• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے قومی حالات و واقعات تاریخی منجدھار میں جا اترے ہیں۔ شہباز شریف متوقع وزیراعظم پاکستان منتخب ہوئے ہیں یا نہیں؟ 7؍ جنوری 2018کے بعد سانحہ ماڈل ٹائون کے حوالے سے منعقدہ کل جماعتی کانفرنس کے مطالبے پر وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر قانون مستعفی ہوتے ہیں یا نہیں؟ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے نومبر 2017کے آخر سے لے کر دسمبر 2017تک ’’کوئی نیا این آر او نہیں ہونے دیا جائے گا‘‘ کے موقف کا نہایت شدومد سے اظہار شروع کر دیا تھا، کیا اس کا مطلب انہیں اپنے ذرائع کے باعث شریف برادران کی سعودی عرب کی وساطت سے پاکستان کی مقتدرہ Establishmentسے کسی ڈیل کا خطرہ؟ کیا ’’ن‘‘ لیگ کی بڑی مخالف سیاسی جماعتیں وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر قانون کے استعفے نہ آنے کی شکل میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا آئینی حق استعمال کریں گی؟ یہ سوالات اس وقت قومی سیاست کے افق پر چھائے ہوئے ہیں، ان کا جواب انہی دنوں سامنے آنے کے امکانات تھے، یہ سب کچھ منظر نامے کی اسکرین سے ہٹ گیا یا اس وقت ہٹ گیا جب امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستان اور دہشت گردی کے تناظر میں حد درجہ خبردار کرنے والی ٹویٹ کی بنا پر پاکستان سمیت عالمی برادری کے حلقوں میں بھی ایک زلزلے کی سی کیفیت پیدا کر دی۔
امریکی صدر نے کہا 15سال میں 86کھرب روپے دے کر بیوقوفی کی، اسلام آباد ہمارے رہنمائوں کو بیوقوف سمجھتا اور دہشت گردی کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے۔ افغانستان میں معمولی مدد ملتی ہے لیکن اب ایسا نہیں چلے گا۔
پاکستانی وزارت خارجہ نے اولین ردعمل کے طور پر امریکی سفیر ڈیوڈ ہیلی کو دفتر خارجہ طلب کر کے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا ایک احتجاجی مراسلہ بھی ان کے ہاتھ میں تھما دیا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف سے لے کر شیخ رشید نے ٹرمپ کی اس ٹویٹ کے پس منظر میں جو کہا، اس سے ہر فرد کی ذہنی سطح کھل کر سامنے آ گئی، جوابی چیلنجوں کے لئے عوام میں مقبول عام مذہبی اور غیر مذہبی نعرہ بازیاں شروع ہو گئیں، جب یہ سب لوگ امریکہ کو چیلنج کرنے کی اس قومی غیرت کے گھوڑوں پر سوار ہو کر ساتویں آسمان پر تھگی لگانے میں مصروف تھے تب معلوم ہوا غیرت مندوں نے ٹرمپ ٹویٹ آنے کے بعد ایک لحظہ کی تاخیر کئے بغیر ’’حافظ سعید کی تنظیموں جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فائونڈیشن کو سرکاری تحویل میں لینے کا فیصلہ کر لیا۔ وفاقی حکومت نے عطیات اورچندہ دینے پر مکمل پابندی عائد کر دی، سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کا نوٹیفیکیشن جاری، حکومت پاکستان پابندی پر عمل درآمد نہ کرنے والوں پر ایک کروڑ روپے جرمانہ عائد کر چکی ہے۔ پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا کے معتبر تجزیہ کاروں نے صدر ٹرمپ کا ٹویٹ آتے ہی اندرون پاکستان، پشاور اور مریدکے کا نام بھی لیا ، امریکی ڈرون حملوں کی پیش گوئی کر دی۔
چنانچہ پاکستان کی قومی سیاست میں پاکستان پیپلز پارٹی کے کردار سے لے کر دیگر مراحل تک درپیش نشیب و فراز پر جو مجوزہ یا متوقع کہانیاں سنائی یا گھڑی جا رہی تھیں کسی کے لئے بھی وہ Top Priorityنہیں رہیں، نقشہ بے پناہ تہلکہ خیز اس وقت ہو جاتا ہے جب دو تین روز قبل ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے میڈیا سے گفتگو کے موقع پر کہا تھا:’’ہمیں دھمکیاں مل رہی ہیں ہمیں ایک قومی بیانئے پر متحد ہونا ہو گا‘‘ اور جب دو تین ماہ قبل سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے الفاظ ذہن میں آتے ہیں بقول چوہدری صاحب کے ’’پاکستان جن مہیب خطرات میں گھرا ہوا ہے ان کا ملک کے صرف چار افراد کو پتا ہے، وزیراعظم پاکستان (اس وقت ابھی جناب نواز شریف ہی وزیر اعظم تھے) چیف آف آرمی اسٹاف، ڈی جی آئی ایس آئی اور وفاقی وزیر داخلہ گویا بین الاقوامی فورم پر پاکستان، ٹارگٹ کیا جا چکا تھا، کیوں؟ اس سلسلے میں ہمیں اپنے قومی ماضی کی بنیاد پر ان اسباب کا جائزہ لینا ہو گا جس کے نتیجے میں چوہدری نثار کی وارننگ ٹرمپ کے ٹویٹ کی شکل میں مجسم ہو چکی۔
