• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سزائے موت کا قیدی جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے واویلا کر رہا تھا ۔ میں کچھ سیاسی و سرکاری شخصیات کے ساتھ جیل کا دورہ کر رہا تھا کہ جیل حکام بھی ہمارے ساتھ تھے۔ اس قیدی کی یہ درخواست تھی کہ چونکہ اسے سزائے موت دی جارہی ہے ۔ لیکن اس کی ایک ہی بیٹی ہے وہ چاہتا ہے کہ اسکی بیٹی کو اسکے ساتھ اس طرح علیحدہ کمرے میں ملایا جائے کہ وہ اپنی بیٹی کو گلے لگا سکے ۔ اس کے ساتھ کچھ وقت گزار سکے اور پھر بے شک فوراً ہی پھانسی د ے دی جائے۔ مجھے اس قیدی کی گفتگو سن کر بہت دکھ ہوا اور اس سے ہمدردی سی ہونے لگی اور دل میں ٹھان لی کہ جیل حکام سے بات کرکے اس قیدی کی ملاقات کا بندوبست کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ جب ہم جیل کے دورے سے فارغ ہوکر جیل افسر کے کمرے میں بیٹھ کر چائے پی رہے تھے تو میں نے جیل افسر سے کہاکہ سزائے موت کا وہ قیدی جو اپنی بیٹی کے لئے تڑپ رہا تھا اسکی درخواست پر غور کیجئے اور ایسا انتظام کیا جائے کہ وہ اپنی بیٹی کو گلے لگا سکے وہ موت کے پھندے پر جھولنے سے پہلے کچھ وقت اپنی بیٹی کے ساتھ گزار سکے۔ جیلر نے چائے میں بسکٹ ڈبوتے ہوئے جواب دیا جناب یہ جو سزائے موت کے قیدی ہوتے ہیں اور تمام عدالتوں سے ان کے خلاف فیصلہ ہوچکا ہوتا ہے۔ انکی سوچ تبدیل ہوچکی ہوتی ہے ، یہ بہت اچھے بھی ہوسکتے ہیں اور موت کو سامنے دیکھ کر کوئی ایسا قدم بھی اٹھا سکتے ہیں جس سے پریشانی بڑھ سکتی ہے۔ میں جیلر صاحب کی بے ربط سے گفتگو سمجھ نہ سکا تو انہوں نے مجھے سمجھانے کے لئے بتایا کہ اس شخص نے اسی بیٹی کی ماں یعنی اپنی بیوی اور اپنے سالے کو یعنی بیٹی کے ماموں کو قتل کیا ہوا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ بیٹی اس سے ملنا نہیں چاہتی اور دوسری بات یہ کہ اگر اسکی بیٹی کو کسی طرح راضی کرکے اس سے اسکی خواہش کے مطابق علیحدہ کمرے میں ملاقات کرا بھی دی جائے تو ہمیں یہ خدشہ ہوتا ہے کہ یہ اس بیٹی کا گلا دبا کر اسکو بھی مار دے کیونکہ ہم یہ نہیں جان سکتے کہ اس قیدی کے ذہن میں اب کس کے خلاف کیا کیا منصوبہ بندی یا کس طر ح کی نفر ت کی آ گ جل رہی ہے ۔ جیلر کے خیال سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے لیکن ایک سرکاری افسر کے فرائض کے پیش نظر یقیناً یہ ایک مشکل کام تھا جوکہ نہ ہوسکا ، اور ہم اس قیدی کی مد د نہ کر سکے ۔ گزشتہ روز بھارتی جاسوس کلبھوشن کی ماں اور بیوی کو اس سے ملاقات کرائی گئی جوکہ حکومت پاکستان کا یقیناً ایک بہت اچھا اقدام ہے ۔ سزائے موت کے اس جاسوس قیدی کو جس نے ہمارے ملک میں دہشت گردی سے سیکڑوں بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اسکے ساتھ یہ حسن سلوک عالمی سطح پر اور دنیا کو دکھانے کے لئے ایک خاص حیثیت رکھتا ہے جو ہر کوئی نہیں سمجھ سکتا، لیکن جہاں حکومت نے اس ملاقات کا انتظام کرکے ایک ماں کو اس کے بیٹے اور ایک بیوی کو اسکے شوہر سے ملایا ہے وہاں یہ بات بھی قابل تحسین ہے کہ ملاقات کے ایسے انتظامات کئے گئے کہ کوئی ایسا خطرہ مول نہیں لیا گیا جس سے دنیا میں تعریف کی بجائے ہم کسی بڑی تنقید اور مصیبت میں پھنس جاتے ، جیسا کہ سننے میں آرہا ہے کہ کلبھوشن کی بیوی کے جوتوں میں کوئی ایسی دھاتی چیز چھپا رکھی تھی جو خطرناک ہوسکتی تھی اور اسکے جوتے تبدیل کرادیئے گئے کیونکہ بھارت جیسا ملک عالمی سطح پر پاکستان کو نیچا دکھانے کے لئے کوئی بھی ایسی حرکت کرسکتا ہے جس سے پاکستان کے لئے مشکلات ہوسکتی ہیں۔ لیکن اس ملاقات کے حوالے سے ہمارے تھنک ٹینکس نے بہترین حکمت عملی کامظاہرہ کیا ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کلبھوشن کی بیوی لاعلمی اور معصومیت میں گھاگ بھارتیوں کی سمجھاتی ہوئی کسی بھی حرکت سے ہما رے لئے مشکلات کھڑی دیتی۔ دوسرا یہ کہ بھارتی میڈیا کلبھو شن پرجو تشدد کا واویلا کر رہا ہے وہ لغو اور بے معنی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کلبھوشن ہمارا وی آئی پی مہمان نہیں کہ ہم اسے فائیو اسٹار ہوٹل میں رہائش اور سہولیات دیں، ہم نے اس سے پوچھ گچھ کرنا ہی ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسی کوئی بات نہیں کیونکہ کلبھوشن خود ہی طوطے کی طرح سب کچھ بول اٹھا ہے اور اسکے ثبوت بھی خود ہی مہیاکردیئے ہیں ۔ اس لئے اپنے پرائے سب سمجھ لیں کہ حکومت کا یہ قابل تحسین قدم تھا جسے بہت اچھے طریقے سے نبھایا گیا ہے…!

تازہ ترین