• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں آج 27دسمبر کو جنگ کے لئے یہ کالم لکھ رہا ہوں، آج کے دن سے دس سال پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں گولیاں مار کر شہید کردیا گیا تھا، یہ خاندان بھی عجیب خاندان ہے، اس خاندان کے بڑے جناب ذوالفقار علی بھٹو کو ایک آمر کی خواہش پر پھانسی دے کر شہید کردیا گیا، اس کے چھوٹے بیٹے شاہنواز بھٹو کو فرانس میں زہر دے کر شہید کردیا گیا، بھٹو کے بڑے بیٹے میر مرتضیٰ بھٹو کو کراچی میں ان کے آبائی گھر 70کلفٹن کے سامنے گولیاں مارکر شہید کردیا گیا اور بھٹو کی بڑی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں جلسہ عام سے خطاب کے بعد گولیاں مارکر شہید کردیا گیا، بیگم بھٹو بھی شہید ہی تو ہوئیں، اپنے بڑے بیٹے میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی خبر سن کر وہ عملی طور پر ہوش گنوا بیٹھیں تھیں اور انتقال تک ان کی یہی حالت رہی، حتیٰ کہ جب انہیں ان کی پیاری بڑی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی خبر سنائی گئی تو اس وقت بھی وہ ہوش میں نہیں تھیں اور پھر جلد ہی انتقال کرگئیں، اب بھٹو کی صرف چھوٹی بیٹی صنم بھٹو زندہ ہیں، مگر انہوں نے شروع سے سیاست سے خود کو دور رکھا، وہ اپنے بچوں کے ساتھ لندن میں ہیں، میں کافی عرصے سے سوچ رہا تھا کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کے بارے میں اپنی یادیں لکھوں جو اب تک نہیں لکھ سکا، بہرحال اس بار دل نے چاہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو سے متعلق کچھ یادوں پر مشتمل کالم لکھوں، محترمہ کے بارے میں میری یادیں، جو میری معلومات اور میرے اپنے مشاہدے پر مشتمل ہیں وہ اتنی ہیں کہ ان پر ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے، میں محترمہ کے بارے میں یہ کالم ان سنی باتوں کی وضاحت سے شروع کرنا چاہتا ہوں کہ ’’جی، بے نظیر بھٹو ڈکٹیٹر تھیں‘‘ مختلف اوقات میں میری ان سے جو ملاقاتیں ہوئیں یا بات چیت ہوئی ان کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ وہ ڈکٹیٹر نہیں تھیں، اس سلسلے میں اپنے حوالے سے کئی واقعات قلمبند کراسکتا ہوں، مگر فی الحال اس سلسلے میں یہاں صرف ایک بات کا ذکر کروں گا، محترمہ اس وقت کراچی میں تھیں اور میں ان سے کچھ ایشوز پر ملاقات یا بات چیت کرنا چاہتا تھا، میں نے بلاول ہائوس ٹیلی فون کیا دوسری طرف جو صاحب تھے انہیں میں نے بتایا کہ میں محترمہ سے بات چیت کرنا چاہتا ہوں، ان صاحب نے مجھے کوئی سیدھا جواب تو نہیں دیا مگر کسی حد تک وہ مجھ سے صحیح طرح سے پیش بھی نہیں آئے، اس بات کا مجھے دکھ ہوا، چند دنوں کے بعد پی پی کے ایک سینئر رہنما نے مجھے ٹیلی فون کیا اور کہنے لگے کہ بلاول ہائوس آئیں وہاں محترمہ بے نظیر بھٹو آپ سے ملاقات کرنا چاہتی ہیں میں نے وہاں جانے سے انکار کردیا اور چند دن پہلے بلاول ہائوس کے ایک اسٹاف ممبر کی طرف سے مجھ سے کئے گئے سلوک کا ذکر کیا اور میں نے کہا کہ میں اب کبھی بلاول ہائوس نہیں آئوں گا‘ پی پی کے اس سینئر رہنما نے شاید یہ بات محترمہ کو بتائی، میں حیران ہوگیا جب چند دنوں کے بعد مجھے ایک لفافہ ملا جس میں ہاتھ سے لکھا ہوا چند سطروں کا ایک خط تھا جو محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرف سے مجھے لکھا گیا تھا، اس خط میں انہوں نے مجھ سے اس بات پر معذرت کی کہ بلاول ہائوس کا کوئی اسٹاف ممبر مجھ سے صحیح طرح پیش نہیں آیا وہ خط میری فائلوں میں اب بھی پڑا ہوا ہے‘ کچھ کاغذات دیکھنے کے لئے یہ فائلیں کھولنے پر میری نظر اس خط پر پڑتی ہے تو اس وقت بھی میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور میرے دل سے تڑپتی ہوئی ایک آواز نکلتی ہے کہ کیا ’’ایسی شخصیت ڈکٹیٹر ہوسکتی ہے؟