• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خفیہ ملاقاتیں بنکاک میں ہی ہوتی ہیں۔
وزیراعظم پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ اور وزیراعظم بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کی ملاقات گزشتہ ہفتے بنکاک میں ہوئی ہے۔ ملاقات کی تو تصدیق ہوئی ہے لیکن کیا بات چیت ہوئی کیا طے پایا یہ ابھی نہیں بتایا گیا۔ اس پس پردہ سفارت کاری سے کئی کئی برس بعد پردہ اٹھتا ہے۔
ایسی ہی ملاقاتیں آج سے 13 سال پہلے 2005 میں بھی شروع ہوئی تھیں۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا۔ اس وقت کے صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے بااختیار پرنسپل سیکریٹری طارق عزیز پاکستان کی طرف سے بھارت کی طرف سے پہلے جے این ڈکشٹ اور بعد میں جتندر لامبا نے اس سلسلے کو جاری رکھا۔
ان ملاقاتوں میں کیا زیر بحث آیا یہ خفیہ ہی رہتا۔ لیکن 21 اپریل 2009کو دہلی سے امریکی سفارت خانہ ایک تار کے ذریعے واشنگٹن کو اطلاع دی جاتی ہے کہ وزیراعظم بھارت من موہن سنگھ نے ہائوس فارن افیئرز کمیٹی کے چیئرمین ہارڈورڈ برمن کی قیادت میں آنے والے امریکی نمائندگان سے گفتگو میں اس امر کی تصدیق کی ہے کہ پاکستان اور بھارت خفیہ ملاقاتوں کے ذریعے 62 سالہ دیرینہ مسئلہ کشمیر کے حل کے قریب پہنچ گئے تھے۔ جس میں دہلی اور اسلام آباد میں آزاد تجارت اور لائن آف کنٹرول کے آر پار آزادانہ نقل و حرکت پر اتفاق ہوگیا تھا۔ من موہن سنگھ کا کہنا تھا کہ انہیں 2007ءکی پہلی سہ ماہی میں پاکستان جا کر اس معاہدہ پر دستخط کرنا تھے۔ لیکن بعد میں مشرف وکلا تحریک میں اُلجھ گئے۔‘‘
میں نے یہ چھوٹی سی خبر پڑھی تو میں انٹرنیٹ پر ڈھونڈنے لگا کہ کہیں اس معاہدے کی کوئی تفصیل ہو تو ان چار نکات کا غیر مصدقہ حوالہ ملا۔ (1) علاقے سے دونوں ملک اپنی فوجیں ہٹا دیں۔ (2) زیادہ سے زیادہ خود مختار۔ (3) لائن آف کنٹرول کو غیر فعال بنایا جائے۔ (4)علاقے کا انتظام مشترکہ طور پر سنبھالا جائے۔ مجھے یہ نکات برصغیر کی تاریخ میں بڑی پیشرفت محسوس ہورہے تھے۔ اس پر مزید معلومات کے حصول میں لگ گیا۔ اتفاق سے سابق صدر پرویز مشرف کراچی آئے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے ملاقات کا وقت مانگا۔ وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں کہ بات گھوڑے کے منہ سے سنی جائے۔ میں نے من موہن سنگھ کے الفاظ سابق صدر کو بتائے تو ان کا کہنا تھا کہ یقیناََ ایسا ہونے والا تھا۔ کوتاہی وزیراعظم من موہن سنگھ کی طرف سے ہوئی انہیں وعدے کے مطابق پاکستان آنا چاہیے تھا۔ سیاچن اور سرکریک پر دونوں ملکوں کے اختلافات ختم ہوچکے تھے۔
میں سابق صدر سے یہ جاننا چاہتا تھا کہ کشمیر کے مسئلے پر آپس میں کیا طے ہوا تھا۔ تو انہوں نے جو کچھ بتایا وہ ایک خواب اور انہونی لگتا تھا۔ لیکن دونوں متحارب ملکوں میں یہ طے ہوگیا تھا۔ دونوں طویل پس پردہ براہِ راست گفتگو کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ کشمیریوں کو آپس میں ملنے کا موقع دیا جائے۔ وہ آزادانہ اپنے کاغذات پر لائن آف کنٹرول پارکرکے ایک دوسرے سے ملیں۔ مقبوضہ کشمیر اور ہمارے درمیان جو راستے ہیں وہ سارے کھلنے چاہئیں۔ جن میں پانی۔ کارگل۔اسکردو۔ جموں۔ سچت گڑھ اور سیالکوٹ شامل ہیں۔ صرف مظفر آباد۔ سری نگر نہیں۔ کیونکہ یہ طویل بھی ہے اور دشوار ہے۔ جب ایسا ہونے لگے تو پھر دونوں طرف کی فوجیں بتدریج ہٹائی جائیں۔
