• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے اسماعیلی برادری کے روحانی پیشوا عزت مآب پرنس کریم آغا خان جو گولڈن جوبلی تقریبات میں شرکت کیلئے پاکستان آئے تھے، کے اعزاز میں وزیراعلیٰ سندھ نے چیف منسٹر ہائوس میں ایک نہایت پرتکلف عشائیہ دیا جس میںبلاول بھٹو زرداری، فریال تالپور، سندھ کابینہ کے وزراء اور آغا خان کے تحت چلنے والے اداروں کے سربراہان نے شرکت کی۔ مجھے بھی اس عشایئے میں خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ میرے حلقے NA-250 کراچی میں آغا خانی جماعت خانہ ہونے کے ناطے میرا آغا خان برادری سے قریبی تعلق ہے۔ پرنس کریم آغا خان کے اعزاز میں گورنر اور وزیراعلیٰ سندھ کے عشائیوں میں میری ملاقات بیرون ملک مقیم کئی پاکستانیوں سے ہوئی جو میرے کالم پڑھتے تھے، جنہوں نے مجھ سے اپنے بیرون ملک اثاثوں کو پاکستان میں دستاویزی شکل دینے کیلئے حکومتی پالیسی پر کالم لکھنے کی درخواست کی۔ اس سے پہلے بھی اسی موضوع پر میری ملاقات کئی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ہوئی تھی جو بوہری برادری کے روحانی پیشوا سیدنا مفضل سیف الدین کی پاکستان آمد کی تقریبات میں شرکت کیلئے کراچی آئے تھے۔ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ سیدنا مفضل سیف الدین سے میری کراچی میں خصوصی ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے مجھے ایک شال کا تحفہ دیا اور میرے لئے خصوصی دعا کی۔پاکستان میں یمن کے اعزازی قونصل جنرل ہونے کے ناطے میرا بوہری برادری سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ چند سال پہلے سیدنا کی سالگرہ کی تقریب میں شرکت کیلئے تقریباً 10 ہزار بوہری عقیدت مند یمن گئے تھے جس میں یمن سفارتخانے نے اہم کردار ادا کیا تھا اور میرے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ بوہری برادری مجھے ہمیشہ اپنی اہم تقاریب میں مدعو کرتی ہے۔
قارئین! حکومت نے اب تک جتنی ٹیکس ایمنسٹی اسکیمیں متعارف کرائی ہیں، وہ تمام پاکستان میں مقیم پاکستانیوں کیلئے تھیں لیکن حکومت نے اب تک غیر ملکی پاکستانیوں کے بیرون ملک اثاثوں کو دستاویزی شکل دینے کیلئے کسی ایسی اسکیم کا اعلان نہیں کیا جس کے تحت وہ اپنے بیرون ملک اثاثوں کو دستاویزی شکل دے سکیں۔ ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال، بھتہ کلچر اور اغواء برائے تاوان جیسے عوامل کے باعث پاکستانیوں نے اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرکے مختلف کاروبار میں لگایا جس کی مالیت تقریباً 150 ارب ڈالر ہوچکی ہے۔ آف شور کمپنیوں کی تحقیقات اور منی لانڈرنگ کے نئے سخت قوانین کے باعث اب ان اثاثوں کو بیرون ملک رکھنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے بھارت نے حال ہی میں بیرونی اثاثوں اور انکم کیلئے ایک ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا تھا جس کے تحت بھارت میں بیرون ملک رکھے گئے اثاثوں کو قانونی بنایا جاسکتا تھا۔ بھارت میں بڑے نوٹوں کی منسوخی اور غیر قانونی دولت پر کریک ڈائون کی وجہ سے بے شمار بھارتیوں نے نئی ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھایا اور اب تک 64 ہزار افراد مجموعی طور پر 9.8 ارب ڈالر ظاہر کرکے اپنی رقوم قانونی بناچکے ہیں۔دنیا کے کئی ممالک بیرون ملک اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم سے فائدہ اٹھاچکے ہیں جس میں سرفہرست انڈونیشیا ہے جہاں اس اسکیم کے نتیجے میں حکومت کو 100 ارب ڈالر حاصل ہوئے۔ اس کے علاوہ بھارت، جنوبی افریقہ، روس اور کچھ یورپی ممالک میں بھی اس طرح کی اسکیمیں نہایت کامیاب رہیں۔ بیرونی اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم کو فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FPCCI) کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستانیوں کے تقریباً 150 ارب ڈالر کے اثاثے اور رقوم بیرون ملک موجود ہیں مگر دنیا میں سخت بینکنگ قوانین اور ممالک کے درمیان معلومات کے تبادلے کے معاہدوں کے بعد پاکستانی سرمایہ کاروں کیلئے بیرون ملک اپنا سرمایہ رکھنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر حکومت بیرونی اثاثے ڈکلیئر اور وطن واپس لانے کیلئے خصوصی اسکیم کا اعلان کرتی ہے تو معاشی ماہرین کے مطابق حکومت کو تقریباً 10 ارب ڈالر بیرونی زرمبادلہ اور خطیر رقم ٹیکس کی صورت میں حاصل ہوسکتی ہے جس کے بعد ہمیں آئی ایم ایف سے قرضے لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ یاد رہے کہ رواں مالی سال حکومت کو تقریباً 8 سے 9 ارب ڈالر بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے جس کیلئے وہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں بانڈز کا اجراء کررہی ہے لیکن خزانے پر منافع اور سود کی ادائیگی کا ناقابل برداشت بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔
پاکستان کے ٹیکس قوانین انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء، فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ 1947ء، اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ، پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992ء، پروٹیکشن آف فارن ایکسچینج ایکٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ آف شور کمپنیاں پاکستان میں ٹیکس کی چوری کیلئے نہیں بلکہ بیرون ملک ٹیکس اور دیگر کاروباری معلومات نہ دینے کی وجہ سے قائم کی گئی ہیں۔ پاکستانی انکم ٹیکس قوانین کے مطابق کوئی بھی بیرون ملک مقیم غیر رہائشی پاکستانی بیرون ملک اپنے اثاثوں کو ظاہر کئے بغیر رکھ سکتا ہے بشرطیکہ اس کی سرمایہ کاری اور آمدنی پاکستان سے نہ ہو۔ اسی طرح موجودہ فارن ایکسچینج قوانین کے تحت پاکستان میں قانونی طور پر حاصل کی گئی انکم کو اسٹیٹ بینک کی منظوری کے بغیر غیر ملکی کرنسی میں بیرون ملک منتقل کیا جاسکتا ہے جس سے وہ بیرون ملک اپنے قانونی اثاثے بناسکتے ہیں۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکشن III(4) کے تحت بیرون ملک سے بینکنگ چینل کے ذریعے پاکستان بھیجی جانے والی رقوم بغیر ذرائع آمدنی پوچھے قانونی تسلیم کی جاتی ہیں اور اگر کوئی شخص اپنا کالا دھن قانونی بنانا چاہتا ہے تو وہ 2سے 3فیصد اخراجات پر اپنی رقم بیرون ملک سے اپنے اکائونٹ میں منتقل کرکے اُسے قانونی بناسکتا ہے، پاکستانی ٹیکس قوانین میں ٹیکس چوری قابل سزا جرم نہیں ہے۔ ملکی قوانین کے مطابق اگر کسی ٹیکس دہندہ نے اپنے ملکی یا غیر ملکی اثاثے 5 سال تک انکم ٹیکس گوشوارے میں ظاہر نہیں کئے تو ایف بی آر 6 سال پرانے ان اثاثوں جو فروخت یا گفٹ کردیئے گئے ہیں، کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں کرسکتا۔