‘‘ میرے اس کالم کا عنوان ’’بڑے باپ کی بڑی بیٹی‘‘ اس کالم کے محدود ہونے کی وجہ سے بھٹو کی بڑائی میں الگ کالم لکھنا پڑے گا۔ فی الحال اس کالم میں جتنا بھی ہوسکے محترمہ بے نظیر بھٹو کی بڑائی کا ذکر کرنا ہے، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو میں کئی خوبیاں تھیں، بھٹو بھی بہادر تھے تو بے نظیر بھٹو بھی بہادر ثابت ہوئیں، بھٹو کی سیاست محکوم اور پسے ہوئے طبقوں کی سیاست تھی، تو شہید بے نظیر بھٹو نے بھی اپنی سیاست کو پسے ہوئے اور محکوم طبقوں کی خدمت کرنے اور ان سے گھل مل جانے تک محدود رکھا، اگر ذوالفقار علی بھٹو نے مختلف میدانوں میں پاکستان کی بے پناہ خدمت کی تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی پاکستان کی بے پناہ خدمت کی، انہی خدمات کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیدی گئی اور انہی خدمات کی وجہ سے محترمہ کو پنڈی میں شہید کردیا گیا، دل چاہتا ہے کہ میں اس محبت اور ادب کا ذکر بھی کروں جو محترمہ کو اپنے والد جناب ذوالفقار علی بھٹو سے تھی، پھانسی کی کوٹھری میں پھانسی سے چند روز قبل بھٹو صاحب نے جیل کی کوٹھری کی لوہے کی سلاخوں سے بیگم بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو سے بات چیت کرتے ہوئے ان کو نصیحت کی کہ ’’اگر مجھے پھانسی دی جائے تو عوام کے سامنے آپ دونوں کی آنکھوں میں آنسو نہیں آنے چاہئیں‘‘ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے باپ کی اس نصیحت پر جس طرح عمل کیا، اس کی دنیا بھر میں مثال ملنا مشکل ہوگی، ہم اس بات کے گواہ ہیں، بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد جب دونوں ماں بیٹی کراچی آئے تو روز شام کو محترمہ بے نظیر بھٹو 70کلفٹن کے صحن میں کرسی پر بیٹھتی تھیں اور تمام صوبوں اورر ملک سے آنے والے پی پی کارکن اور حمایتی صحن میں بیٹھ کر محترمہ سے بھٹو صاحب کی شہادت پر تعزیت کرتے تھے، ان میں اکثر تعزیت کرتے وقت دھاڑیں مار کر روتے تھے اور سر پیٹتے تھے، یہ سب سن کر محترمہ کا چہرہ تو غمگین ہونے لگتا تھا مگر ان کی آنکھوں میں آنسو کبھی نہیں دیکھے، تعزیت اور ہمدردی کرنے والوں کو صبر کی تلقین کرتے وقت وہ ہمیشہ چین کے عظیم قائد چیئرمین مائوزے تنگ کا یہ قول دہراتی تھیں ’’غم کو طاقت میں تبدیل کرو‘‘ ہم بھٹو صاحب کا انتقام لیں گے، اس زمانے میں کراچی کے رپورٹرز کی ڈیوٹی شام کو 70 کلفٹن پر ہوتی تھی، ہم میں سے کئی رپورٹر اس بات کے گواہ ہیں کہ ایک دو بار ایسے لوگ بھی تعزیت کرنے کے لئے آئے جو ناشناسہ لگتے تھے، وہ آتے ہی اتنا کہرام مچاتے تھے کہ 70 کلفٹن میں تہلکہ مچ جاتا تھا، ہم میں سے کچھ رپورٹرز کی رائے تھی کہ ان کو یہ ہدایت کی گئی کہ وہ اتنا کہرام مچائیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑیں مگر ایسے موقعوں پر بھی محترمہ کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھے گئے، اسی دوران ایک دن ہم کچھ رپورٹرز سے 70 کلفٹن کا ایک پرانا ملازم ملا، اس نے جو باتیں بتائیں تو ہم رپورٹرز کی آنکھیں بھی آنسووں سے بھر گئیں، اس ملازم نے روتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ رات میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے کمرے کے باہر سے گزررہا تھا تو مجھے انتہائی دکھ بھری چیخیں سنائی دیں، اسی دوران ایک زور دار آواز بھی اس کمرے سے آئی، ایسا لگا کہ محترمہ دکھ کی وجہ سے اپنا سر دیوار سے ٹکرا رہی ہیں، اس ملازم نے روتے ہوئے کہا کہ کارکنوں کے بیٹھے ہوئے تو وہ نہیں روتیں مگر رات کو دیر سے بند کمرے میں ان کا یہ حال ہوتا ہے۔ جگہ کی کمی کے باعث محترمہ بے نظیر بھٹو کی بہادری، عوام دوستی اور پاکستان کی غیر معمولی خدمات کے بارے میں آئندہ کالم میں مزید کچھ عرض کروں گا۔

تازہ ترین