• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

راگ درباری کی ایک استھائی بہت مقبول ہے جس کے بول ہیں ’’انوکھا لاڈلہ کھیلن کو مانگے چاند ‘‘۔مغل اعظم کو بھی ہمارے حکمرانوں کی طرح موسیقی سے گہری رغبت تھی ۔ شہنشاہ ِاکبر کے درباری گوئیے ’’میاں تان سین‘‘ نے اپنے بادشاہ کی خوشامد کرتے ہوئے ایک راگ ترتیب دیا تھا ۔جس کانام درباری تجویز کیا گیا ۔ میاں تان سین میوات گھرانے کے جدِامجد تھے (براہ کرم ’’میاں ‘‘ کے سابقہ سے تان سین کو حکمران نہ سمجھاجائے۔وہ حکمران نہیں انکے درباری تھے)۔درباری راگ کی خاصیت ہے کہ اس میں’’ اکبر اعظم‘‘ کی خوشامد کی جاتی تھی ۔ بعدازاں راگ درباری حکمرانوں کی خوشامد کے لئے موزوں سمجھا جانے لگا۔ استاد بڑے غلام علی خاں،استاد امیر خاں اور دہلی گھرانے کے استاد چاند خاں سمیت دوسرے خان صاحبان نے درباری میں ’’انوکھا لاڈلہ ‘‘ گایا ،جسے گریٹ آرکائیو کی حیثیت حاصل ہے۔ روایت کے مطابق تان سین نے یہ راگ اکبر اعظم کو شہزادہ شیخو کی پیدائش پر پہلی بار سنایاتھا۔بعدازاں اکبر اس راگ کو اپنے لاڈلے شیخو کے ساتھ باہم سنتے اور سردھنتے تھے۔ درباری راگ لاڈلوں کیلئے تھا اور اس میں لاڈلوں کا ذکرِخیر ہوا کرتا تھا۔ بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ میاں نوازشریف اورعمران خان دونوں آمروں کے لاڈلے ہیں اور آپس میں لڑرہے ہیں ۔ میاں نوازشریف اوران کا خاندان تو گز شتہ 36سالوں سے اقتدار کی میراتھن میں شامل ہے لیکن عمران خان کے پاس تو آج تک کوئی حکومتی عہدہ نہیں رہا اس کے باوجود انہیں لاڈلہ کیوں سمجھا جاتاہے؟اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ سیاست کے میدان میں کپتان نے فرنٹ فٹ پر کھیلتے ہوئے یہ تاثر دیاہے کہ وہ ایمپائر کے فیورٹ ہیں ۔دوسری طرف عمران خان کا کہنا ہے کہ ڈکٹیٹر کی گود میں پلنے والے ہمیں جمہوریت کا درس دیتے ہیں،نواز شریف مجھے لاڈلہ کہتے ہیں ،لاڈلہ وہ ہے جسے جنرل ضیاالحق نے چوسنی دے کر پالا۔ان کے لئے آئی جے آئی بنوائی اوران کی پوری مدد کی۔نوازشریف اس نظام کے وہ خوش قسمت ترین انسان ہیں جنہیں حکمراںبنانے کیلئے حکمرانی کے ’’ہما‘‘ کو باقاعدہ Anesthesia(بے ہوشی کی دوا)دینی پڑی۔میاں صاحب ٹشن کیساتھ حکومت فرمارہے تھے ، نیرو چین کی بانسری بجارہاتھا ،مورخ تاریخ کے سنہری پنوں پر خوشحالی ،سکھ ، چین اور عدل وانصاف کی داستانیں لکھ رہاتھا ۔ اچانک پاناما کا ظہور ہوا اور اقامہ کی بنیاد پر انہیں نااہل قراردیدیاگیا۔بس پھر کیاتھا؟ میاں صاحب کیساتھ ساتھ ہماری بھی کایاپلٹ گئی۔ نااہل ہونے کے بعد سے میاں صاحب ایک انقلابی لیڈر کی شکل اختیار کرچکے ہیںان کا کہنا ہے کہ وہ عوام کے ووٹ کے تقدس اور انصاف کیلئے تحریک چلائینگے۔وہ کہتے ہیں ’’لاڈلے کو چھوڑ دیا‘‘عمران خان نے کہا یہ میرا اثاثہ ہے ،عدالت نے کہا’’ نیئں پتر نیئں تینوں نیئں پتا ،توں صادق تے امین ایں ‘‘(نہیں بیٹے نہیں تجھے نہیں پتا تم صادق اور امین ہو)ملک کی کوئی عدالت مشرف کو سزادے گی؟
میاں صاحب اپنے خلاف فیصلے کے بعد یہ سوال اٹھا رہے ہیں عمران لاڈلہ ہے اسلئے اسے بچایاگیاجبکہ عمران،میاں صاحب کو لاڈلہ ثابت کرتے ہوئے اسٹبیلشمنٹ سے انکا گٹھ جوڑ یاد کرارہاہے۔بلاول دونوں کو لاڈلہ قراردیتے ہوئے اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو،نانی بیگم نصرت بھٹو،والدہ بے نظیر بھٹو اور بعدازاں پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف عدالتی فیصلوں کی یاد دلاتے ہوئے کہہ رہاہے کہ ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔27دسمبر بی بی شہید کی 10ویں برسی کے موقع پر بلاول نے تیسرے لاڈلے کو اپنی والدہ، بے نظیر بھٹو کا قاتل قراردیا۔