• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیف جسٹس آف پاکستان جناب میاں ثاقب نثار نے چند روز قبل سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں خطاب کے دوران اپنے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ آئین کے تحت بنیادی حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ اس سے پہلے بھی جناب چیف جسٹس نے لاہور میں پاکستان بار کونسل کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ہم نے آئین کے تحفظ کی قسم کھائی ہے، عوامی سطح پر عدلیہ اور نظام عدل کے بارے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ مقدمات کے فیصلے تاخیر سے ہوتے ہیں، انہوں نے اس کی وجوہات کے بارے میں بتایا کہ اس معاملے میں مقننہ اپنی ذمہ داریاں صحیح طریقے سے ادا نہیں کر رہی۔ پاناما کیس میں عدالت عظمیٰ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دینے کا تاریخی فیصلہ دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ عدالتیں اب مکمل طور پر آزاد ہیں۔ کسانوں اور زراعت کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ نے بھی گزشتہ ہفتے حکومت پنجاب اور شوگر مل مالکان پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ پنجاب میں شوگر ملوں کو فوری فنکشنل کیا جائے اور کسانوں سے گنا ایک سو اسی روپے فی من کے سرکاری ریٹ کے مطابق خریدا جائے۔ عدالت عالیہ نے یہ ریمارکس امیر جماعت اسلامی پنجاب میاں مقصود احمد کی طرف سے دائر کردہ رٹ پر دیئے۔
زراعت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ پنجاب چونکہ سب سے بڑا اور زرخیز صوبہ ہے۔ اس لئے حکومت کو کسانوں کو ریلیف دینے کے لئے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس وقت گنے کے کاشتکاروں کو پنجاب، سندھ اور کے پی کے میں بحرانی کیفیت کا سامنا ہے۔ گنے کی فصل نہ صرف یہ کہ غذائی ضروریات پوری کرتی ہے بلکہ ملکی معیشت کے لئے کثیر زرمبادلہ کے حصول کا بھی اہم ذریعہ ہے۔ گنا ملک میں کاشت کی جانے والی چوتھی بڑی فصل ہے۔ پاکستان کی89شوگر ملوں، جن میں سے47پنجاب،37 سندھ اور 7خیبرپختونخوا میں واقع ہیں، جہاں ایک لاکھ 30ہزار سے زائد صنعتی مزدور کام کرتے ہیں وہاں ملک بھر میں بالواسطہ یابلاواسطہ گنے کے 13سے 14لاکھ چھوٹے بڑے کاشتکار پاکستان کو دنیا میں گنے کی کاشت کے لحاظ سے 5ویں بڑے ملک کا درجہ دلواتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ملک کے قابل کاشت زرعی رقبہ کے28فیصد پر گنا کاشت ہوتا ہے۔ پاکستان میں فی ایکڑ اوسط پیداوار639من ہے جو دیگر ممالک سے کئی گنا کم ہے۔ مصر، جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، انڈونیشیا اور ملائیشیا میں فی ایکڑ اوسط پیداوار 1800فی من سے زائد ہے۔ پاکستان میں ایسے کاشتکار بھی ہیں جو جدید طریقہ کاشت کے ذریعے2600من فی ایکڑ تک گنے کی فصل حاصل کر رہے ہیں لیکن98فیصد گنے کے کاشتکار جدید طریقہ کاشت کے حوالے سے رہنمائی اور وسائل نہ ملنے کی وجہ سے روایتی طریقے اپنا تے ہیں۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود فصلوں کی کاشت اور ان سے حاصل ہونے والی پیداوار کے حوالے سے حکومت کی ناقص منصوبہ بندی اور شوگر مل مالکان کی ہٹ دہرمی نے انہیں کہیں کانہیں چھوڑا۔ پچھلے پانچ سالوں کے دوران شوگر ملز نے فی من گنے کے نرخوں میں اضافہ نہیں کیا جبکہ کم نرخوں پرگنا خرید کر اور ناجائز کٹوتیاں کر کے کاشتکاروں کا استحصال بھی کرتے رہے جس کی وجہ سے سندھ اور پنجاب میں گنے کے کاشتکار سراپا احتجاج ہیں۔ کوئی بھی زرعی ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ وہاں کاشتکار متنفر ہو کر گنے کی کاشت سے روگردانی کرے۔ شوگر کرشنگ سیزن 2017-18تاخیر سے شروع ہونے کی وجہ سے گنے کے کھیت بروقت خالی نہیں ہوسکے جس کی وجہ سے گندم کی فصل شدید متاثر ہوسکتی ہے۔ شوگر ملز مافیا اپنے مفادات کا توتحفظ کر لیتا ہے لیکن مفلوک الحال کاشتکاروں کی حکومتی سطح پر کہیں شنوائی نہیں ہورہی۔ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ دوسری جانب شوگر انڈسٹری کا قیام اور وہ بھی کپاس کے علاقے میں کسی سازش سے کم نہیں۔ ملک کی سب سے بڑی ٹیکسٹائل انڈسٹری کپاس کی کاشت کے علاقوں میں شوگر ملز لگائے جانے کے بڑھتے ہوئے رجحان سے براہ راست متاثر ہوئی ہے۔ موجودہ حکمرانوں کی زراعت پالیسی کے ساتھ ساتھ معاشی پالیسی بھی زبوں حالی کا شکار ہے۔ معاشی بحران کے سبب150صنعتیں بند اور 10لاکھ ہنرمند افراد بے روزگار ہوچکے ہیں۔ ہمارے خیال میں جماعت اسلامی نے کسانوں کے مسائل کو اجاگر کر کے ایک اچھا اقدام کیا ہے جو کہ دیگر پارٹیوں کے لئے بھی باعث تقلید ہے۔ گنے کے کسانوں کو ریلیف دینے کے لئے گزشتہ دنوں پریس کلب لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پنجاب میاں مقصود احمد کا بھی کہنا تھا کہ گنے کے کاشتکاروں کو چار سال سے لوٹا جارہا ہے۔ حکمرانوں نے ملکی زراعت کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا ہے۔ پاکستان میں یہ فیصلہ ہونے جارہا ہے کہ اس ملک کی زراعت کے اصل دشمن کون ہیں۔ گنے کی قیمت وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کو ادا کرنی ہے۔ حکمران خود گنے کے مقرر کئے ہوئے 180روپے فی من سرکاری ریٹ کے مطابق کسانوں کو ادا کرنے کو تیار نہیں۔ زراعت سے وابستہ 72فیصد افراد ظلم وستم کا شکار ہیں۔ پرمٹ سسٹم ختم کرنا حکمرانوں کی نااہلی ہے۔ ایک مل میں روزانہ کی بنیاد پر 30سے50ہزار من تک کرشنگ کی جاتی ہے اور کسانوں کو لاکھوں روپے کا ٹیکہ لگا دیا جاتا ہے۔ کین ایکٹ کے تحت کنڈے بحال کئے جائیں۔ ہم کاشتکاروں کو مکمل ریلیف فراہم کرنے تک پُرامن احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ کسان چھ چھ دن کرایوں کی گاڑیوں پر سینکڑوں میل کا سفر طے کر کے شوگر ملوں کے باہر بے یارو مددگار بیٹھے ہیں۔ شریف فیملی کو گنے کے کاشتکاروں کو 1ارب روپے کی ادائیگی کرنی ہے۔ آج گنے کے کاشتکاروں میں اضطراب ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کسانوں کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے لاہور ہائیکورٹ میں رٹ بھی جمع کروا رکھی ہے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے بھی التماس ہے کہ وہ اس اہم معاملے کا فوری ازخود نوٹس لیں اسی طرح تمام شوگر ملیں اور حکومت پنجاب لاہور ہائی کورٹ کے واضح احکامات پر فوری عمل کرے اور کسانوں سے گنا 180روپے فی من کے سرکاری ریٹ پر خریدا جائے گزشتہ کئی سالوں سے شوگر مل مالکان کے ذمے کسانوں کے اربوں روپے کے بقاجات بھی دلوائے جائیں، طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اس سلسلہ میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کے احکامات کو بھی کئی دن گزر چکے ہیں مگر اب تک پنجاب میں تمام شوگر ملوں کو فنگشنل نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی کسانوں سے ایک سو اسی روپے فی من گنا خریدا جا رہا ہے بلکہ اونے پونے داموں گنے کی خریدار ی کی جارہی ہے۔ کین کمشنر کا ماضی میں بہت کردار ہوتا تھا مگر چونکہ شوگر ملیں حکمران خاندانوں کی ملکیت ہیں اس لئے ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا، کین کمشنر بھی اب بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ کین کمشنر پنجاب کے نوٹس دینے کے باوجود شوگر مل مالکان کا کرشنگ سیزن شروع نہ کرنا حکمرانوں کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کین ایکٹ 1986کے تحت تمام شوگر مل مالکان اپنی مل کے باہر کنڈا لگائیں تاکہ کسانوں کو 150سے دو سو کلومیٹر دور کی مسافت طے نہ کرنی پڑے۔ المیہ یہ ہے کہ جب گنا شوگر ملیں خریدتی ہیں تو فی ٹرالی 10من گنا کٹوتی کی جاتی ہے۔ ان ظالمانہ کٹوتیوں کو فوری ختم کیا جائے۔

تازہ ترین