پاکستان میں موجود دہشت گردی یا غیر دہشت گردی کے علمبردار ’’نان اسٹیٹ ایکٹروں‘‘ کی جڑیں تلاش کرنے کے لئے 14؍ اگست 1947کو معرض وجود میں آنے والے پاکستان کا تقریباً 69یا 70برس کا تاریخی آئینہ دیکھنا اور آج کی تیسری یا چوتھی نسل کو اس سے آگاہ کرنا ضروری ہے، تبھی جا کر وہ اپنے ملک کے آسمان پر چھائی ہوئی اس سرخ آندھی کے پس منظر سے آگاہ ہو سکتے ہیں، تبھی جا کر انہیں یہ پتا چل سکتا ہے کہ اول روز سے ہی پاکستان کا اصل روگ سیاسی نہیں مذہبی تھا اور مذہبی ہے جسے بعض طالع آزما جرنیلوں اور دیگر غیر مرئی قوتوں نے جس قدر مہمیز دی جا سکتی تھی، وہ دیتے رہے، براہ راست یا بالواسطہ جمہوری تسلسل کی بساط لپیٹی جاتی رہی جس کے باعث معتدل سیاسی و سماجی معاشرہ تشکیل نہ پا سکا جس میں کسی بھی قسم کی شدت پسندی، نظریاتی تقسیم اور جنونی عقائد کے پنپنے یا ایسے رویوں کا قد بڑھنے کے ہرگز کوئی آثار پیدا نہیں ہو سکتے۔ جمہوری تسلسل کی پیدا کردہ میانہ روی پر استوار ایسے سیاسی نظام اور جمہوری سماج میں اس قسم کے تمام گروہوں اور ذہنی کیفیات کو نارمل ہونا پڑتا ہے۔ زندگی اتنی رواں دواں ہو جاتی ہے جیسے ندی کا شفاف پانی ہر قسم کے پتھروں اور سنگریزوں کو اپنے بہائو کا جزو بنا لیتا ہے۔
ہمارے اندر اپنے ملک کے ماضی کی تاریخ کھنگالنے کا حوصلہ ہونا چاہئے۔ ہمیں اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا ہو گا ورنہ ہم ڈوب جائیں گے، ہمالہ واقعی رو دے گا جس کی ہر چوٹی ہر ڈھلوان اور ہر وادی آنکھ بن جائے گی اور ہر آنکھ سے آنسو ٹپکیں گے۔ لکھا گیا تھا ’’بات لیاقت علی خان کے دورئہ امریکہ سے شروع ہو، فوجی آمروں اور دیگر خفیہ یا ظاہری متعلقہ کرداروں کو ضمیر کے فیصلوں کی عدالتوں کے کٹہروں میں کھڑا کیا جائے، ابن الوقت اور یاوہ گو سیاستدانوں کا محاسبہ ہو، اپنی جہالت پر مبنی خود پرستی کی ’’ٹی بی‘‘ میں پاکستانی عوام خصوصاً پنجابی قومیت کی 85فیصد اکثریت اپنے گریبانوں میں جھانکے، پوری دنیا کے سامنے پاکستانی عوام کی عدالت کی کارروائی کو ریکارڈ پر لیا جائے، خاکی اور غیر خاکی خفیہ ایجنسیاں بھی جوابات کے لئے سوالات کے جنگلوں میں کھڑی ہوں پاکستانی تاریخ کے ماضی کی عدالت بے ساختہ آپ سے چند سوالات پوچھنا شروع کر دے گی۔
(1) وہ کون سا ملک ہے جس کا قومی پاسپورٹ پوری دنیا میں سب سے زیادہ مشکوک، متنازع اور مجرمانہ سمجھا جاتا ہے۔ کیا اس ملک کے قومی پاسپورٹ کی یہ ذلت خیز تاریخ 1950کی دہائی سے شروع ہوئی یا 2018جنوری میں اس بےعزتی کا جنم ہوا تھا؟
-oعالم اسلام کے 58یا 59ممالک میں سے وہ کون سا ملک ہے جس کے باشندوں نے اپنے قیام سے لے کر آج تک باہم ایک دوسرے کو گمراہ قرار دے کر ہزار ہا انسانوں کا خون بہایا اور اس کے باشندوں کی پیشانیوں پر شکن تک نہیں آئی؟ شرمندگی اور افسوس کا تو ذکر ہی کیا؟
-oوہ کون سا ملک ہے جس کے لاکھوں شہری ان ترقی یافتہ ممالک میں مستقل شہریت کے بے پناہ فوائد سے ناقابل تصور حد تک زندگی انجوائے کر رہے ہیں اور کسی بھی قسم کی رتی بھر قربانی دے کر ان ممالک کو ’’پھتح‘‘ (فتح) بھی کرنا چاہتے ہیں؟
سوال ٹرمپ کی ٹویٹ کا نہیں وقت کی گھات کا یعنی قدرت کے قانون کی کارفرمائی ہے، جیسا کہ مکافات عمل کا اصول طے ہو چکا، اب ہمیں ’’نعرہ زنی‘‘ کے گناہ گارانہ طرز عمل کے بجائے غور و فکر کرنا ہو گا، بصورت دیگر ’’وقت ہماری گھات میں ہے!‘‘

تازہ ترین