جوابی وار کے طور پر جنرل ریٹائرڈ مشرف نے کہاکہ بلاول عورتوں کی طرح نعرے لگوارہے ہیں،انہیں پتہ ہونا چاہئے کہ ان کی والدہ کے قاتل ان کے گھر میں ہیں،بے نظیر کے قتل کا سب سے زیادہ فائدہ کسے ہوا؟رحمان ملک، جو بی بی کا سیکورٹی انچارج تھا وہ موقع سے غائب کیسے ہوگیا؟مشرف کے اس ’’ مردانہ وار‘‘ کمانڈو ایکشن کی بات کی جائے تو یہ انتہائی قابل اعتراض لب ولہجہ ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ بلاول کے نانابھٹو،نانی بیگم نصرت بھٹو،والدہ بے نظیر بھٹو اور دونوں ماموں شاہ نواز اور مرتضی کو ایک طرح سے قتل کیاگیا۔بلاول کی زندگی کو بھی سیکورٹی کے شدید خدشات لاحق ہیں لیکن اسکے باجود وہ پاکستان میں سیاست کر رہے ہیں۔اسکے برعکس کمانڈو صاحب میڈیکل سرٹیفکیٹ فراہم کرکے دیارِ غیر میں محفوظ زندگی بسر کررہے ہیں۔مشرف صاحب نے غالباََ طنز کرتے ہوئے بلاول کے احتجاج کو ’’عورتوں کا انداز‘‘ قرار دیا ہے۔کیاعورت بزدلی کی علامت ہے جبکہ مرد بہادری اور شجاعت کا برینڈ ایمبسڈر ہوتاہے ؟اگریہ سچ ہوتاتو مشرف میڈیکل سرٹیفکیٹ مہیاکرکے کبھی اس ملک سے نہ جاتے بلکہ یہیں رہ کر اپنے خلاف مقدمات کاسامنا کرتے۔ بے نظیر بھٹو ایک عورت تھیں انہوں نے جب پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیاتو مشرف نے انہیں ٹیلی فون پر کہاتھاکہ پاکستان میں آپ کی سیکورٹی میرے ساتھ تعلقات کی مرہون منت ہوگی۔ مراد یہ تھی کہ عوامی لیڈر چپ رہے۔ 18اکتوبر 2007ءکو جب انہوں نے کراچی میں قدم رکھا تو سانحہ کارساز جیسا بھیانک سانحہ نمودار ہوا جس میںڈیڑھ سو سے زائد پی پی کے ورکرز جان سے گئے اور لگ بھگ 500انسان اپاہج ہوئے۔ یہ اتنی سنگین اور قبیحہ واردات تھی کہ کوئی بھی لیڈر ہوتاتو وہ جان بچانے میں عافیت جانتا لیکن بی بی چونکہ ایک بہادر باپ کی بیٹی تھیں اسلئے واپس نہیں گئیں ۔جنرل (ر) مشرف کہتے ہیں کہ بی بی کی سیکورٹی کے انچارج رحمان ملک تھے ہمیں اچھی طرح یاد ہے رحمان ملک نے 21سے زائد مرتبہ مشرف حکومت سے تحریری درخواست کی تھی کہ بے نظیر بھٹو کی سیکورٹی ناقص ہے۔سانحہ کار سازجیسا بڑا حادثہ رونما ہوچکا تھا،پشاور کے جلسے میں بھی خودکشوں کے ذریعے بی بی کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی ،راولپنڈی کے بعد اگلاجلسہ لاہور تھا ؟ جہاں استاد ِمحترم عباس اطہر (شاہ جی ) اورمیری بے نظیر بھٹو کے ساتھ ملاقات طے تھی، مگر انہیں بھی اسی شہر میں قتل کردیا گیاجہاں بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی تھی۔ جنرل مشرف کی اپنی سیکورٹی تو امریکی صدرکے ہم پلہ تھی لیکن بی بی کو سیکورٹی فراہم نہیں کی گئی ۔ذمہ داری اور فرائض سے غفلت برتنے کے عمل کو مردانگی نہیں کہاجاسکتا ۔یہ ناکامی تو ایک سپاہی کے لئے بھی ندامت ہی ہوگی ،اس احساس کو کیانام دیاجائے کہ سپہ سالار اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہا؟بی بی کو کس نے قتل کرایا،اس کا ماسٹر مائنڈ کون تھا،اس قبیحہ سازش سے کن مقاصد کو پورا کیاگیا؟ اس بابت جنرل مشرف کا برطانوی ادارے کو دیاانٹرویو معنی خیز ہے جس میں انہوں نے کہاہے کہ ممکن ہے ان کے دور حکومت میں اسٹیبلشمنٹ میں ایسے سرکش عناصر ہوں جنہوں نے طالبان کیساتھ مل کر سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو قتل کرنے کی سازش کی ہو۔ مشرف نے کہاکہ میرے پاس شواہد نہیں ہیں لیکن میرے خیال میں میرا اندازہ درست ہے کہ کیونکہ ہمارا معاشرہ مذہبی طو ر پر منقسم ہے اور جس خاتون سے متعلق یہ سمجھاجارہاہو کہ ان کا جھکائو مغرب کی طرف ہے ،اس طرح کے عناصر کی طرف سے مشکوک سمجھاجاتاہے۔مشرف کا اندازہ ہے کہ بی بی کے قتل میں اسٹیبلشمنٹ کے سرکش عناصر ملوث ہوسکتے ہیں۔حکومت اور ریاست کا فرض ہے کہ وہ بے نظیر کے قاتلوں کو بے نقاب کرتے ہوئے یہ ثابت کرے کہ یہاں صرف عوام لاڈلے ہیں۔

تازہ ترین