• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اوباما، بش بمقابلہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے پاکستان کیخلاف وہم

ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں اپنے پہلے دن سے پاکستان کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں اور اب بالکل حال ہی میں انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں کولیشن سپورٹ فنڈ کو منفی رخ دینے کی کوشش کی ہے تاکہ امریکی عوام کی توجہ خاص طور پرا ن کے مخالفین کی توجہ رشین لیکس پر سے ہٹائی جا سکے اور وہ جنوبی ایشیا میں اپنا جغرافیائی و سیاسی ایجنڈا آگے بڑھا سکیں۔ پاکستان کو بدنام کر کے اصل میں وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کا نام نہاد جواز پیدا کرنے کے لئے اپنی راہ ہموار کریں۔ باالفاظ دیگر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے خلاف کسی قسم کا بدترین اقدام کرنے کی راہ ہمورا کر رہے ہیں تاکہ چین سمیت اس خطے کو عدم استحکام کا شکار کیا جاسکےاور دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے قریب تر پہنچا دیا جائے۔ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ بیانات نہ صرف یہ کہ امریکا اور اس کے عوام کے حق میں نہیں ہیں بلکہ اس سے دہشت گردی کے خلاف اتحادیوں کی کوششیں بھی کمزور ہوں گی۔ نائن الیون کے بعد پاکستان اور امریکا نے کولیشن سپورٹ فنڈ (سی ایس ایف) کی فراہمی کے طریقہ کار پر اتفاق کیا تھا۔ کولیشن سپورٹ فنڈسے مراد وہ رقم ہے جو ڈیفنس ایمرجنسی رسپانس فنڈ سے آتی ہے اور جسے اتحادی پارٹنرز کو امریکی فوج کے آپریشن میں فوجی اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کے لئے کیے گئے اخراجات ادا کرنے کے لئے ادا کیا جاتاہے۔ ابتدائی طور پر اس کی تخلیق ڈیفنس ایپروپری ایشن ایکٹ فار ایف وائی 2002 میں ہوئی تھی، اس سلسلے میں قانون ڈی ای آر ایف کو اجازت دیتا ہے کہ وہ افغانستان میں آپریشن اینڈیورنگ فریڈم سے متعلق امریکی فوج کے آپریشنز میں فراہم کی گئی فوجی و لاجسٹک مدد کے لئے پاکستان کو رقم کی ادائیگی کرے۔ یہ ادائیگیاں پاکستان کے اصل دعوے کے مطابق کرنے کا اختیار دیا گیا تھا اور اس کا تعین سیکرٹری آف ڈیفنس ان دستاویزات کی بنا پر دیتے تھے جنہیں سیکرٹری موزوں سمجھتے تھے۔ کسی فنڈ کے مختص کیے جانے سے قبل ڈیفنس ڈپارٹمنٹ کے لئے کم سے کم 15 روز پہلے کانگریس کو بتایا جانا ضروری تھا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو2001میں نائن الیون کے حملے کے بعد پاکستان اور امریکا کے مابین ہونے والے معاہدے اور طریقہ کار کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس سی ایس ایف کی کلیئرنس کا انحصار سیکورٹی، ڈیفنس اور کانگریس کی متعلقہ کمیٹی پر تھا اور ظاہر سی بات ہے کہ صدر جارج واکر بش کی حکومت کے تحت تھا جو 2001 سے 2009 تک امریکا پر حکمران تھے اور باراک حسین اوباما جنہوں نے 2009 سے2017تک حکومت کی۔ دوسرے الفاظ میں پاکستان کو بدنام کرتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حقیقت میں امریکا کے دو منتخب صدور پر شک کیااور انہیں بدنام کیا کہ انہوں نے بے وقوفانہ طور پر پاکستان کو رقم دی۔ لفظ بے وقوفانہ کا استعمال ان کے دو سیاسی حریفوں کے خلاف استعمال ہوا ہے یعنی بش اور اوباما اور ہیلری کلنٹن جنہوں نے 2009سے 2013تک امریکی وزیر خارجہ کے طور پر خدمات انجام دیں اور وہ 2016کے انتخابات میں امریکا کی صدر کے لئے ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزد بھی تھیں، ان کے علاوہ دیگر دو امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس (2005سے 2009)اور جان کیری (2013 تا 2017 ) بھی اس میں شامل ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی اور دوسرا اپنے مخالفین کا شکار کیا کیونکہ وہ اس وقت ایف بی آئی کے سابق ڈائریکٹر رابرٹ مولر کی جانب سے رشین لیکس کی تحقیقات کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہیں۔ جیسے جیسے ان کے اور ان کے قریبی ساتھیوں کے خلاف تفتیش آگے بڑھ رہی ہے اور ان میں سے کچھ پہلے ہی سینئر عہدوں سے مستعفی ہوچکے ہیں جن میں ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر جنرل مائیکل فلن بھی شامل ہیں جو روس سے اپنے تعلق پر کئی ہفتوں کی قیاس آرائیوں کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے، پہلے انہوں نے روس سے اپنے رابطوں کا انکار کیا اور لیکن پھر بعد میں شہادتوں کے بعد انہوں نے اقرار کیا اور مستعفی ہوگئے۔ پاکستان مسلسل ان کی دھمکیوں کی زد میں ہے اور میں نے دو مضامین لکھے ہیں، ایک ’’ڈومور پاکستان، سنڈروم آف امریکا‘‘ کے عنوان سے جو 15 اگست 2017 کو دی نیوز میں شائع ہوا اور دوسری ’’دی ٹرمپ ٹھریٹ‘‘ کے عنوان سے جو 24 اگست 2017 کو دی نیشن میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ صدر ٹرمپ کے نام ایک کھلا خط بھی اگلے روز 25 اگست 2017 کو لکھا۔مذکورہ خط اور دو مضامین میں، میں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مشورہ دیا تھا کہ وہ چند دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کے لئے وہ پوری مسلم کمیونٹی کو ساتھ لیں اور دہشت گردوں کے خلاف آپ کو مسلمانوں کی بھرپور سپورٹ حاصل ہوگی۔میں نے زور دیا تھا کہ پاکستانی قوم میں آپ کی دھمکی کو سنگدلی کے طور پر دیکھا گیا ہے کیونکہ پاکستان توقع کر رہا تھا کہ آپ پاکستان کو جنگ سے متاثرہ ملک کے طور پر دیکھیں گے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کی قربانیوں کو تسلیم کریں گے۔ مشرقی سرحدوں سے خطرات کے باوجود پاکستان نے افغان سرحد کے ساتھ اور ملک کے اندر دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مالی اور انسانی دونوں طور پر اپنے وسائل استعمال کیے ہیں۔ یہ دعویٰ کہ امریکا نے پاکستان کو اربوں ڈالر دیئے ہیں سیاق وسباق سے ہٹ کر ہے کیونکہ یہ کبھی بھی مالی مدد نہیں تھی بلکہ پاکستان کی جانب سے امریکا اور نیٹو کو فراہم کی گئی خدمات کے عوض ادائیگیاں تھیں۔ حقیقت میں امریکا ہمارے مشترکہ دشمن کے خلاف لڑنے کے لئے مشترکہ حکمت عملی بنانے میں ناکام رہا ہے۔ پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ لازمی طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے بھارت کی جانب جھکاؤ کو نظر انداز نہ کرے کیونکہ پاکستان کے خلاف نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے غیرپارلیمانی بیانات کے مابین باہمی تعلق ہے۔ بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جاری انکوائری اور رشین لیکس پر بے پناہ دباؤ میں ہیں، جنہیں الیکشن کے دوران ہیلری کلنٹن کو نقصان پہنچانے کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ بیان جس میں فیصلہ سازوں کو بے وقوف کہا گیا ہے، اصل میں ان کے بیانات کا تسلسل ہے جو وہ اپنے انتخابی مہم کے دوران ہیلری کلنٹن اور دو سابق امریکی صدور اور ماضی کی تقریبا ًپوری امریکی انتظامیہ کے خلاف وہ بیان دیتے رہےہیں۔ ان کے ٹوئٹ کا دوسرے حصے میں کہا گیا ہے کہ ’’انہوں(پاکستان) نے ہمیں سوائے جھوٹ اور دھوکےکے کچھ نہیں دیا اور ہمارے رہنماؤں کو بے وقوف سمجھا۔‘‘ انہوں نے پاکستان پر جھوٹ اور دھوکے کے الزامات عائد کیے ہیں اور ان الزامات کا تعلق خود اپنی امریکی قیادت سے جوڑ دیا ہے کہ وہ بے وقوف تھے اور انہو ں نے امریکی قیادت کو جرم میں مدد کرنے والا قرار دیا ہے۔ حقیقت میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ملک کے قانونی اور انتظامی نظام پر شک کر کے اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ آخر میں وہ کہتے ہیں کہ ’’وہ (پاکستان) دہشت گردوں کو جن کا ہم افغانستان میں تعاقب کرتے ہیں، محفوظ پناہ گاہ دیتے ہیں۔‘‘جس سے ظاہر ہوتاہے کہ ان کی اطلاعات مکمل طور پر غلط ہیں کیونکہ کسی ملک نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتنا کچھ نہیں کیا اور اتنا نقصان برداشت نہیں کیا اور یہ اب بھی جاری ہے۔ یہ ایک سنجیدہ جنگ ہے، کسی ریڈ انڈین فلم کا منظر نہیں ہے جس میں شکاری میکسیکو میں اپنے گھوڑے پر شکار کرتا دکھائی دیتا ہے جیسے دہشت گرد بڑے شکاری بن چکے ہیں جو دنیا بھر میں دہشت کو اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے شکار کر رہے ہیں۔ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ پر تفصیلی بریفنگ کی ضرورت ہے اور یہ بھی کہ امریکا نے کس طرح پاکستان کو ایک مرتبہ نہیں بلکہ بار بار بے وقوف بنایا ہے۔ پہلے پی اے ایف کیمپ بڈھ بیٹر میں 17 جولائی 1959 سے 7 جنوری 1970 تک جوڑ توڑ کے ذریعے اور دوسری مرتبہ امریکا نے افغان جنگ میں روس کے خلاف پاکستان کو راغب کر کے اور تیسری مرتبہ نائن الیون کے بعد ہماری فضا، سمندر اور زمین استعمال کر کے اور اب بھی پاکستان کی لاجسٹک کو استعمال کیا جارہا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کی بے مثال خدمات اور متعدد قربانیوں کا شکر گزار ہونے کے بجائے صدر ٹرمپ پاکستان کو بدنام کر رہے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ کسی ملک نے اپنے 75 ہزار شہریوں اور فوجیوں کی قربانی نہیں دی اور کسی ملک کی معیشت کو 188 ارب ڈالر کا نقصان اور اس کے بنیادی ڈھانچے کی بڑے پیمانے پر تباہی نہیں ہوئی۔ پاکستان اپنی کمرشل ایئراسپیس کی بندش کی وجہ سے اپنے نقصان کا دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہے۔ صدر ٹرمپ کو سمجھنا چاہیے کہ ان کے پیش رو بے وقوف نہیں بلکہ عقل مند تھے تاہم انہوں نے روس کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیا جبکہ ان کے پیش رو نے کامیابی سے افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئےسوویت یونین کو ٹکڑے ٹکڑے کیا۔ میری آپ کے تین سابق صدور اور تین سابق وزرائے خارجہ سے بات چیت ہوئی ہے اور میں نے انہیں مستحکم اور سیاسی بصیرت کا حامل پایا جنہوں نے امریکی مفادات کی بھی اچھی طرح حفاظت کی۔ میں آپ کو یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ آپ امریکا کی سابق قیادت کے ساتھ تفصیلی ملاقات کریں جنہوں نے قریب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو نمٹایا ہے، قبل اس کے کہ آپ پاکستان کے خلاف کوئی اچانک اقدام دھرائیں۔ پاکستان کی بقا یقینا ًامریکی امداد پر نہیں ہے کیونکہ پاکستان نے جو نقصان اٹھایا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جس کی آپ ہرجانے کے طور پر پیشکش کر سکتے ہیں۔ اگرچہ آپ نے پاکستان کی جانب سے بہت کم مدد کا اعتراف کرتے ہیں تو مہربانی فرما کر مذکورہ مدد کا تعین بھی کردیں۔ ایک انتہائی بااثر اور سوپرپاور ملک کے صدر کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کو چاہیے کہ وہ دنیا جو جنگ کے بجائے امن کی جانب لے کر جائیں کیونکہ اپنی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے بیانات ان کے لئے موزوں نہیں ہیں۔ ’’ہماری مدد ، کم مدد‘‘، مزید نہیں چلے گا‘‘، کیا آپ ان تمام لوگوں کو جنہوں نے اپنی جان گنوائی انہیں ان کے پیاروں کو واپس دے سکتے ہیں؟۔میں آپ کو تجویز پیش کرتا ہوں کہ آ پ پاکستان کا دورہ کریں اور ان تمام خاندانوں سے ملیں جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے پیاروں کو کھویا ہے جسے امریکا نے خطے پر تھوپا تھا۔ میں ہیلری کلنٹن کی تعریف کرتا ہوں جنہوں نے ایسے چند خاندانوں سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ اپنی یک جہتی کا مظاہرہ کیا اور ان کا درد محسوس کیا۔ صدر ٹرمپ، آدمی اپنی ناکامیوں کو اس وقت تک بہتر نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ حقیقت کو تسلیم نہ کرے۔ اور حقیقت وہ ہے جو امریکا کے اعلیٰ فوجی حکام نے بیان کی ہے کہ امریکا، افغانستان میں جنگ نہیں جیت رہا۔ اس ناکامی کو پاکستان پر ڈالنے سے کام نہیں چلے گا۔ امریکی پالیسی سازوں کو پیچھے مڑ کر دیکھنے کی ضرورت ہے اور ناکامی پر ناکامی کوئی اچھی حکمت عملی نہیں ہے۔ پاکستان دوستانہ طرز عمل کے طور پر علاقائی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ڈرائنگ بورڈ پر جانے کے لئے اور افغانستان میں امریکا کی مدد کے لئے تیار ہے۔ اس حقیقت سے آگاہ رہیے کہ اگر پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر یہ ہمارے خطے تک نہیں بلکہ پوری دنیا بشمول امریکا کو بھی اپنے لپیٹ میں لے لے گا۔ جناب صدر، مہربانی فرما کر دنیا کے ساتھ امن کی طرف چلیں اور دنیا کو جنگ میں نہ گھسیٹیں کیونکہ جنگیں ہمیشہ مصائب لاتی ہیں اور امریکا کو اب تک ویت نام کی جنگ کا آغاز یاد ہوگا اور واشنگٹن کا قبرستان میں اب بھی ان خاندانوں کے آنسو دیکھے جا سکتے ہیں جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا۔ جنہوں نے اس بے کار جنگ میں اپنی جانیں گنوائیں۔آئیے جنگ کے لئے نہیں امن کے لئے کام کرتے ہیں۔مصنف تھنک ٹینک ’’گلوبل آئی‘‘ کے چیئرمین اور پاکستان کے سابق وزیر داخلہ ہیں۔

تازہ ترین