• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی طویل عرصے سے اپنی قیادت کی تلاش میں ہے ۔ یہ ایک ایسا شہر ہے ، جس نے ہمیشہ قومی سیاست میں قائدانہ کردار ادا کیا لیکن خود اپنی قیادت کی تلاش میں رہا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ شہر اپنی آبادی ، معیشت اور محل وقوع کے اعتبار سے نہ صرف پاکستان بلکہ اس خطے میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے اور اسی خصوصی اہمیت کی وجہ سے کراچی ملکی ، علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں کے نشانے پر رہا ہے ۔ اس شہر کی ہمیشہ اپنی شناخت رہی ہے اور اس میں سیاسی اور معاشی کایہ پلٹ کی صلاحیت موجود ہے ۔ اس لئے مخصوص مفادات رکھنے والی داخلی اور خارجی طاقتوں نے اس شہر کو اپنی قیادت کی تلاش میں رکھا اور یہاں ایسی صورت حال پیدا کی گئی کہ اس شہر کا پاکستان اور خطے میں فیصلہ کن کردار نہ بن سکے ۔
ایسا نہیں ہے کہ کراچی میں کوئی قیادت پیدا ہی نہیں ہوئی ۔ یہ وہ شہر ہے ، جسے طلباسیاست میں برتری حاصل رہی ۔ قائد اعظم محمد علی جناح سے لے کر ذوالفقار علی بھٹواور محترمہ بینظیر بھٹو تک ہر عوامی لیڈر نے طلباء رہنماؤں کو اپنی طاقت بنایا ۔ یہ وہ شہر ہے ، جس نے محنت کشوں کو قیادت فراہم کی اور ہمیشہ ٹریڈ یونین سیاست کا مرکز رہا ۔ کراچی کی محنت کش قیادت نے پاکستان کی ٹریڈ یونین اور جمہوری تحریکوں میں سب سے زیادہ کردار ادا کیا ۔ کراچی پاکستان کی تمام بڑی سیاسی تحریکوں کا انجن بنا رہا اور ہر سیاسی تحریک کراچی کی شمولیت کی وجہ سے نتیجہ خیز ثابت ہوئی ۔ نہ صرف ترقی پسندانہ سیاست میں یہ شہر سب سے آگے رہا بلکہ رجعت پسندانہ سیاست میں اسے سبقت حاصل رہی ۔ اگرچہ اس شہر کی شناخت دائیں بازو کی سیاسی قوتوں کی نسبت سے کرانے کی کوشش کی گئی لیکن یہ شہر بنیادی طور پر اپنے جوہر میں بائیں بازو کا اور لبرل شہر ہے ۔ شہر کے اسی جوہر اور شناخت کو ختم کرنے کی ہمیشہ کوششیں کی گئیں لیکن اس شہر میں اب بھی اپنی شناخت کو اجاگر کرنے اور اس ملک اور اس خطے کی قیادت کرنے کی تڑپ پہلے کی طرح موجود ہے ، جسے میں قیادت کی تلاش سے تعبیر کر رہا ہوں ۔
قیام پاکستان سے قبل بھی کراچی اس خطے کا تجارتی اور معاشی حب تھا اور اپنی خوبصورتی ، شہری نظم و نسق ، معیشت ، جدید معاشرت ، لبرل رویوں اور بہترین محل وقوع کی وجہ سے مغرب کے شہروں کے ہم پلہ تھا ۔ قیام پاکستان کے بعد اس شہر کی معاشی اور جغرافیائی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا ۔ پہلے بھی یہ شہر مختلف مذہبی ، مسلکی ، قومیتی ، نسلی اور لسانی گروہوں کی رنگا رنگ اور متنوع آبادی کی وجہ سے ’’ کاسموپولیٹن سٹی ‘‘ تھا اور آج بھی ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد یہاں مہاجرین کی آبادی زیادہ ہو گئی اور یہاں ہر شعبے میں مہاجر قیادت غالب نظر آئی لیکن کراچی دیگر قومیتی ، نسلی اور لسانی گروہوں کا بھی مسکن رہا ۔ اگرچہ آج بھی یہاں اردو بولنے والوں کی اکثریت ہے لیکن پاکستان میں پختونوں کا سب سے بڑا شہر بھی کراچی ہے ۔ اسی طرح سندھیوں ، سرائیکیوں ، پنجابیوں ، بلوچوں اور دیگر زبانیں بولنے والوں کا سب سے بڑا شہر بھی کراچی ہے ۔ کراچی کے مختلف رنگ آج بھی بہت گہرے ہیں ۔ یہ رنگا رنگی اور تنوع کراچی کی شناخت ہے اور اس کی بھرپور زندگی کا مظہر ہے ۔ اس سے کراچی کا مخصوص سیاسی کردار اجاگر ہوتا ہے ۔ کراچی میں سیاسی پہل (Political Initiative ) ہے ۔ اسے ہی ختم کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ قیام پاکستان کے بعد تو خاص طور پر کراچی سے نہ صرف پاکستان بلکہ اس خطے کی مخصوص مفادات رکھنے والی قوتوں کو خطرات محسوس ہونے لگے تھے ۔ اس شہر میں مصنوعی قیادت پیدا کرنے کی کوششوں سے نہ صرف پاکستان میں ترقی پسند اور جمہوری معاشرہ تشکیل دینے میں رکاوٹیں پیدا کی گئیں بلکہ کراچی کی تباہی سے اس خطے میں کئی نئے تجارتی اور معاشی حب قائم کئے گئے ، جن میں اپنی ترقی کو برقرار رکھنے کی وہ فطری صلاحیت موجود نہیں ہے ، جو کراچی میں ہے ۔
آج کا کراچی نہ صرف قیام پاکستان کے فوری بعد والے کراچی سے کئی سو گنا بڑا ہے بلکہ گزشتہ دو دہائیوں میں کراچی بہت زیادہ پھیل چکا ہے ۔ وہ وقت دور نہیں ہے ، جب حیدر آباد اور ٹھٹھہ بھی عروس البلاد کراچی کے ساتھ مل جائیں گے ۔ یہ شہر ڈھائی سے تین کروڑ آبادی تک جا پہنچا ہے ۔ مسلسل بدامنی اور خونریزی کے باوجود اس شہر کی آبادی بڑھتی رہی ہے اور اس کی عظیم معاشی طاقت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے ۔ کراچی کی معیشت ایک طاقتور مقناطیس کی طرح ایک بار پھر ارد گرد کے سرمائے کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے ۔ یہ کراچی کی قدرتی طاقت ہے ۔ کراچی ایک بار پھر اس ملک اور اس خطے کی قیادت کرنے کے لئےتگ و دو کر رہا ہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ کراچی کو پھر الجھا دیا جائے گا ۔ کراچی میں پھیلاؤ کسی منصوبہ بندی کے بغیر ہو رہا ہے ۔ اس شہر کا کوئی ماسٹر پلان نہیں ہے ۔ اس شہر کی کوئی اونر شپ لینے کو تیار نہیں ہے ۔ یہاں ٹریفک کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں اتنی بڑی آبادی کو پینے کے صاف پانی ، بجلی اور گیس کی ضرورتیں پوری کرنا ایک بڑا چیلنج ہے ۔ کراچی میں صنعتی اور تجارتی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں لیکن منصوبہ بندی اور بنیادی سہولتوں کے فقدان کے باعث یہ شہر اب اپنے داخلی بحران سے دوچار ہے ، جو شہریوں کی ’’ پولیٹیکل فرسٹیشن ‘‘ کو ایک بار پھر کسی کے ہاتھوں استعمال ہونے کا سبب بن سکتا ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ قیادت کی تلاش ختم نہیں ہو گی ۔
ابتداء میں کراچی پاکستان کا دارالحکومت تھا اور کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد کی پلاننگ اس طرح کی گئی تھی ، جس طرح کسی ملک کے دارالحکومت کی جاتی ہے ۔ نارتھ ناظم آباد کو اسلام آباد سے پہلے ترقی دی گئی لیکن دارالحکومت نارتھ ناظم آباد میں نہ بن سکا اور ایک سازش کے تحت دارالحکومت کراچی سے منتقل کر دیا گیا ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج کراچی کی حیثیت ایسی ہوتی ، جیسے ہندوستان میں نئی دہلی کی ہے ۔ دارالحکومت منتقل کرنے کے بعد اس شہر میں منصوبہ بندی بھی ختم کر دی گئی ۔ آج شہری مسائل کی وجہ سے کراچی اپنی سیاسی پہل والی صلاحیت کے استعمال سے قاصر ہے ۔
