• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جن کے ہر دوسرے جملے میں پاکستان، ملک، وطن، دھرتی اور اس جیسے دوسرے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں وہ اسی ملک کے نظام پر اعتماد اور اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں،کوئی عدالتوں میں زیر سماعت سانحہ ماڈل ٹاون پر اے پی سی منعقد کر کے خود ہی فیصلے صادر کرنے کے ساتھ صوبے کی صوبائی جمہوری حکومت کے سربراہ کے استعفے کی ڈیڈلائنیں صادر کر رہا ہے تو کوئی احتساب عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات سے جان چھڑانے کے لئے بیرونی دوستوںکی مدد کے لئے اڑانیں بھر رہا ہے۔ جنہوں نے ساڑھے چار سال سڑکوں پر گزار دئیے وہ اپنے آئندہ اقتدار کی ضمانت بھی سڑکوں کے ذریعے ہی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جن کی پارٹی چودہ سوووٹوں تک سکڑ چکی ہے وہ کسی غیبی طاقت کے سہارے ملک بھر سے جیتنے کی خوشی میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ جو موجودہ جمہوری دسترخوان سے پیٹ بھر کر سیر ہو چکے انہیں پھر نظریاتی اساس کی فکر لاحق ہو چکی اس لئے واپس اپنے صل کی طرف لوٹنے کے خواہاں تاکہ متحدہ مجلس کے ذریعے آئندہ دستر خوان پر بھی زیادہ جگہ گھیری جا سکے۔ جن کے پاس سائیکل پر بٹھانے کو دوسری سواری نہیں وہ بھی علامہ صاحب کی کرامات سے کسی چمتکار کے خواہشمند ہیں۔ جنہوں نے اپنے ضمیر کی آواز پر اتحاد کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوڑ دی وہ پھر حصہ بقدر جثہ ملنے کے منتظر ہیں۔ ڈیڈھ اینٹ کی مسجدیں بنانے والے جو ایک دوسرے کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں انہیں فیض آباد دھرنے نے وہ شہہ دلا دی کہ وہ خود کو بڑے اسٹیک ہولڈر سمجھنے لگے ہیں اور جن کے پاس کسی کمیٹی میں نمائندگی کے لئے سوائے اپنے دوسرا بندہ تک موجود نہیں انہیں بھی اقتدار کے کھیل کے بڑے کھلاڑی ہونے کا یقین ہو چلا۔ اس ساری صورتحال میں ایک ہم جیسی مخلوق بھی ہے جنہیں عوام کہا جاتا ہے جن کا شمار کسی کھاتے میں نہیں اور جو اس بے قدری پر شکوہ کناں ہیں کہ۔۔
الفت کی نئی منزل کو چلا تو باہیں ڈال کہ باہوں میں
دل توڑنے والے دیکھ کہ چل ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں
راہوں میں پڑے اس عوام کی بے توقیری کا تو یہ عالم ہے کہ ایک طرف احتجاج اور دھرنے کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں تو دوسری طرف نئے این آر او کی بازگشت سنائی دے رہی ہے لیکن نہ سات دن کی ڈیڈ لائن دینے والوں کو عوام سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی نئی یقین دہانیوں اور ضمانتوں کے حصول کی کوشش کرنے والوں کو عوام نامی اسی ہجوم کی کوئی پرواہ۔ اس لئے ہاتھ ہو گا تو ایک بار پھر اس عوام کے ساتھ جن سے بالا تمام معاملات طے کر لئے جائیں گے تاکہ مجھ جیسے عوام کو ان کی اوقات بخوبی یاد دلائی جا سکے جو اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ اس ملک کی قمست کا فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے۔ جنہیں یہ گماں ہے کہ اقتدار کی شطرنج کے تمام مہروں کی آخری چال چلنے میں خودمختار وہ ہیں۔ جو آج بھی اس گھسے پٹے مقولے پرایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں کہ طاقت کا حقیقی سرچشمہ وہی ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاون ہو یا ایک اوراین آر او جن کے نام پر سب کھیل رچایا جا رہا ہے ان عوام کی باری آنے میں تو ابھی بھی پانچ ماہ باقی ہیں لیکن کوئی بھی اس کھیل کے اہم فریق کی باری کا انتظار کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کیوں کہ سب جانتے ہیں کہ عوام کی باری سب پہ بھاری ہو گی جس کے بعد کسی چوں چراں کی کوئی گنجائش نہیں بچے گی۔قطع نظر ان حقائق کے کہ جس باقر نجفی رپورٹ کو بنیاد بنا کر وزیر اعلی اور وزیر قانون پنجاب سے سات روز میں مستعفی ہونے کا مطالبہ کیاجا رہا ہے اس تحقیقاتی عمل کا تو سرے سے بائیکاٹ کیا گیا تھا یہاں تک کہ اس میں متاثرہ فریق نے تو گواہی تک نہیں دی تھی لیکن آج وہی رپورٹ اتنی معتبر ہو چکی کہ اس کی بنیاد پہ پورے نظام کو تلپٹ کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ یہ بھی گڑھے مردے اکھاڑنے والی بات ہے کہ اس باقر نجفی رپورٹ کو سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں قائم کمیشن نے مسترد کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا تھا کہ اسے تسلیم نہ کیا جائے۔ اسی طرح اسی باقر نجفی رپورٹ کی بنیاد پر مقدمے کی ایف آئی آر کے اندراج اور نئی جے آئی ٹی کے قیام اور اس کی سفارشات پر بات کرنا بھی محض وقت کا ضیاع ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاون کا مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت ہے لیکن دن رات عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری کا ڈھول پیٹنے اوراس کی پشت پر کھڑے ہونے کے اعلانات کرنیوالے اس عدالت کے فیصلے کاانتظار کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں بلکہ اپنے سنائے گئے فیصلے پر عمل درآمد چاہتے ہیں جس سے عزائم کا اندازہ لگانا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان بجا فرماتے ہیں کہ بلدیہ ٹاون فیکٹری میں ڈھائی سو سے زیادہ معصوم مزودروں کی ہلاکت پر جن کی پلکیں ندامت سے بھی نہیں بھیگیں وہ ماڈل ٹاون سانحے میں دس افراد کی جانوں کے ضیاع پرخون کے آنسو روتے دکھائی دیتے ہیں جس کا مقصد انصاف کاحصول نہیں بلکہ اقتدار میں حصہ لینا ہے۔ آفرین ہے ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کی ٹیم پر جس نے اے پی سی میں اصولی موقف اختیار کرتے ہوئے مجوزہ اعلامیے کے نکات پر اعتراض کیا اور شطرنج کا مہرہ بننے سے معذوری ظاہر کر دی۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے بلکل درست موقف اختیار کیا کہ ایک طرف سپریم کورٹ سے نوٹس لے کر جے آئی ٹی بنانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف تحقیقات سے پہلے خود ہی منصف بن کر مجرموں کا تعین بھی کردیا گیا ہے۔ اے پی سی میں شامل جماعتوں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی طرف سے اسمبلیوں سے استعفی کی تجویز کی حمایت نہ کرنا بھی واضح کرتا ہے کہ اس کھیل کے سب کھلاڑیوں کو صرف اپنا مفاد عزیز ہے جس میں وہ ایک خاص حد تک حکومت پر دباو ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ پہلے سب سے اہم ہدف اس حد تک انتشار پھیلانا تھا کہ مارچ میں منعقدہ سینیٹ کے الیکشن کا انعقاد ممکن نہ ہو سکے لیکن اب شہباز شریف کو بھی سیاسی منظر نامے سے مائنس کرنا حقیقی ٹارگٹ بن چکا ہے جنہیں تمام ملکی و غیر ملکی طاقتوں کی طرف سے قبولیت کی سند عطا کی جا رہی ہے۔ عوام کے حقوق کی جنگ لڑنے کا دعوی کرنے والے صرف اس لئے صبر کا دامن چھوڑنے پر تلے ہوئے ہیں اور صرف پانچ ماہ کا انتظار ان کے لئے کوہ گراں بن چکا ہے کیوں کہ انہیں عوام کا فیصلہ اپنے حق میں آتا دکھائی نہیں دے رہا۔ افسوس کا مقام تو یہ بھی ہے کہ جو کل تک چیخ چیخ کر اعلان کررہے تھے کہ پاناما کے مقدمے میں سنائے گئے فیصلے کو عوام نے قبول نہیں کیا ہے وہ اب اسی عوامی طاقت پر یقین رکھنے کی بجائے ایک بار پھر کمپرومائز کرنے پرتیار ہو گئے ہیں۔ عوام کے ووٹ کے تقدس اور حق حکمرانی کے لئے تحریک چلانے اور عوام سے ساتھ دینے کا حلف لینے والے ایک بار پھر کسی کے ہاتھ پر بیعت کرنے پہنچ چکے ہیں۔ خطے کی صورتحال اور ملک کو درپیش عالمی چیلنجز سے نمٹنے کی مشاورت کے لئےمقام مقدس پہنچنے کی مضحکہ خیز دلیل دینے والوں نے کیوں اس عوام کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی جن کی طاقت کو سیڑھی بنا کر وہ مقام حاصل کیا گیا جہاں سے کچھ لو کچھ دو کا سودا کیا جا سکتا ہے۔ احتساب عدالت کی چند پیشیوں اور نت نئے مقدمات نے اتنا خوف طاری کردیا کہ عوامی فیصلے کا انتظار بھی نہ کیا جا سکا اورایک بار پھر سجدہ سہو کرنے کی تیاری کر لی گئی۔ یاد دلانے کوبہت کچھ ہے لیکن محدود الفاظ کی پابندی کے باعث تمام فریقین کو صرف یہی باورکرانا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاون کی آڑ سے لے کر بیرون ملک بیٹھ کر نیا سمجھوتہ کرنے تک آپ چاہئے عوام کے ساتھ جتنا بھی کھیل کھیلیں،آخری چال عوام ہی چلیں گے اور کامیابی صرف اسی کا مقدر بنے گی جس کو عوام کی طاقت پر یقین ہو گا۔ صرف پانچ ماہ کا انتظار پھر انہی عوام کی باری جن کو آپ سب مائنس کرنے چلے ہیں۔

تازہ ترین