• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تین روز پہلے ملک کے دو اہم سیاستدانوں نے ایک دوسرے کولاڈلا کہہ کر پکارا۔ ایک دوسرے کو اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا قرار دیا۔ حال ہی میں ان دونوں میں سے ایک کو اہل اور ایک کو نااہل قرار دیا گیا ہے۔ اہلی اور نااہلی کافیصلہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے ہوا ہے۔اصولی طور پر تو عدالت کافیصلہ سب کو ماننا چاہئے مگر افسوس کہ ایک جماعت نے عدالت کےخلاف محاذ آرائی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ کبھی وہ اپنے خلاف فیصلے کو بغض کا نام دیتے ہیں، کبھی وہ کہتے ہیں کہ دو تین یا پانچ افراد کا فیصلہ درست نہیں۔ان سے کوئی یہ پوچھے کہ جب امریکہ یا برطانیہ میں ججز فیصلہ کرتے ہیں تو کیا ان کی تعدادکروڑوں میں ہوتی ہے؟
بہت سے حوالے دینے سے پہلے اس بات کا جائزہ لے لیتے ہیں کہ ایک نے دوسرے کولاڈلا کہہ کر کیاکہا؟ پہلے چونکہ میاں نوازشریف نے عمران خان کو لاڈلا کہا لہٰذا پہلے ان کی چھیڑخانی پر بات کرلیتے ہیں بعد میں عمران خان کے جواب آں غزل کو دیکھتے ہیں۔ سینکڑوں افراد پر مشتمل ن لیگ کی سوشل میڈیا ٹیم کے افراد سے خطاب کرتے ہوئے سابق نااہل وزیراعظم نواز شریف فرماتے ہیں ’’لاڈلے کو چھوڑ دیا، عمران نے کہا کہ یہ اثاثہ میرا ہے۔ عدالت نے کہا نئیں پتر نئیں تینوں نئیں پتہ توں صادق تے امین ایں، ملک کی کوئی عدالت مشرف کو سزا دے گی؟ مجھے بزدل کہنے والا اپنے گریبان میں جھانکے۔ عدلیہ بحالی تحریک میں وہ پنڈی میں چھپ گیا تھا۔ 2018میں وہ سیاست سے آئوٹ ہو جائے گا، وہ ایل بی ڈبلیو نہیں رن آئوٹ نہیں کیچ نہیں کلین بولڈ ہوگا۔ میرا حساب تب سے ہو رہا ہے جب میں کالج میں پڑھتا تھا۔جس گھر میں مریم پیدا ہوئی اس کا بھی حساب مانگا جارہا ہے۔‘‘
اب ذرا عمران خان کی سن لیں جنہیں عدالت نے اہل قرار دیا ہے۔ اس اہلیت کے بعد عمران خان کا مورال خاصا ہائی ہے۔ وہ جواب آں غزل کے طور پر فرماتے ہیں ’’لاڈلا وہ جسے جنرل ضیا نے چوسنی دے کرپالا۔ ڈکٹیٹر کی گود میں پلنے والے ہمیں جمہوریت کا درس دیتے ہیں۔ یہ سیاستدان نہیں مافیاہیں۔ شریف خاندان کی سیاسی زندگی کی آخری سانسیں۔ ڈراموںکا وقت ختم ہو گیا ہے۔‘‘
ابھی میں نےایک دوسرے کولاڈلا کہنے والوں کا تذکرہ کیا ہے ورنہ اس میں ڈاکٹر طاہر القادری کو بھی شامل کیاجاسکتاہے مگر چونکہ آج صرف لاڈلا زیربحث ہےلہٰذا اس پہ بات کرتےہیں۔
