• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سالِ نو کے آغاز پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وطنِ عزیز پاکستان کے ذمہ داران کو جو پیغام دیا ہے وہ خطرناک ہی نہیں افسوسناک بھی ہے۔ ٹرمپ نے اس کے ساتھ ہی پاکستان کو دی جانے والی 255ملین ڈالر یعنی 28ارب 5کروڑ روپے کی امدادی قسط روک لی ہے۔
امریکی صدر کے اس سخت پیغام پر وطنِ عزیز کے اندر بھی ایسے جوشیلوں کی کمی نہیں جو اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہتے ہیں جس طرح ہمارے ایک سابق کھلاڑی نے یہ کہا ہے کہ ٹرمپ میں عقل و شعور نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ کئی سیاسی و صحافتی شخصیات کہہ رہی ہیں کہ ہمیں امریکی امداد سرے سے لینی ہی نہیں چاہئے یہ امداد ہمارے قومی و قار کے خلاف ہے، ہمیں ٹرمپ کو بتا دینا چاہئے کہ اپنی امداد اپنے پاس رکھو ہمیں امداد کے بالمقابل عزتِ نفس اور خودداری زیادہ عزیز ہے۔ ہمارے قومی شاعر حضرت علامہ اقبالؒ نے ساری عمر ہمیں خودی کا درس دیا ہے کیوں نہ ٹرمپ کے اس طعنے پر ہم اپنے اس سبق کو بالفعل اپنا لیں اور ٹرمپ کو یہ بتا دیں کہ تُو نے کس قوم کو للکارا ہے جو پیٹ پر پتھر باندھ سکتی ہے لیکن غیروں سے امداد نہیں لیتی۔ صدر ٹرمپ کی ان تمام تر بڑھکوں کے جواب میں پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے ذمہ دارانہ رویہ اپناتے ہوئے کہا ہے کہ ہم کسی بھی صورت میں جلد بازی کا مظاہر ہ نہیں کریں گے۔ قومی سلامتی کمیٹی نے 3گھنٹے طویل اجلاس منعقد کرنے کے بعد کہا ہے کہ افغانستان میں امریکی ناکامیوں کے تنہا ہم ذمہ دار نہیں ہیں۔ اپنے وطن کی حفاظت کرنا جانتے ہیں پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف غیر مترلزل جنگ لڑی ہے۔
صدر ٹرمپ جب سے برسر اقتدار آئے ہیں وہ پاکستان کے خلاف اس طرح کی باتیں کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کر رہے۔ کچھ عرصہ قبل جنوبی ایشیا کے لیے اپنی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے بھی انہوں نے افغانستان میں پاکستان کے کردار پر شدید نکتہ چینی کی تھی۔ وہ ایران اور شمالی کوریا کے خلاف بھی اسی نوع کی سخت زبان بولتے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ امریکی میڈیا اکثر اُن کے لتے لیتا ہے۔ اپنے پہلے غیر ملکی دورے میں وہ سب سے پہلے خادمِ حرمین شریفین سے ملنے سعودی عرب پہنچے تھے جہاں انہوں نے نہ صرف 39 ملکی عسکری اسلامی اتحاد سے خطاب کیا تھا بلکہ حکومت ایران کو دہشت گردی کا منبع قرار دیتے ہوئے مسلم اتحاد کو اس کے خلاف صف آرا ہونے کی تلقین کی تھی۔ ابھی پچھلے دنوں انہوں نے اپنا انتخابی وعدہ پورا کرتے ہوئے امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا بھی اعلان کیا جس کے جواب میں مسلم ورلڈ نے او آئی سی کے تحت احتجاج کیا اور ترکی میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی۔
کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی اُس ملک یا قوم کی امنگوں کے مطابق ہوتی ہے تمام تر مخالفتوں کے باوجود اس میں سفارتی آداب ملحوظِ خاطر رہنے چاہئیں کسی کو بھی دوسرے کے خلاف غیر سفارتی غیر پارلیمانی زبان استعمال نہیں کرنی چاہئے۔ جس طرح امریکیوں کو ہم سے شکایات ہیں اسی طرح پاکستان میں بھی امریکی پالیسیوں کے حوالے سے بہت اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں یہاں کئی حضرات کا یہ کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے ہمیں کیا پڑی ہے کہ ہم پرائی جنگ کا ایندھن بنیں جبکہ دوسری طرف ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اگر افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم نہ ہوئے تو یہ آگ نہ صرف اپنے ہمسایہ ممالک کو بلکہ پورے خطے کو تباہ و برباد کر سکتی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف اپنی سوچ اور پالیسیوں کے حوالے سے ایک پروپیگنڈہ وہ ہے جو ہم نے اندرونِ ملک اپنے میڈیا کے ذریعے ہر خاص و عام پاکستانی کے ذہن میں انڈیل رکھا ہے۔ دوسرا بیانیہ وہ ہے جو بیرونِ ملک بالخصوص مغربی دنیا میں ہمارے متعلق پایا جاتا ہے اس کے مطابق دہشت گردی کے خلاف ہمارا رویہ دوغلی پالیسی پر مبنی ہے ہم دہشت گردی کی مذمت و مخالفت بھی کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے من پسند دہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ بھی رکھتے ہیں۔
بلاشبہ ہمیں امریکی امداد نہیں چاہئے۔ ہم پہاڑ جیسی مضبوط معیشت رکھنے والی خوددار قوم ہیں ہم تو دوسروں کو امداد دینے والے ہیں ہمیں بھلا اربوں امریکی ڈالروں کی کیا ضرورت ہے۔ جب ہم سب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ دہشت گردی ایک لعنت ہے تو اس کا قلع قمع ہم امریکی رقوم لے کر کیوں کریں یہ تو ہماری اپنی قومی و انسانی ذمہ داری ہے کہ خود خرچہ کرتے ہوئے ہم اس لعنت کا سر کچل دیں۔ افغانستان ہمارا برادر ہمسایہ مسلمان ملک ہے اس کے ساتھ اس لعنت کے خلاف تعاون کرنے کے لیے ہمیں امریکیوں سے کسی صلے کی تمنا و خواہش نہیں ہونی چاہئے۔
ہم ڈان لیکس پر تو اپنی منتخب جمہوری حکومت کو کٹہرے میں کھڑے کر سکتے ہیں آج ٹرمپ نے جو کچھ کہا ہے یہ تو ڈان لیکس سے کہیں زیادہ ہے۔ زبانی بیانات میں اور بالفعل ساتھ اٹھنے میں بہت فرق ہوتا ہے اس وقت بلاشبہ ہماری اسٹیبلشمنٹ سخت اندرونی و بیرونی دباؤ میں ہے ادھر مودی ہمارا ازلی دشمن بھی موقع کی تلاش میں بیٹھا ہے امریکی ایما پر اگر مغرب نے ہم پر اقتصادی پابندیاں لگا دیں تو ان معاشی مشکلات کا تصور کیا جا سکتا ہے جنہوں نے ایران جیسے تیل کی دولت سے مالامال ملک کی اقتصادی چولیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔ ان حالات میں یہ ممکن نہیں رہا کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ وطنِ عزیز میں کسی بھی بہانے سے کھلا مارشل لا نافذ کر سکے، تو کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ہم سیاست بھی سیاستدانوں کے حوالے کرتے ہوئے جس کا جو کام ہے اُسے وہ کرنے دیں۔ سازشی تھیوریوں کا خاتمہ کرتے ہوئے دھرنے بازیوں اور احتجاجی سلسلوں کو روک دیں اس سلسلے میں جمہوری حکومت کی ہدایت پر لبیک کہیں۔ وقت مقررہ پر آزادانہ منصفانہ اور شفاف الیکشن ہونے دیں اپنی خدمت کیلئے قوم جس پارٹی کو منتخب کرے اُسے دل و جان سے قبول کرتے ہوئے کام کرنے دیں۔
وطنِ عزیز میں انتہا پسندی جہاں جہاں سے پھوٹتی ہے منتخب قیادت کے ساتھ مل کر اُسے رفو کریں عالمی سطح پر جو جو اعتراضات وار د ہوتے ہیں ٹھنڈے پیٹوں ان کا جائزہ لیں۔ ہماری پالیسیوں میں جو کمزوریاں یا جھول ہیں انہیں دور کرنے میں شرم یا اپنی توہین محسوس نہ کریں۔ جہادِ افغانستان شروع ہونے سے لے کر ہمیں جو امریکی امداد ملتی رہی ہے اس کی اعلیٰ سطحی انکوائری کروائیں اگر کہیں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ ہوا ہے تو اُسے قوم کے سامنے لایا جائے۔ مملکت ِپاکستان کو عالمی سطح پر ذمہ دار ریاست کی حیثیت سے پیش کیا جائے تاکہ اقوامِ عالم میں ہم ایک مہذب اور باوقار قوم کہلوا سکیں۔

تازہ ترین