قائداعظم، ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹوقائد Statesmen تھے ۔ ان کے بعد وزیر اعظم بنے؛ قائد بننے اور حکومت کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ قائدین قومی مفادات میں فیصلے کر کے اپنا نام بناتے ہیں تاریخ میں مقام بناتے ہیں برخلاف اسکے سیاستدان مال بناتے ہیں اور اسکو بچانے کے لئےہر وقت حکمرانی کرنے کے متلاشی ہوتے ہیں۔وقت آ گیا ہے کہ کراچی کی سیاسی اور معاشی طاقت کا ادراک کیا جائے اور اگر اسے پہلے کی طرح ملکی سیاست کی بھینٹ چڑھایا گیا تو اس شہر کے خلاف علاقائی اور عالمی طاقتوں کی سازشیں پہلے سے زیادہ خطرناک ہو جائیں گی ۔ اب تک کوئی سیاسی جماعت ایسی نظر نہیں آرہی جو کراچی کے حقیقی سیاسی جوہر کو اجاگر کر سکے ۔ گزشتہ تین دہائیوں تک متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کا سیاسی غلبہ رہا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایم کیو ایم اب اپنی پہلے والی پوزیشن بحال نہیں کر سکے گی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے یہاں سیاست کرنے کا موقع ہے اور 1970 ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی ایک ایسی جماعت بن کر ابھری تھی ، جو کراچی کے حقیقی سیاسی جوہر سے ہم آہنگ تھی ۔
کراچی اب بھی ’’سینٹر لیفٹ ‘‘ اور ’’ لبرل ‘‘ سیاسی تشخص کو اجاگر کرنا چاہتا ہے ۔ لیکن میرے خیال میں پیپلز پارٹی بڑی اور مضبوط سیاسی جماعت ہونے کے باوجود اس شناخت کو اپنے ساتھ جوڑنے کی صلاحیت کھو چکی ہے ۔ پیپلز پارٹی نے شہری سندھ میں بتدریج اپنی مقبولیت کھوئی ہے ۔ ایک جملے میں اس کی وجہ سے بیان کی جا سکتی ہے کہ پیپلز پارٹی کی سیاست ’’ کم نظریاتی ‘‘ ہو رہی ہے ۔
یہ سینٹر لیفٹ اور لبرل حلقوں ، محنت کشوں اور طلباء کی سیاست نہیں کر رہی پاکستان تحریک انصاف کے لئے کراچی میں سیاست کرنے کا ’’ اسکوپ ‘‘ موجود ہے اور یہ کراچی کی ’’ سینٹر رائٹ ‘‘ اور ’’سینٹر لیفٹ ‘‘ مڈل کلاس کی حمایت حاصل کر سکتی ہے لیکن اس کے لئے بھی اس کے پاس کوئی نظریاتی بنیاد نہیں ہے ۔ یہ سیاسی جماعت ایک بہتر چوائس ہو سکتی ہے لیکن تحریک انصاف کراچی کی قیادت نے اس شہر میں لوگوں کو زیادہ متاثر نہیں کیا ہے اور نہ وہ کراچی کے لوگوں کو متحرک کر سکے ہیں ۔ بہت طویل عرصے کے بعد کراچی کا وفاقی اور صوبائی حکومت میں کوئی حصہ نہیں ہے لیکن یہ شہر اپنی شناخت کو اجاگر کرنا چاہتا ہے اور اپنی قیادت کی تلاش میں ہے ۔
اگر کراچی کو کوئی سمجھ لے تو کراچی پاکستان کو نہ صرف اس خطے میں بلکہ عالمی سطح پر قائدانہ کردار کا حامل بنا سکتا ہے ۔ کراچی کے ساتھ اب تک کیا ہوتا رہا اور اب کیا ہونا چاہئے؟ ان دو سوالوں کا جواب حاصل کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے ۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے،
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی.

تازہ ترین