میاںصاحب! آپ نے پتا نہیں کیسے اورکیوں عمران خان کو لاڈلا قرار دے دیا ہے۔ اس لاڈلے کے نصیب میں کوئی جنرل ضیا الحق نہیں تھا۔ یہ تو سیدھا سادہ کرکٹر تھا۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کا کپتان تھا۔ اس نے اپنی کپتانی میں پاکستان کو ورلڈ کپ جتوایا جو پاکستان نے کبھی نہیں جیتا تھا۔ اس ورلڈ کپ جیتنے کے بعد اسے قوم نے بہت سراہا۔ بہت چاہا۔ آپ اس وقت وزیراعظم تھے۔ آپ نے بھی اس کپتان اور پوری ٹیم کے اعزاز میں تقریب منعقد کی تھی۔ آپ کا اس وقت بھی سیاسی تجربہ اتنا تھاکہ آپ وزیراعظم بننے سے پہلے دو مرتبہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ رہ چکے تھے۔ ایک مرتبہ تو آپ نے اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی وفاقی حکومت کے خلاف باقاعدہ محاذ آرائی شروع کر رکھی تھی۔ آپ نے 1988سے لے کر حکومت کے خاتمے تک وفاقی حکومت کے مینڈیٹ کااحترام بھی نہیں کیا تھا۔ آپ کویاد تو ہوگا۔ جہاں تک بقول آپ کے لاڈلے کی کہانی ہے تو وہ تو یہی ہے کہ ورلڈ کپ کے بعد اس کی والدہ کو کینسر ہو گیا اور ماں توماں ہوتی ہے۔ اس کی ماں اس جہان سے رخصت
ہوگئی مگر وہ اپنے اکلوتے بیٹے کے سینے میں کینسرزدہ مریضوں کا درد رکھ گئیں۔ اسے یہ احساس دلا گئیں کہ یہ علاج بہت مہنگا ہے۔ اس ملک میں بسنے والے غریب تو یہ علاج کرواہی نہیں سکتے۔ پھر یہ احساس لئے لاڈلا اس سفر پر نکلا جو پاکستان کی حکومتیں بھی نہ کرسکی تھیں۔ پاکستانی حکمران باتیں تو بہت کرتے تھے مگر نصف صدی میں کینسر کا کوئی اسپتال نہیںبنا سکے تھے۔ عمران خان نے اپنی والدہ کے نام پر ایک کینسر اسپتال بنانے کی ٹھان لی۔ اسے ماہرین نے منع کیا کہ یہ بہت مشکل ہی نہیں ناممکن کام ہے۔ وہ میدان میں نکلا، پاکستان کے شہر شہر، قریہ قریہ گیا، سمندرپار پاکستانیوںکے پاس گیا۔ ان سے مدد لی۔ اسے مشکلات ضرور آئی ہوںگی مگر اس نے ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ یوں پاکستان میںپہلا کینسر اسپتال بن گیا۔ اب وہی لاڈلا پشاور اورکراچی میں کینسر اسپتال بنا رہا ہے۔ جب اس نے پہلا اسپتال بنانے کے لئے مہم چلائی تو اسے پتا چلا کہ اس ملک کے سیاستدان عوام کے ساتھ کیا کھلواڑ کرتے ہیں۔ اسے جگہ جگہ ظلم کی کہانیاں ملیں، بس یہی کہانیاں اسے سیاست میں لے آئیں۔ سیاست میں اس نے کرپشن کے خلاف جہاد شروع کر رکھا ہے۔ اس دوران وہ 2002میں میانوالی سے ایم این اے بنا۔ 2008میں میاں صاحب آپ نے لاڈلے کے ساتھ خوب ہاتھ کیا۔ اے پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کوالیکشن سے روکا اور خود جمپ مار کے الیکشن کا حصہ بن گئے۔ اس کے بعد لاڈلے نے 2013کے الیکشن کی تیاری شروع کی۔ میاں صاحب آپ لوگ اس کی انتخابی مہم سے خائف ہوگئے کیونکہ وہ دن میں پانچ پانچ جلسے کرتا تھا جبکہ یہ کام آپ کا ’’پورا ٹبر‘‘ نہیں کر پا رہا تھا۔ پھر نادیدہ قوتوں نے ’’لاڈلے‘‘ کو گرا دیا اور یہ کام لاہور میں ہوا۔ ’’لاڈلے‘‘ کی الیکشن مہم رک گئی۔ ایک لاڈلا وزیراعظم بن گیا دوسرا لاڈلا روتا رہا کہ دھاندلی کی تحقیقات کرائو ، وہ الیکشن ٹربیونلز میں گیا مگر وہاں بھی ’’بندوبست‘‘ تھا۔ مجبوراً اس نے لانگ مارچ کیا، دھرنا دیا مگر اس وقت بھی اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلا عمران خان کی بجائے کوئی اور نکلا۔ تمام سیاسی جماعتیں اس ’’لاڈلے‘‘ کے خلاف تھیں، اس لاڈلے کی بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں۔
