• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاست کے روپ بہروپ بڑے نرالے ہیں، گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہمارے سیاست دان مفادات کی جنگ میں کیا کیا پینترے بدلتے ہیں الامان والحفیظ۔ برسی بے نظیر بھٹو شہید کی ہو، دکھ بلاول سے زیادہ ن لیگ والوں کو ہو،اسے قیامت کی نشانی ہی کہا جاسکتا ہے اور کچھ نہیں۔ واہ ری قسمت ہمارے نصیب میںکیسے کیسے بہروپئے لکھ دیئے، کیسے کیسے دغا باز میدانِ سیاست میں آگئے یہ وہی دغا بازہیں جو سازشوںکی آگ میں پہلے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم جیسے سرمایۂ افتخار سیاست دان کوپھانسی گھاٹ تک لے جاتے ہیں پھر ایک آمر ضیاء الحق کی گودمیں پرورش پاتے اور آج بے نظیر بھٹو شہید کی برسی پر نیا بہروپ دھارے مرثیے پڑھتے نظر آتے ہیں۔ عظیم لیڈر بے نظیر بھٹو شہید کی برسی کے موقع پر (ن) لیگ کے رہنمائوں کا ’’نوحہ‘‘ یقیناً اخلاقی لحاظ سے قابل تحسین ہے لیکن دلوں کے بھید تو اللہ ہی جانتاہے۔ کیا کیا رنگ دکھائے گی یہ بدقسمت سیاست۔ نووارد سیاست دان کے ڈائیلاگ بغل میں چھری منہ میں رام رام کے مصداق ہیں، یہاں تو نظریۂ ضرورت ہی نظریۂ جمہوریت بنتا جارہا ہے۔(ن) لیگ والے بلاول کوپیاری شہید ماں کاپُرسا دے کر ہتھ ہولا رکھنے کی التجاکررہے ہیں ۔یقیناً پاکستان کو موجودہ سیاسی، سنگین علاقائی صورت حال اور امریکی دبائو کے تناظر میں کچھ بین الاقوامی دوستوں کی ضرورت ہے مگر اس کٹھن مرحلے میںقومی سلامتی کے اداروں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، انصاف کے اعلیٰ ترین ایوان اب شاید ایسے کسی پروانے ’’این آر او‘‘ کو قبول بھی نہ کریں۔ حالات بتا رہے ہیں کہ اس بار ایسے کسی این آر او کی کوشش پر عوامی تماشا ضرور لگے گا۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ آئندہ عام انتخابات (اگر ہوئے تو) میں (ن) لیگ کی سیاسی کایاہی پلٹ جائے، یہی صورتِ حال (ن) لیگ کی سب سے بڑی حریف جماعت تحریک انصاف کی بھی ہے۔ ہمارے بڑے خان صاحب اقتدارکی خاطر مرے جارہے ہیں، انہیں اپنی سیاسی قوت پر بھروسہ نہیں۔ بے یقینی، بے صبری کے مارے بڑے خان صاحب، کینیڈا والے ڈاکٹر صاحب کی موجودگی میں آصف زرداری ، سب پر بھاری، کے ساتھ بیٹھنے کو بھی تیارتھے۔ آپ ہماری سیاسی یتیمی کا اندازہ تو لگائیے کہ ایک دوسرے کے کاندھے کا سہارا لے کر اقتدارکی سیڑھی چڑھنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر کسی کو کیا معلوم کہ یہ سیاست نہیں سانپ اور سیڑھی کا کھیل ہے۔ منزل تک پہنچتے پہنچتے نہ جانے کون کون سا کھلاڑی ڈسا جائے گا۔ صبر و تحمل کے اس کھیل میں بڑے بڑے بے صبرے راہ میں ہی رہ جائیں گے۔ کچھ بے صبرے کھلاڑی انتخابات کی منزل کو پانے سے قبل ہی ساری بساط ہی لپیٹ دینا چاہتے ہیں۔ ماضی میں غیر سیاسی بیساکھیوں کا سہارالے کراقتدار میں آنے والوں کے انجام سے بھی تو کوئی سبق سیکھے۔ کل کے شاہ آج سیاسی پناہ کے لئے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، زیادہ دُور نہ جائیے ماضی قریب ہی کو دیکھ لیجئے جب (ق) لیگ کو پیپلز پارٹی کی گود میں پناہ لینا پڑی اور صرف پرویز الٰہی کو نائب وزیر اعظم کا لولی پاپ دے کر (ق) لیگ کا سیاسی انجام لکھ دیا گیا۔ یہ وہی (ق) لیگ تھی جو اسٹیبلشمنٹ کی پیاری اور اس کی بیساکھیوں کے سہارے (ن) لیگ کے متبادل کے طور پرسامنے آئی۔ مگر ایک غلط سیاسی فیصلے نے پنجاب میں (ق) لیگ اورپیپلزپارٹی دونوں کا نام و نشان مٹا دیا۔ آج ایک بار پھر کچھ سیاسی جماعتیں بشمول تحریک انصاف سیاسی خودکشی کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ انہیں اپنی عوامی مقبولیت پر شاید اس لئے بھی بھروسہ نہیں کہ ان کی اٹھان کسی سیاسی تربیت یا جدوجہد کا نتیجہ نہیں، حالات کی پیداوار ہے اور جو مینڈیٹ انہیں ملا تھا، وہ اس پر پورا نہیں اتر سکیںگے۔ آج ایک دوسرے کا سہارا لے کر ایک بڑے سیاسی پہلوان (ن) لیگ کو گرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے پس منظرمیں جاری سیاسی گٹھ جوڑ یقیناً تمام سیاسی جماعتوں کا حق ہے اور اس بڑے سانحہ کے ذمہ داروں کو انصاف و قانون کے کٹہرے میں لانا بھی اشد ضروری ہے مگر لاشوں پر سیاست اب کیوں؟ آج سانحہ ماڈل ٹائون کے تین سال بعد جو ’’غائبانہ نمازجنازہ‘‘ پڑھنے کی کوشش کی جارہی ہے سمجھ سے بالاتر ہے اور یہی سوال کینیڈا والے ڈاکٹر صاحب سے ہے جن کی سوچ میں ایک اور دھرنا ہے جسے واقفان حال حتمی قرار دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ اے پی سی ماضی میں کیوں نہیں بلائی گئی اور تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اس سے قبل سانحہ ماڈل ٹائون کے شہداء کے ورثاء کو انصاف دلانے کے لئے اکٹھے کیوں نہ ہوئے۔ امکان یہی ہے کہ اگر 2018 ء میں انتخابات ہوئے تو یہ سارے سیاسی یتیم بشمول (ن) لیگ کی قیادت لاشوں، مظلومیت کے نام پر ایک بار پھر عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کریں گے۔ کوئی سانحہ ماڈل ٹائون کے نام پر سیاسی اتحاد کرے گا تو کوئی شہید بی بی کے نام پر ووٹ مانگے گا۔ شریف برادران کا المیہ یہ ہے کہ ان کے گھرمیں ہی حکومت اور اپوزیشن ساتھ ساتھ چل رہے ہیں، (ن) لیگ کی انتخابی مہم اس حوالے سے کسی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی۔ ایک طرف بڑے میاں صاحب عدلیہ بحالی تحریک کے نام پر اداروں کو رگید رہے ہوں گے تو دوسری طرف چھوٹے میاں صاحب ترقیاتی منصوبوں کے نام پر ووٹ مانگ رہے ہوں گے۔ اگر یہ انتخابی مہم مریم نوازاور حمزہ شہباز کو چلانی پڑی تو صورتِ حال اوربھی زیادہ دلچسپ ہوگی اور سوال بڑا اہم ہوگا کہ مجھے کیوں نکالا؟ اور کس نے نکالا؟ اور اگر اس کا جواب خواجہ سعد رفیق کو دینا پڑے تو یقیناً جواب یہی آئے گا ٹھیک نکالا۔ اس بارے ’’پنڈی والوں‘‘ کی رائے سب کے سامنے ہے، کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، بڑے میاں صاحب کو بھی اطمینان رکھنا چاہئے ۔ پنجاب کی سطح پر ممکنہ آئندہ عام انتخابات میں مذہبی ووٹ بینک کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا یہ وہ عنصر ہے جو شاید وسیع پیمانے پر کامیابی تو حاصل نہ کرسکے مگر بڑی بڑی سیاسی جماعتوں خصوصاً (ن) لیگ کو شدید نقصان ضرور پہنچائے گا خصوصاً پیر حمید الدین سیالوی جن کے بارے میں راناصاحب فرماتے ہیں ’’پیر صاحب سیالوی شریف جو لجپال، مشکل کشا مشہور ہیں‘‘ میرے استعفے کی وجہ سے مشکل کا شکار ہیں، کسی صورت پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ پیر صاحب سیالوی شریف اپنے مرشد پیر صاحب تونسہ شریف کی اشیر بادسے پنجاب کے تمام گدی نشینوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے مسلم لیگ (ن) کے خلاف ایک نیا مذہبی محاذ کھڑا کرسکتے ہیں۔ آہ!2018 ء کا سورج طلوع ہوگیا مگر روشنی کہیں نظر نہیں آتی۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین صرف کھوکھلے نعروں پر ہی اکتفا کریں گے۔ عام انتخابات سر پر آگئے مگر کسی سیاسی جماعت نے اب تک عوامی فلاح و بہبود، قومی سلامتی ، داخلی و خارجی چیلنجوں، نوجوانوں کے مستقبل ، خواتین کے حقوق، بچوں کے تحفظ، کسانوں، کاشت کاروںاور مزدوروں کے بارے ابھی تک اپنا کوئی منشور پیش نہیں کیا۔ یعنی 2018ء بھی 2017ء جیسا مایوس کن ہوگا۔ ہمارے قائدین کے پاس ملک و قوم کے لئے کچھ نہیں صرف مفادات کی جنگ ہے، اندیشہ ہے کہ کیچڑ اچھالو مہم 2018 ء میں بھی جاری رہے گی۔ جمہوریت سے آمریت کا دَور زیر بحث رہے گا۔ دیکھئے اقتدار کس کو ملتا ہے؟ یا این آر او زدہ نظام ہی ہمارے نصیب میں لکھا ہے۔

تازہ ترین