• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1940کے پری کمپیوٹر دور میں امریکی ماہر سماجیات و ریاضیات پال لیزر فیلڈ نے کولمبیا یونیورسٹی میں ووٹرز کی نفسیات پر اسٹڈی مکمل کی جس کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ کسی بھی ذریعے سے رائے عامہ کو متاثر کرنے کیلئے کیا جانے والا منفی اور جھوٹا پروپیگنڈا مکمل طور پر کبھی بھی موثر نہیں ہوپاتا۔ عوام اس منفی پروپیگنڈے کی بھرپور مزاحمت کرتے ہیں اور انتخابات میں نام نہاد برجوں کو الٹ دیتے ہیں۔ آج پروپیگنڈا ماسٹرز جرمن نازیوں کی مانند مخصوص میڈیا ہائوسز کے ذریعہ مادر وطن کے سب سے زیادہ چاہے جانے والے قومی لیڈر میاں محمد نوازشریف اور دیگر سیاستدانوں کی شخصیت کوبلا امتیاز بگاڑنے اور انھیں کرپٹ قرار دینے میں مصروف عمل ہیں۔ عرض ہے کہ پروپیگنڈا ماسٹرز جو مرضی کرلیں رائے عامہ کو توڑ مروڑ نہیں سکتے۔ مادر وطن کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کیلئے میاں نوازشریف کی جدوجہد ایک دن یا ایک ٹرم کی نہیں بلکہ تین دہائیوں پر مشتمل محنت شاقہ کی کہانی ہے۔ میاں نوازشریف نے وطن کو اس جگہ لاکھڑا کیا ہے جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ کچھ لوگوں کو میرا یہ دعویٰ یکطرفہ لگے گا ان کیلئے جواب یہ ہے کہ وہ صرف سندھ اورخیبر پختونخوا پر نظر ڈالیں تو میرے دعوے کی سچائی کے بارے میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائیگا۔ امریکہ جب ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوا تھا تو اس نے بھی ملک بھر میں سڑکوں، پلوں، انڈر پاسز اور ریل گاڑیوں کا جال بچھا دیا تھا۔ بالکل اسی طرح تمام تر تنقید کے باوجود میاں نوازشریف اپنے ہر دور حکومت میں ایک ایک کر کے میگا پروجیکٹس کھڑے کرتے رہے۔ ناقدین یہ کہتے رہے کہ ییلو کیب ٹیکسی اور روزگار منصوبے پٹ گئے سوال یہ ہے کہ ٹیکسیاں اور قرضے عوام کو ملے لیکن ییلو کیب اور قرضوں کی قسطیں کس نے ادا نہ کیں؟ عوام کو سہولت دیکر حکومت نے اپنا فرض ادا کیا لیکن اسے بدنامی ملی۔ پرویز الٰہی سمیت اپوزیشن کے ہر رہنما نے میٹرو بس کو جنگلہ بس قرار دیا لیکن عوام نے اسے خوش آئند قرار دیا۔ سندھ اور کے پی حکومتیں اپنے عوام کو ایک بھی جدید ذریعہ آمدورفت نہ دے سکیں اور تو اور سندھ حکومت کراچی کے چہرے پر لگا کچرا کنڈی کا داغ بھی صاف نہ کرسکی۔ لاہور اورنج لائن ٹرین عمران خان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے سوا سال تاخیر کا شکار ہوگئی اضافی اخراجات بھی کئی ارب ہوں گے۔ عوام جانتے ہیں کہ ایک ارب درخت لگانے کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے عمران خان نے دھرنے اور اپنے جلسوں کے موقع پر کس طرح عوامی مقامات کو تباہ و برباد کیا۔ میاں نوازشریف نے موجودہ دور حکومت میں جتنا کام کیا اس کی ماضی میں ایک بھی مثال نہیں ملتی۔ تمام ماہرین اس امر پر متفق ہیں کہ دہشتگردی کا خاتمہ سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے بغیر ممکن نہیں۔ پچھلے پانچ سال کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں کوئی دن ایسا نہیں جاتا تھا کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ نہ ہوئی ہو۔ تاجروں کو بھتے کی پرچیاں ملا کرتی تھیں۔ ایک کال پر پورا شہر بند ہو جایا کرتا تھا۔ صنعت کار، بزنس مین اور تاجر دوسرے ممالک میں منتقل ہورہے تھے۔ نواز شریف نے ہی کراچی میں امن کو یقینی بنایا۔ تاہم عمران خان کی ایک ہی راگنی ہے کہ یہ رینجرز اور فوج نے کیا۔ وہ بھول گئے کہ رینجرز کو کراچی میں لانے والے نواز شریف ہی تھے۔ وطن عزیز میں خدا کے فضل و کرم سے دہشت گردی کا تقریباً خاتمہ ہوچکا ہے۔ جس کا سارا کریڈٹ نوازشریف کو جاتا ہے کیونکہ انھوں نے نہ صرف نیشنل ایکشن پلان بنایا بلکہ فوجی عدالتیں بھی تشکیل دیں اور فنڈز بھی ریلیز کئے۔ بیرونی قرضوں پر چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے والی اپوزیشن سے سوال ہے کہ حکومتیں تو ٹیکسوں سے چلتی ہیں لیکن جب حکومت ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے پالیسیاں بناتی ہے تو یہ اپنے دھرنوں میں ٹیکس اور بل ادا نہ کرنے کیلئے عوام کو کیوں اکساتے ہیں؟ عمران خان، شاہ محمود قریشی اور خورشید شاہ سے سوال ہے کہ انھوں نے اپنے صوبوں میں عوامی فلاح کیلئے کتنے منصوبے بنائے؟ عمران خان نے تو گزشتہ چار سالوں میں وفاقی حکومت کو دھرنوں میں ہی مصروف کئے رکھا اس کے باوجود پنجاب میں میٹرو بنی، سیف سٹی پروجیکٹ بنا، پنجاب کے تمام اداروں کو آن لائن کردیا گیا، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ایک خواب لگتا تھا لیکن اسکی تکمیل کیلئے آٹھ ہزار سے زائد میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کردی۔ ایل این جی کی بدولت گیس کی لوڈشیڈنگ ختم کی۔ اسٹاک ایکسچینج کو ڈیڑھ سو فیصد زیادہ یعنی پچاس ہزار انڈیکس پر پہنچانے کا مطلب ہے کہ سرمایہ کار حکومت پر اعتماد کررہے ہیں۔ ہرذی شعور اس حقیقت کو مان رہا ہے کہ اس کا کریڈٹ بھی نوازشریف کو جاتا ہے۔ عمران خان کی سیاسی ناپختگی کا اندازہ اس امر سے لگالیں کہ وہ گزشتہ انتخابات میں پنجاب اور لاہور سے فتح پر نظریں گاڑے بیٹھے تھے جبکہ حکومت کے پی کے میں ملی۔ سی پیک منصوبہ اس لئے میاں نواز دور میں شروع ہوا کہ چینی حکومت کو یقین تھا کہ صرف وہی اس منصوبے کو کامیابی سے مکمل کروانے کا ہنر جانتے ہیں ورنہ پیپلز پارٹی دور حکومت میں کیوں شروع نہ ہوا۔ سی پیک منصوبے کو بھی چند لوگ حکومت کی مخالفت کے باعث مسلسل متنازع بنانے میں مصروف عمل ہیں۔ وہ یاد رکھیں اس جرم عظیم پر نہ خدا انھیں معاف کرے گا اور نہ ہی آئندہ انتخابات میں عوام انھیں ووٹ دیں گے۔ میاں شہبازشریف کی سعودی عرب روانگی پر شدید اعتراض کرنے والے عمران خان کو تو اس امر پر بھی پریشانی ہے کہ سعودی عرب اور ترکی سے میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف کے قریبی تعلقات کیوں ہیں؟ اس پر تو میں پنجابی میں صرف یہ کہوں گی ...سڑیا نہ کر...کم کریا کر!.

تازہ ترین