سابق صدر بتا رہے تھے کہ اس سلسلے میں تمام کشمیری لیڈروں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ دہلی میں۔ نیو یارک میں۔ پاکستان میں۔ ان سب نے اتفاق کیا۔ سخت موقف رکھنے والے یاسین ملک نے بھی اتفاق کیا۔ بلال لون نے بھی۔ صرف علی گیلانی مخالفت کررہے تھے۔ یہ طے ہوا تھا کہ فوجیں ہٹانے کا تجربہ 15سال کے لیے ہوگا دونوں طرف کشمیریوں کے اپنے چیف جسٹس ہوں گے۔ اپنے چیف الیکشن کمشنر۔ سپریم کورٹ اپنی ہوگی۔ Self Govt کا تجربہ کیا جائے گا۔ اس کی نگرانی کے لیے ایک جوائنٹ میکانزم ہوگا۔ جس میں بھارت پاکستان اور کشمیری شامل ہوں گے۔
یہ بہت ہی مشکل۔ بلکہ ناممکن صورتِ حال محسوس ہوتی ہے۔ لیکن دونوں ملکوں کے سربراہ کافی طویل ملاقاتوں۔ اپنے رفقا سے مشوروں کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے۔ سابق صدر اس وقت آرمی چیف بھی تھے۔ اس لیے بھارت کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ پاکستان کی فوج بھی اس مفاہمت میں شریک ہے۔ بعد میں کوئی مخالفت نہیں ہوگی۔ لیکن یہ خواب خواب ہی رہا۔ حقیقت میں نہیں بدل سکا۔
حقیقت یہ ہے کہ دونوں ملک اپنے اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے ہیں۔ مگر بین الاقوامی طاقتیں بھارت کے دبائو میں آئی ہوئی ہیں۔ اس نے سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا سوانگ بھی رچا رکھا ہے۔ حالانکہ کشمیر پر اس کا غاصبانہ قبضہ۔ 7 لاکھ فوج کی مسلسل موجودگی۔ کشمیری حریت پسندوں پر اس کے مظالم اس نام نہاد جمہوریت کی یکسر نفی کرتے ہیں۔ مگر پاکستان کے رہنما اپنے اندرونی تنازعا ت طے نہیں کر پاتے۔ بھارت اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اب امریکی صدر ٹرمپ کی دیوانگی نے بھی خطے میں عدم توازن پیدا کردیا ہے۔ ہمارے آس پاس جو خلفشار برپا ہورہا ہے۔ اس وقت ہمیں ایک بہت ہی وسیع النظر۔ دور اندیش قیادت کی ضرورت بھی ہے۔ ملک میں استحکام کی بھی۔ یہ ضروری نہیں کہ کوئی ایک مسیحا یا ایک کرشمہ ساز لیڈر سامنے آئے۔ اجتماعی قیادت بھی ملک کو بحرانی صورتِ حال سے باہر نکالتی ہے۔ یہ اجتماعی قیادت پارلیمنٹ سے ملتی ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی سے میسر آتی ہے۔
تاریخ بار بار یہ کہہ رہی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل کیے بغیر پاکستان ترقی نہیں کرسکتا۔ بین الاقوامی طاقتیں بھی یہ سمجھتی ہیں کہ جنوبی ایشیا میں جب تک کشیدگی ہے۔ دنیا پرامن نہیں ہوسکتی۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم دنیا کی حمایت کیسے حاصل کرتے ہیں۔
میں نے بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہے۔ انہیں بھارت کے انتہائی کامیاب خفیہ افسروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بھارت سے علیحدگی چاہنے والی ریاستوں میں وہ پولیس سربراہ رہے ہیں۔ خفیہ کارروائیوں کے ماہر ہیں۔ پس پردہ مصالحتوں کا طویل تجربہ رکھتے ہیں ۔ سب سے اہم اور حساس پہلو یہ کہ وہ بھارتی وزیراعظم کی ناک کے بال ہیں۔ بلکہ بعض رپورٹیں تو یہ کہتی ہیں کہ مودی کو وزارتِ عظمیٰ دلانے کی حکمت عملی ڈوول نے ہی ترتیب دی تھی۔ بھارت کی طرف سے قومی سلامتی کے مشیر کے عہدے پر زیادہ تر سویلین ہی رہے ہیں۔ ہمارے ہاں فوجی حکمران کے دور میں سویلین طارق عزیز تھے۔ اس کے علاوہ زیادہ ترریٹائرڈ جنرل رہے ہیں۔
خفیہ سفارت کاری سخت اعصابی جنگ ہوتی ہے۔ اپنے ملک اور قوم کے مفاد کو بالاتر رکھتے ہوئے رابطوں میں پیشرفت بھی کرنا اور دیرینہ مسائل کے حل کی طرف گامزن بھی رہنا۔ بنکاک میں کیا طے ہوا یا کن موضوعات پر بات ہورہی ہے۔ کیا پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جانا چاہئے۔ یہ آپ بتایئے۔

تازہ ترین