہ مقاصد کی تکمیل میں معاون نہیں بن رہے۔ پاکستان میں صرف امیر یا اپر مڈل کلاس کے والدین ہی طبقاتی فرق برقرار رکھنے کے لئے اپنے بچوں کو مہنگے پرائیویٹ اسکولوں میں نہیں بھیج رہے بلکہ گورنمنٹ اسکولوں میں اساتذہ کی اکثریت کی کم صلاحیتوں اور غیر معیاری تعلیم کی وجہ سے مڈل کلاس والدین کی اکثریت بھی اپنے بچوں کو مالی مشکلات اٹھا کر پرائیویٹ اسکولوں میں بھیجنے پر مجبور ہے۔ ان پرائیویٹ اسکولوں کی فیس ڈیڑھ دو ہزار روپے سے لے کر بیس پچیس ہزار ماہانہ تک اور کہیں اس سے بھی زیادہ ہے۔ بعض مہنگے پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھنے والے طالب علموں کی اکثریت کو نہ تو اچھا مسلمان بنانے پر کوئی توجہ دی جاتی ہےاور نہ ہی اچھا پاکستانی بنانے کی کوئی فکر۔
سیکنڈری اور ہائیر سیکنڈری اسکولوں کی تعلیم کے لئے پاکستان میں کم از کم تین علیحدہ علیحدہ نظام رائج ہیں۔ ان کے نام (1) بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن BSEاور بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ایجوکیشنBIE۔ (2)کیمبرج انٹرنیشنل ایجوکیشن CIE۔ (3)آغا خان یونیورسٹی ایجوکیشن بورڈ AKU-EB ہیں۔ روایتی تعلیم کے ان تین بڑے نظاموں کے ساتھ مذہبی تعلیم کے لئےمدارس کا نظام پانچ مختلف اداروں کے تحت چل رہا ہے۔ ان میں وفاق المدارس العربیہ (سنی، دیوبندی)، تنظیمات المدارس (سنی، بریلوی)، وفاق المدارس الشیعۃ، وفاق المدارس السلفیہ اور رابطۃ المدارس (جماعت اسلامی کے زیر انتظام) شامل ہیں۔ پاکستان کے روایتی گورنمنٹ اور پرائیویٹ اسکولوں میں طالب علموں کی تعداد ڈھائی کروڑ سے زائد اور مذہبی مدارس میں تیس لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ پرائمری اسکول میں دو کروڑ پچیس لاکھ سے زائد طالب علم داخلہ لیتے ہیں لیکن سیکنڈری اسکولوں میں طالب علموں کی تعداد اٹھائیس لاکھ رہ جاتی ہے۔ جامعات کی سطح تک پہنچنے والے طالب علم صرف پانچ لاکھ تک ہیں۔ کئی اسباب کی وجہ سے دنیا کے 188ممالک کے تعلیمی اشارئیے میں پاکستان مسلسل انحطاط کے ساتھ 147ویں پوزیشن پر ہے۔ اس سے پہلے کے اشارئیے میں پاکستان کی پوزیشن 146تھی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان کے حکمراں ملک کو اس انحطاط تک جانے ہی نہ دیتے۔ ایسا ہو بھی گیا تھا تو فوری طور پر ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرتے اور پاکستان کو عالمی سطح پر تعلیمی لحاظ سے کسی بہتر پوزیشن پر لانے کی کوشش کرتے۔ صد افسوس کہ سیاسی کھیل تماشوں میں مشغولیت، حکمرانی کو اپنے لئے مراعات اور پروٹوکول کا ذریعہ سمجھنے کی عادت، ملک کے مستقبل کے ساتھ کوئی کمٹمنٹ نہ ہونے اور تعلیم کی فراہمی میں عدم دلچسپی نے یہ دن بھی دکھا دیا۔ اس انحطاط کی ذمہ داری کون قبول کرے گا؟ اکثر کہا جاتا ہے اور بالکل صحیح کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں حکومت کرنا عوام کے منتخب نمائندوں کا حق ہے۔ قانون سازی اور پالیسیاں بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے۔ پاکستان میں پانچ سے سولہ عمر تک کے ہر لڑکے اور لڑکی کو مفت اور لازمی تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہوگی۔ یہ شق بھی عوام کے منتخب کردہ نمائندوں نے آئین میں شامل کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ بعد میں عوام کی منتخب کردہ حکومت اور پارلیمنٹ اپنے اپنے فرائض پورے نہ کریں تو کیا ہوگا؟
صرف تعلیم کے بارے میں آئین کے آرٹیکل پر عمل درآمد کرنے کا معاملہ نہیں بلکہ اردو کو سرکاری زبان بنانے، مردم شماری میں تاخیر، بلدیاتی اداروں کو مالی و انتظامی خود مختاری دینے سمیت کئی نکات آئین میں دئیے گئے حقوق یا ہدایات سے انحراف کی مثالیں پیش کررہے ہیں اس صورتحال میں قوم کو سیاسی، معاشی یا اخلاقی لحاظ سے جو خسارے ہوتے رہے ہیں ان کا ازالہ کیسے ہوگا۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی ہم نے بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش محبت اور عقیدت کے ساتھ منایا لیکن حقیقی معنوں میں قائداعظم کی پیروی کے لئے پاکستان کی پارلیمنٹ اور منتخب حکومتوں کو اپنی غلطیوں کے اعتراف اور ان کے ازالے کے لئے بہت کچھ کرنا ہے۔ جس ملک میں منتخب حکومتوں کو اپنے فرائض کا احساس ہوتا ہے۔ جہاں حکمراں حقیقی معنوں میں عوام کی بھلائی کے خواہاں ہوتے ہیں اس ملک میں پینے کے صاف پانی اور اسپتالوں کی بدانتظامی، نظام کی تباہی پر عدلیہ کو ایکشن نہیں لینا پڑتا۔ عوامی نمائندگی مراعات یا پروٹوکول کے حصول کے لئے نہیں بلکہ دیانت اور صداقت کے سچے جذبوں کے ساتھ قوم کی تعمیر و ترقی اور ملک کے استحکام کے لئے ہونا لازمی ہے۔ ایسا نہ ہو تو عوام پہلے اپنے نمائندوں سے اور پھر پورے نظام سے ہی مایوس ہونے لگتے ہیں۔
ڈاکٹر ادیب رضوی۔ خدا سلامت رکھے
خود غرضی، دولت کی ہوس، افراتفری اور نفسانفسی کے اس دور میں ایک فرشتہ صفت انسان، وسائل سے محروم لاکھوں انسانوں کو عزت و احترام کے ساتھ علاج کی سہولتیں فراہم کرنے والے ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اور ان جیسے چند درد مند افراد پاکستانی معاشرے کے لئے اللہ کی ایک بڑی نعمت ہیں۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کی علالت کی خبر نے کروڑوں پاکستانیوں کو تشویش میں مبتلا کیا۔ بصمیم قلب دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر ادیب رضوی کو صحت کے ساتھ طویل عمر عطا فرمائے ۔ آمین

تازہ ترین