• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ سب کو نیا عیسوی سال مبارک ہو۔ نئے سال کے آغاز پر میں پاکستانیوں سمیت دنیا بھر کے انسانوں کے لئے دعاگو ہوں کہ کائنات کا خالق ان پرامن اور خوشحالی کی بارش برسائے۔ مسلمان ملکوں میں بہت بدحالی، بدامنی اور غربت ہے۔ رب کائنات ان ملکوں میں خوشحالی، امن اور بہتری کا موسم اتارے۔ یہ تھیں چند دعائیں جوسال کے آغاز ِسفر میں کردی ہیں مگر حقیقت کا آئینہ دکھانا بھی ضروری ہے کیونکہ قوموں اورملکوں کے عملی کردار انہیں بلندی یا پستی عطا کرتے ہیں۔ مجھے خاص طور پر مسلمان ملکوں کو دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے۔ اس دکھ کی ایک خاص وجہ ہے اور وہ وجہ یہ ہے کہ ہمارے پیارے رسولﷺ نے امت ِ مسلمہ کو ایک جسم کی مانند قراردیا ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان ملکوں کی رسوائی دیکھ کر رونے کو جی چاہتا ہے مگر کیا کیا جائے اس رسوائی کے پیچھے خود مسلمان ملکوں کا کردار ہے۔
اگرچہ میں وقتاً فوقتاً گزارشات پیش کرتا رہتا ہوں لیکن آج میں مسلمانوں کے مجموعی اور انفرادی کردار پر بات کروں گا۔ پاکستان سے دو مثالیں بھی دوں گا تاکہ آپ کو بات سمجھنے میں آسانی رہے، کہیں دشواری کا سامنا نہ ہو۔ پہلے ذرا مجموعی کردار پر بات ہوجائے۔ 1917میں پہلی جنگ ِ عظیم کے خاتمے کے بعد مسلمانوں کی حالت بہت اچھی نہیں تھی۔ اسی لئے سامراج نے مسلمان ملکوں میں اپنے غلام حکمران بھرتی کرلئے۔ غلام تو غلام ہی ہوتے ہیں مسلمان حکمرانوں کی اکثریت کا تعلق خاندانِ غلاماں ہی سے تھا، کیا ترکی تو کیا ایران، کیا خطہ ٔ عرب کے مسلمان حکمران، سب غلام تھے۔ سب امریکہ اور برطانیہ کی بولیاں بولتے تھے۔ 1940کے بعد دوسری جنگ ِ عظیم ہوئی۔ 1945میں اقوام متحدہ بن گئی۔ یاد رہے کہ بہت سے ملکوں کو دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد آزادی ملنا نصیب ہوئی۔ یہ آزادی بھی کس نام کی تھی کہ ملک تو آزاد کردیئے مگر وہاں اپنی مرضی کے غلام حکمران مسلط کردیئے۔ پاکستان بھی ایسے ہی ملکوں میںشامل ہے۔ دوسری جنگ ِ عظیم کےبعد تیس پینتیس سال تو مسلمان دنیا میں غلامی کے بادل چھائے رہے، اس دوران اگرکسی مسلمان حکمران نے آزاد بننے کی کوشش کی تو اسے موت کی وادی میںمنتقل کردیا گیا۔ ساٹھ کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں خلیجی ملکوں سے ایسا تیل نکلا کہ مسلمان دولت مند ہونا شروع ہوگئے مگر چا ل چلنے والوںنے تیل کی تجارت کےلئے اپنی کرنسی کا انتخاب کیا۔ دنیا پیٹرو ڈالر کی ہو کے رہ گئی۔غلام ملکوں میں سے کچھ لیڈروں نے آزادی کی آواز بلند کی تو انہیں غلام ملکوں کی مشینری نے چلنے نہ دیا بلکہ انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس میں اور بھی نام ہیں مگر بھٹو اور شاہ فیصل کا تو سب کو یاد ہے۔ 1979میں ایران پہلا ملک ہے جو امریکی غلامی سے نکلا۔ اسے جنگوں میں دھکیل دیا گیا، اس پر تجارتی پابندیاں لگائی گئیں مگر ایران پھر بھی کھڑا رہا۔ کئی اسلامی ملکوں کے سربراہوں نے پچھلے تیس سالوں میں آزادی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی مگر پھر ان کے ملکوں کو تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ بدقسمتی سے اس تباہی کے پیچھے بھی مسلمان ملکوں کا کردارشامل تھا۔ آج مسلمان ملکوں کی اکثریت میں خون ریزی ہے، بدامنی ہے، بدحالی ہے، جہالت کا راج ہے، رسوائیوں کی مسافت ہے، دہشت گردی مسلمان ملکوں میں کروائی جارہی ہے، اس دہشت گردی سے نہ صرف مسلمانوں کی جانیں ضائع ہو رہی ہیں بلکہ ان کی عمارتیں ، ان کی فصیلیں، ان کے وسائل تباہ وبرباد ہورہے ہیں۔ اس گھنائونے کھیل میں بھی ایک مسلمان ملک کا ہاتھ ہے۔ وہ ملک امریکی و صہیونی غلامی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ یہ بھی بدقسمتی ہے کہ اکثر مسلمان ملکوں میں بادشاہتیں ہیں۔ ان بادشاہتوں پرمغربی دنیا اس لئے خاموش ہے کہ یہ بادشاہ اپنی دولت سے مغرب کو چار چاند لگاتے ہیں۔ مسلمان بادشاہوں اور ان کی اولادوں کی جہالت کا کیا کہنا کہ وہ سونے کی گاڑیاں تیار کروا لیتے ہیں، ٹوٹیاں تیار کروا لیتے ہیں مگراپنے ہاں کوئی ڈھنگ کی یونیورسٹی، کوئی ڈھنگ کا اسپتال، کوئی ڈھنگ کا سائنسی ادارہ نہیں بناتے۔ بین الاقوامی طور پر دیکھا جائے تو میڈیا کی دنیا میں بھی مسلمان بہت پیچھے ہی نہیں نہ ہونے کےبرابر ہیں۔ آج کی میڈیا وار میں میڈیا کے زور پر جنگوں اور ملکوں کے نقشے بدل دیئے جاتے ہیں۔ کھانے پینے پرزور رکھنے والے مسلمان حکمرانوں کی حالت یہ ہے کہ دنیا کے بڑے معاشی اداروں اور بنکوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے مسلم دنیا کا کہا جاسکے۔ ایک بی سی سی آئی بنا تھا، آغا حسن عابدی نے اس کے لئے لاجواب محنت کی تھی، اسے بھی سازش کا سامنا کرنا پڑا، سازشوں کے تحت ختم ہونا پڑا۔ مسلمان دنیا تو کوئی فوڈ چین بھی متعارف نہیں کرواسکی۔ کہاں کہاں رونا رویا جائے۔ ہرشعبے میں یہی حال ہے۔ مسلمان حکمرانوں نےاسلامی دنیا کی یہ حالت کر رکھی ہے کہ آپ کو اکثر مسلمان حکمران امیرترین نظرآئیں گے جبکہ عوام غربت کی چکی میں پس رہے ہوں گے۔ مسلمان حکمرانوں کی اکثریت کے گلے میں غلامی کا طوق نظر آئے گا۔ یہ حکمران انتہائی عیاش، جھوٹے، فریبی اورمکا ر نظر آئیں گے۔ اپنے ملکوں کو لوٹنا ان کا شیوہ ہے، بدکرداری ان کاچلن ہے، مسلمان حکمرانوں نےکردار کے ہاتھوں مار کھائی ہوئی ہے۔ یہ ہوتے کیا ہیں؟ کہتے کیا ہیں؟ اس کے لئے دو مثالیں پیش کر رہا ہوں پھر مسلمانوں کے انفرادی کردار پر بات کروں گا۔
چند سال پہلے پاکستان کے ایک سابق وفاقی وزیر اور ایک حالیہ بیمار وزیر دوبئی جانے کےلئے طیارے میں اتفاقاً ہم سفر بن گئے۔ خوب گپ شپ رہی۔ اس دوران بیمار وزیر یعنی اسحاق ڈار، سابق وفاقی وزیر اور منجھے ہوئے سیاستدان مخدوم فیصل صالح حیات سے کہنے لگے کہ ’’میرا دبئی میں شاندار کاروبار ہے۔ آپ ہمارے گھر لازمی تشریف لائیں، کھانا ہمارے ساتھ کھائیں۔‘‘ جھنگ کے سیدزادے نے دعوت قبول کرلی۔ اس کھانے کی میز پر اسحاق ڈار، ان کے صاحبزادے اور بہو (میاں نواز شریف کی بیٹی) بھی موجود تھے۔ اسحاق ڈار کے شاندار اور مہنگے گھر میں مخدوم فیصل صالح حیات پوچھنے لگے کہ ’’یہ جو آپ کے ہر ٹاور پر لکھا ہوا ہے "HDS" ایچ ڈی ایس، یہ کیا ہے؟ اس کا کیا مطلب ہے؟‘‘ اس پر پاکستان کو قرضوں تلے ڈبونے والے اسحاق ڈار بولے ’’اس کا مطلب ہے حضور داتا صاحب‘‘ مخدوم فیصل صالح حیات نے دو لمحوں کے لئے سوچا کہ یہ اسحاق ڈار کا گھر ہے۔ مجھے یہ بات کہنی چاہئے یا نہیں۔ پھر اندر سے آواز آئی نہیں جو سچ ہے منہ پر کہہ دینا چاہئے۔ دو لمحوں کے بعد فیصل صالح حیات نے کہا ’’ڈار صاحب! اتنے ٹاورز، اتنا کچھ حلال سے نہیں بنتاآپ نے کیسے بنا لیا۔‘‘ یہ واقعہ لکھنے کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں، صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ مسلمان حکمرانوں کے خاندانوں کے ہاں حلال حرام کی کوئی تمیز نہیں۔
اب دوسرا واقعہ سن لیجئے۔ اسلام آباد میں اہل قلم کانفرنس کے مندوبین کو ڈاکٹر انعام الحق جاویدنے عشائیہ دے رکھا تھا۔ مجھے کھانے سے اٹھا کر میرے محترم عطا الحق قاسمی ایک کونے پر لے گئے اور کہنے لگے کہ ’’میں گورنر پنجاب بن رہا ہوں۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’نہیں۔ آپ کو پہلے بھی انہوں نے کہا تھا مگر پھر چوہدری سرور کو گورنر بنا دیا۔ آپ کے بہت سے اہل قلم ساتھیوں نے لکھا بھی تھا۔ ‘‘ میری اس عرضداشت پر قاسمی صاحب بولے ’’نہیں۔ اس مرتبہ مجھے نواز شریف نے خود کہا ہے۔‘‘ میں نے پھر سے عرض کیا کہ ’’نہیں قاسمی صاحب! ہمارے حکمران طبقے کو جھوٹ بولنے کی عادت ہے۔
وہ آپ کو گورنر نہیں بنا رہے بلکہ جنوبی پنجاب سے ایک ایسی شخصیت کو گورنر بنا رہے ہیں جس کی اپنی زیادہ حیثیت نہ ہو۔‘‘ یہ واقعہ اس بات کی ترجمانی کررہا ہے کہ ہمارے حکمران سادہ اور معصوم قلم کاروں کے ساتھ کس طرح جھوٹ بولتے ہیں۔
اب آجایئے مسلمانوں کے انفرادی کردار کی طرف جسے درست کئے بغیر مسلمان پستی سے نہیں نکل سکتے۔ اگر مسلمانوں نے 2018میں ترقی کا سفر شروع کرنا ہے تو پھر انہیں انفرادی طور پر اپنے کردار کی بلندی پر توجہ دینا ہوگی۔ انہیں جھوٹ، دھوکہ، ملاوٹ، ناانصافی، چکربازی جیسے کام چھوڑنا ہوں گے۔ مسلمانوں کواپنے اوپر توجہ دینا ہوگی۔ پتا نہیں مسلمان ملکوں میں راتوں کو جاگنے کارواج کہاں سے آگیا ہے حالانکہ مغربی ملکو ںسمیت چین میں لوگ جلدی سوتے اور جلدی بیدار ہوتے ہیں۔ اصل میں یہ کام مسلمانوں کا تھا مگر مسلمان یہ طرز ِ زندگی بھول چکے ہیں حالانکہ مسلمانوں کے نبی حضرت محمدﷺ کے واضح احکامات میں جلدی سونے اور جلدی اٹھنے میں حکمت ہے۔ مگر اب مسلمان ملکوں میں لوگ دیرسےاٹھتے ہیں جس کا ان کی صحت پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے۔ اس تمام صورتحال میں مسلمانوں کو اپنا کردار بدلنا ہوگا۔ انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہئےکہ ان کا مذہب اعلیٰ کردار ہی کے باعث پھیلا تھا۔ مسلمانوں کو اتحاد کا سبق یاد رکھنا چاہئے۔ فرحت زاہد کا شعر یاد آگیا ہے کہ؎
عشق روایت بن کر میرے ساتھ چلا
تصویروں کے آنسو دیکھے میں نے بھی.

تازہ ترین