اب آجاتے ہیں دوسرے لاڈلے کی طرف، جسے عمران خان نے لاڈلا کہاہے۔ اس ’’لاڈلے‘‘ کی کہانی بہت آسان ہے۔ وہ کالج میں کوٹے پر داخل ہوا، کرکٹ کھیلنے کا شوق تھا جم خانہ میں مرضی کی پچ، مرضی کے امپائر استعمال کئے۔ ریلوے کی طرف سے پی آئی اےکے خلاف کھیلا اور صفر پر آئوٹ ہوگیا۔ فلمی ہیرو بننے کا شوق چرایا تو رنگیلا کے پاس حاضر ہوا۔ وہاں بھی کامیابی نہ ملی۔ گانے کا شوق تھا تو گانے والوں سے دوستی کرلی۔ کسی کو لمبی ٹیلیفون کال پر گانے بھی سناتے رہے۔ سیاست کا شوق ہوا تو بلدیاتی الیکشن میں ضمانت ضبط کروا بیٹھے۔ تحریک استقلال کا حصہ بنے۔ پھر کیولری گرائونڈ میں رہنے والے ایک جنرل کے ذریعے جنرل جیلانی سے رابطہ ہوا۔ پہلے پہلے پنجاب اسپورٹس بورڈ کے چیئرمین بنے، پھر ایڈوائزر اور پھر پنجاب کے وزیرخزانہ بنے۔ یہ وہ دور تھا جب ضیاالحق کی آمریت عروج پر تھی البتہ ’’لاڈلے‘‘ کو یہ جمہوریت لگتی تھی۔ لاڈلے کاسارا اسٹیج دراصل ان کے اباجی نے سجایا تھا۔ 1985کے غیرجماعتی انتخابات کے راستے لاڈلا وزیراعلیٰ پنجاب بنا۔ لاڈلے کی خاطر 1988میں اسٹیبلشمنٹ نے آئی جے آئی بنوائی۔ 1988میں لاڈلے کو دوبارہ وزیراعلیٰ بنوایا۔ 1989میں لاڈلے کو ایک عالمی دہشت گرد کی جانب سے پیسے بھی ملے۔ الیکشن کے دوران آئی ایس آئی نے پیسے بھی دیئے۔ یہ کیس بھی سپریم کورٹ میں رہا۔ 1990میں لاڈلے کو وزیراعظم بنا دیا گیا۔ لاڈلے کی میڈیا ٹیم عورت کی حکمرانی کے خلاف مہم چلاتی تھی۔ اب وہی ٹیم عورت کی حکمرانی کے حق میں مہم چلاتی ہے۔ 1997میں ’’لاڈلے‘‘ سے اتنا لاڈ کیا گیا کہ اسے بھاری مینڈیٹ دے دیا گیا۔ پیپلزپارٹی کو صرف 18 سیٹیں ملیں۔ لاڈلے نے جب خود کو بادشاہ سمجھا تو اصل قوتوں سے ٹکرایا۔ عدلیہ پر حملہ کیا۔ 1999میں دھڑن تختہ ہوگیا۔ جیل برداشت نہ ہوسکی اور اگلے سال ایک معاہدہ کرکے سعودی عرب چلا گیا۔ قوم سے جھوٹ بولا کہ معاہدہ نہیں کیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے ہموار کئے ہوئے راستے سے وطن واپسی نصیب ہوئی۔ 2008کے بعد بھائی وزیراعلیٰ بن گیا۔ جو پہلے بھی وزیراعلیٰ رہ چکا تھا۔ 2013کے الیکشن میں اس ’’لاڈلے‘‘ پر مہربانیاں کرکے اسے وزیراعظم بنا دیا گیا۔ اس پیارے ’’لاڈلے‘‘ کی ملک کےاندر کئی ملیں اورجائیدادیں ہیں اور بیرون ملک جائیدادوں کاکوئی شمار نہیں۔ اس لاڈلے کو سمجھنے کے لئے ایک جملہ کافی ہے کہ یہ ’’لاڈلا‘‘ دو مرتبہ وزیراعلیٰ رہا، تین مرتبہ وزیراعظم رہا مگر کوئی اسپتال ایسا نہیں بناسکا جہاں اس کا اپنا علاج ہوسکے۔ اسی لئے اس کے خاندان کو بھی علاج کے لئے باہر جانا پڑتا ہے۔ لوگ بہتر جانتے ہیں کہ لاڈلا کون ہے۔ لاڈلا کہنے سے کوئی لاڈلا نہیں بن جاتا کہ؎
انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند

تازہ ترین