ان حالات کو دیکھتے ہوئے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس نے اسلام آباد اور کراچی میں سابق اور موجودہ وزیراعظم پاکستان سے بیرون ملک اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم کی پروزور حمایت کی اور اس پر سفارشات پیش کیں۔ اس موقع پر وزیراعظم کی ہدایت پر عارف حبیب کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں فیڈریشن اور اوورسیز چیمبرز کے صدور، ممتاز بزنس لیڈرز اور کیپٹل مارکیٹ کے نمائندے شامل تھے جنہوں نے غیر ملکی اثاثے ظاہر کرنے پر وزیراعظم کو اپنی سفارشات پیش کیں لیکن ملک میں سیاسی حالات میں تبدیلی کے باعث ان پر کوئی پیشرفت نہ ہوسکی۔ حال ہی میں ممتاز چارٹرڈ اکائونٹینٹ مسعود نقوی کی سربراہی میں قائم ٹیکس ریفارمز کمیشن جس میں عابد شعبان اور اشفاق تولہ بھی شامل ہیں ، نے وزیراعظم کے مشیر برائے ریونیو ہارون اختر کو دوبارہ غیر ملکی اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم پر سفارشات پیش کی ہیں۔ کمیشن کے ممبر ممتاز ٹیکس ماہر عابد شعبان کے مطابق 6 سال پرانے اثاثوں کو ان کی اصل قیمت خرید پر ظاہر کرنے پر ایک فیصد اور 6 سال سے کم اثاثوں پر 2 فیصد ٹیکس کی تجویز دی ہے جبکہ کمیشن کے چیئرمین مسعود نقوی کے مطابق اس اسکیم میں ٹیکس کی شرح 3 سے 4 فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔ ایک تخمینے کے مطابق اس اسکیم سے کم از کم 10 ارب ڈالر کے بیرون ملک اثاثے ظاہر کرنے کی توقع ہے جس سے ٹیکس کی مد میں ایک خطیر رقم حاصل ہوگی۔ ہارون اختر نے اسکیم پر اپوزیشن جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کو کہا ہے۔میں نے اور فیڈریشن کے صدر زبیر طفیل نے اس موضوع پر حال ہی میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے فیڈریشن کے دورے میں بات کی تھی اور اسد عمر اور جہانگیر ترین نے ہمیں اپنے تعاون کا یقین دلایا ہے۔ میں نے اپنے دوست پیپلزپارٹی کے سینیٹر سلیم مانڈوی والا سے بھی بیرون ملک اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم پر تفصیلی گفتگو کی۔ انہوں نے بھی مجھے اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے اور بلاول بھٹو کی بزنس کمیونٹی کے ساتھ فیڈریشن میں ہونے والی عنقریب ملاقات میں اس پر بات چیت کرنے کو کہا ہے۔مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ سعد رفیق کے فیڈریشن کے حالیہ دورے پر بھی بزنس کمیونٹی نے انہیں بیرون ملک اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم پر زور دیا انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ اس معاملے پر وزیراعظم سے بات کریں گے۔
قیام پاکستان کے 70 سالوں کے دوران مختلف حکومتوں کی غیر تسلسل پالیسیوں سے بزنس مینوں کا اعتماد مجروح ہوا ہے۔ ذوالفقار بھٹو کے دور حکومت میں نجی اداروں کو نجکاری کے ذریعے سرکاری تحویل میں لینا، نواز شریف دور حکومت میں فارن کرنسی اکائونٹس منجمد کرنا، کراچی میں امن و امان کی ناقص ترین صورتحال اور انرجی بحران کے باعث جان و مال اور سرمائے کے تحفظ کیلئے صنعتکاروں و سرمایہ کاروں کا اپنی صنعتیں اور سرمایہ کاری بیرون ملک منتقل کرنا وہ حقیقی عوامل تھے جو بیرون ملک پاکستانی سرمایہ کاری کی منتقلی کا سبب بنے لیکن اب ملک میں امن و امان کی بہتر صورتحال اور ٹیکس کے نئے قوانین کے مدنظر بزنس کمیونٹی بیرون ملک اپنے اثاثوں کو ظاہر کرکے اسے دستاویزی اور قانونی شکل دینا چاہتی ہے تو حکومت کو ان کیلئے دروازے کھولنے ہوں گے جس سے ہمیں خطیر زرمبادلہ اور ریونیو بھی حاصل ہوگا۔

تازہ ترین