• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاید بہت سارے اصحاب اس بات پر یقین نہ کریں کہ یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے عیسائیوں کیلئے بیت المقدس فتح کیا ۔ بیت المقدس تیرہ سو سال مسلمانوں کے قبضے میں رہا۔ عیسائیوں نے اسے واپس لینے کیلئے 12صلیبی جنگیں لڑیںلیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے، بالاآخر یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کاخون بہایا۔آپ حیران ہونگے کہ آخری صلیبی جنگ میںیہود ، نصاریٰ ، مسلم’’ یک جان تھے ‘‘ آئیے تاریخ کی گواہی لیتے ہیں ۔ نلسن ’’تاریخی جنگ‘‘ میں رقم طراز ہیں’’آخری صلیبی جنگ عروج پر تھی، اگر سینٹ لوئس، ریمنڈ اور رچرڈ شاہ انگلستان ان ’’حیرت افزا‘‘ افواج کو دیکھتے تو ان کی روحیں اس وجہ سے متحیر ہو جاتیں کہ اس کا بہت قلیل حصہ مغربی اقوام (یورپ) پر مشتمل تھا، الجزئری اور ہندی مسلمان، عرب قبائل، ہندوستان کے سیکڑوں فرقوں کے ماننے والے، افریقہ کے حبشی اور یہودی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے ’’نصاریٰ کے مقدس شہر‘‘ کو آزاد کرالیا تھا‘‘
فلسطین کو Crusader's Land (صلیبی جنگوں کی سرزمین) بھی کہا جاتا ہے۔ ان12صلیبی جنگوں کے بارے میں مورخین کا اندازہ ہے کہ ان میں 60 لاکھ عیسائی مارے گئے، لیکن پھر بھی وہ مقدس مقام مسلمانوں سے نہ چھین سکے۔لیکن مکار دشمن کی سازش کے تحت برصغیر کے بعض فتوٰی فروشوں نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے کہ خود عیسائی دنگ رہ گئے۔ اس سازش میں شریف مکہ حسین کی عرب قوم پرستی و ترکوں کیخلاف مخاصمت جہاں کار فرما تھی تو دوسری طرف ہندوستان کے دین فروش بھی بروئے کار تھے۔بالکل اسی طرح جیسےکہ 1979میںافغانستان میں امریکہ روس جنگ میں پاکستانی دین فروش اور گلبدین(نام نہاد مجاہد کبیر)مولوی یونس،اُستاد سیاف اور برہان الدین ربانی جیسے سکہ بند وطن فروش امریکی Holy warیعنی نام نہاد جہاد میں سرگرم تھے۔
واقعہ یہ ہے کہ8 اور 9 دسمبر1917 ء کی درمیانی شب جب یہ لشکر باقی علاقہ روندتا ہوا مقام مقدس پہنچا تو بغیر جنگ کئے ترکوں کے آخری سپاہی نے بیت المقدس خالی کر دیا، اس طرح چار سو سالہ عثمانی دور یہاں اختتام پذیر ہوا۔ 10 دسمبر کی صبح کو جنرل شیا، کمان افسر 60 ڈویژن اور 11 دسمبر کو جنرل ایلنبائی جو مصری و فلسطینی افواج کا سپہ سالار اعظم تھا، مع اپنے اسٹاف کے پیدل فاتحانہ انداز میں باب یافا سے بیت المقدس میں داخل ہو گیا۔ بعدازاں سلطنت برطانیہ نے اس راز سے پردہ اٹھا دیا کہ یہ بھی صلیبی جنگ تھی ۔ مورخین نے اسے تیرہویں صلیبی جنگ قرار دیا۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق جنرل ایلنبائی سے قبل سوا سات سو سال تک یروشلم نے کسی عیسائی فاتح یا برطانوی سپاہی کو نہیں دیکھا تھا…! چرچل اپنی تصنیف ’’دی گریٹ وار‘‘ میں لکھتے ہیں ’’8 دسمبر 1917ء کو ترک بیت المقدس سے دستبردار ہو گئے، ان کے خاتمے کے بعد برطانوی کمانڈر انچیف برطانیہ کے زیر ِکمان ہندوستانی اور عرب مسلمانوں کی موجودگی میں ’’واہ واہ‘‘ اور ’’مرحبا، مرحبا‘‘ کے نعروں کے ساتھ شہر میں داخل ہوا‘‘۔ جارج ٹائونسنڈ اپنی کتاب ’’گرائونڈ ورک آف برٹش ہسٹری‘‘ کے صفحہ 757 پر لکھتے ہیں۔ ’’فلسطین میں شاندار پیش قدمی کے انصرام کا سہرا خاص طور پر ہندوستانی مسلمان افواج کے سر ہے‘‘۔ مسٹر لاول ٹامس اپنی کتاب ’’عرب میں لارنس کے ہمراہ‘‘ میں کیپٹن لارنس المعروف لارنس آف عربیہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں اس فتح کا ایسا Holy Warrior (مقدس جنگجو) قرار دیتے ہیں جس نے دین فروشوں کو خریدا۔یوں دین فروش ’’جہادی فیکٹری‘‘ سے ایسی ایسی پیشن گوئیاں منظر عام پر لائے کہ سادہ لوح مسلمانوں کے پاس قائل ہونے کےسوا کوئی منطق ہی نہیں تھی۔ ان میں اس پیش گوئی کا خوب خوب چرچا کیا گیا ’’بیت المقدس کو آزاد کرنے والا مغرب سے آئے گا‘‘ ۔اگرسادہ لوح مسلمان فتوٰی فروشوں کے بجائے قرآن عظیم سے رجوع کر لیتے تو وہ کیونکر اپنے ہاتھوں اپنی تباہی کا سامان کرتے۔ آج بھی دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ مسلم ممالک میں مسلم ہی یہود و نصاریٰ کے اشاروں پر اپنے بھائیوں کیخلاف میدان جنگ میں ہیں۔ جہاد کا مقدس نام یوں غلط استعمال میں لایا گیا کہ اس سے اصل جہاد کا تصور ہی دھندلا سا گیا ہے، یہی اسلام مخالف قوتوں کا اصل ایجنڈا ہے۔ فلسطینیوں کے حق میں ہمارے مظاہرے، جذبات سو فیصد برحق ... اصل کام مگر یہ ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنے پانچ چھ فٹ بدن پر اسلام نافذ کریں پھر نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر تک کی فکر کریں۔جو لوگ ہمارے معصوم بچوں کو کسی نام نہاد جہاد میں شرکت کی ترغیب دیتے ہیں،اُن سے تقاضا کریں کہ پہلے خود شہید یا غازی بن کر دکھائیں کیا یہ امر عبرت آموز نہیں کہ جن دین فروشوں کی سازش پر 40لاکھ مسلمان نام نہاد جہاد کی بھٹی میں جل کر راکھ ہوگئے، وہ سازشی آج بھی پاکستان اور افغانستان میں مزے کررہے ہیں اور انکے بچے انہی ممالک میں عیاشی کررہے ہیں جن کے خلاف ایسے دین فروشوں نے جھوٹا عَلم بلند رکھا تھا ۔
باچا خان 1926میںاپنی اہلیہ کے ہمراہ حج پر گئے ، وہاں انہوں نے موتمر عالم اسلامی کے اجلاس میں بھی شرکت کی۔پھر آپ بیت المقدس چلے گئے، جہاں سیڑھیوں سے گر کر آپ کی اہلیہ زخمی ہوئیں،اور چند روز بعد انتقال کرگئیں۔ مرحومہ کو آپ نے مقدس سرزمین ہی میں سپرد خاک کیا۔باچا خان اپنی کتاب ،میری زندگی اور جدوجہد میں لکھتے ہیں ’ میں فلسطین میں آبادزمینوں ،باغات،محلات کوکو دیکھتا تو پتہ چلتا کہ یہ یہودیوں کی ملکیت ہے، اور جو غیرآباد ہوتے وہ مسلمانوں کے ہوتے،میں نے اس سلسلے میں بات کی تو ہر ایک کا جواب تھا کہ چودھویں صدی میںجب وہ آئیں گے تو پھر سب کچھ ہمارے ہاتھ آجائیگا۔ایک منصوبے کے تحت اُنہیں بیکار محض بناکر رکھ دیا گیا تھا۔وہ اپنی جائیدادیں فروخت کرتے، سارا دن قہوہ خانوں میں گزارتے اور شام کو ہوٹلوں اور تفریح گاہوں کا رُخ کرتے ‘‘ ۔اس اقتباس کا سبق یہ ہے کہ ہمیں سب سے پہلے اپنے طرز عمل کا جائزہ لینا چاہئے ۔ یہ یاد رہے کہ قرآن عظیم اور خانہ کعبہ کی حفاظت کا ذمہ مولائے کریم نے خود لے رکھا ہے اور بیت المقدس کی آزادی ہمارے اعمال سے مشروط ہے۔ جب تک ہمارے اعمال درست رہے، بیت المقدس ہمارا رہا۔ جب جب ہم اپنے اعمال سے یہود و نصاریٰ کو بھی شرمسار کرنے لگے تو یہ مقدس شہر مقبوضہ بن گیا۔سوال یہ ہے کہ کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ ہم اپنے قول و فعل کا جائزہ لیں اور یہ بھی سوچیں کہ ہماری ریلیوں سےیہود و نصاریٰ کا نقصان ہوتا ہے ،یااس روز ہمارے ہم وطنوں کا روزگار اور ضروری آمد ورفت متاثر ہوتی ہے؟
ذرا سوچئے! اگر ہم رشوت لیتے، ملاوٹ،کرپشن، بم دھماکے ،ٹارگٹ کلنگ کرتےہوں، جہادکے نام پر فساداورایک دوسرے کی مساجد پر قبضے کرتے ہوں تو خداوندِ قدوس کیونکر ہماری مدد کریں گے۔!

تازہ ترین