• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ٹرمپ کی دھمکی یا وارننگ کے جواب میں بہت کچھ لکھا اور کہا جاچکا ہے۔ ابھی چند روز مزید ٹرمپ کا خوفناک بیان گلی محلوں سے لے کر طاقت کے ایوانوں تک زیر بحث رہے گا۔ اس مسئلے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ امریکی نقطہ نظر تو منٹوں میں عالمی افق پر چھا جاتا ہے اور دنیا کے ہر ملک کے اخبارات میں چھپتا اور میڈیا میں جگہ پاتا ہے لیکن اس کے برعکس ہمارا جوابی نقطہ نظر یا وضاحت صرف پاکستانی اخبارات تک محدود رہتی ہے۔ نتیجے کے طور پر صدر ٹرمپ کے لگائے گئے الزامات عالمی رائے عامہ اور امریکی رائے عامہ کو متاثر کرتے ہیں اور پاکستان کے خلاف منفی جذبات کو ابھارتے ہیں لیکن ہماری وضاحت تصویر کا دوسرا رخ دکھانے میں ناکام رہتی ہے۔ اس طرح پاکستان کا عالمی سطح پر امیج(Image) دن بدن خراب سے خراب تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ مثلاً ٹرمپ نے پاکستان پر 33ارب ڈالر امداد کے ساتھ دھوکے دہی کے الزامات لگائے ہیں جن کی ایک منطقی وضاحت ہمارے پاس موجود ہے۔ ہم اس امداد کا آڈٹ کروانے کی بھی پیشکش کررہے ہیں اور اس امداد کا تجزیہ بھی کررہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہمارا مقدمہ یہ ہے کہ ہم نے دہشت گردی کی اس جنگ میں امریکی امداد سے چار گنا زیادہ مالی نقصان برداشت کیا ہے، امریکہ کو بہت سی سہولتیں دی ہیں اور ستر ہزار قیمتی جانوں کی قربانی پیش کی ہے۔ یہ ایک متاثر کرنے والی منطقی دلیل ہے جو ٹرمپ کے الزامات کا بھرپور’’توڑ‘‘ کرسکتی ہے اور امریکی و عالمی رائے عامہ کو ہمارا مقدمہ سمجھا سکتی ہے لیکن افسوسناک صورت یہ ہے کہ ہمارا نقطہ نظر امریکی میڈیا میں کہیں جگہ نہیں پاتا۔ اس طرح استعماری قوتوں کی یکطرفہ مہم اور ہندوستان کا معاندانہ رویہ مل کر پاکستان کے بارے میں عالمی سطح پر اس طرح کا امیج بنارہے ہیں کہ گلوبل ویلیجGlobal villageکے عام شہری ہمیں بھکاری دہشت گردوں کو پناہ دینےوالے اور مکار قوم سمجھتے ہیں۔ بیرون ملک جانے والے ہر پاکستانی کو اس الزام سے پالا پڑتا ہے۔ گزشتہ دنوں امریکہ کے ایک ممتاز کالج سے مجھے اسی طرح کی ایک ای میل موصول ہوئی۔ چند برس قبل میں اس کالج میں سات دن کے لئے مہمان تھا۔ قیام کے دوران میں نے انڈر گریجویٹ طلبہ کو لیکچر بھی دئیے۔ اس پس منظر میں مجھے یہ ای میل موصول ہوئی جس سے عالمی برادری کی پاکستان کے لئے ناپسندیدگی یا ناراضی کی بو آتی تھی۔ ہمارے حکمرانوں کو آج تک یہ اندازہ ہی نہیں ہوسکا کہ عالمی رائے عامہ موجودہ دور میں اہم کردار سرانجام دیتی ہے۔ عالمی رائے عامہ کی تشکیل میں میڈیا بنیادی رول ادا کرتا ہے۔ مثلاً میں نے امریکہ کے قیام کے دوران یہ مشاہدہ کئی بار کیا ہے کہ اگر امریکی صدر یا حکمران طبقے کسی مضبوط اور جاندار ملک کے اس حوالے سے منفی بیان دیں تو اگلے دن وائٹ ہائوس کے سامنے احتجاج ہورہا ہوتا ہے اور امریکی میڈیا اپنے پروگراموں میں ان کا مقدمہ پیش کرنے کے لئے نہ صرف اس ملک کے حامی تجزیہ نگاروں کو بلاتا ہے بلکہ سینیٹ کے ان اراکین کو بھی دعوت دیتا ہے جو اس موضوع پر دسترس رکھتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے امریکہ اور خاص طور پر واشنگٹن میں پاکستان کے دوستوں کی لابی اور پاکستان کے حق میں آواز اٹھانے والوں میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے جبکہ مخالفین اور دشمنوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے زیادہ افسوسناک بات اور کیا ہوگی کہ پاکستان مخالف لابی میں خود پاکستانی بھی شامل ہیں جو تھنک ٹینکس میں بھی موجود ہوتے ہیں اور میڈیا میں بھی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ انہیں ہندوستان اور افغانستان کی اشیر باد ہی نہیں بلکہ ہر طرح کی مدد بھی دستیاب ہے۔ مجھے جس امریکی کالج میں جانے کا موقع ملا وہاں بنگلہ دیشی طلبہ بھی ہندوستانی دوستوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے میں پیش پیش تھے اور 1971کے آرمی ایکشن کے حوالے سے ایسی ایسی افسانوی داستانیں سناتے تھے جن سے متاثر ہو کر طلباء پاکستان مخالف جذبات کا شکار ہوجاتے تھے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سفارتخانے اور ہماری فارن پبلسٹی اس میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ ہمارا مقدمہ یا نقطہ نظر رائے عامہ تک پہنچتا ہی نہیں۔ ایک عرصے سے ہم اس ڈیفالٹ کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اس پر مستزادیہ کہ بعض اوقات ہماری غلطیاں جگ ہنسائی کا باعث بنتی ہیں۔ گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی مظالم کی تصویر دکھاتے ہوئے ا یک فلسطینی لڑکی کی تصویر دکھا دی گئی جس پر ہماری جگ ہنسائی ہوئی حالانکہ بھارتی مظالم کی تصاویر کی کوئی کمی نہیں۔ صدر ٹرمپ کے الزامات کے جواب میں یقیناً ہمارا مقدمہ اور موقف مضبوط ہے لیکن ہماری وزارت خارجہ، سفارتخانے اور فارن پبلسٹی اسے عالمی سطح پر پیش نہیں کرسکے گی، چنانچہ امریکی عوام اور عالمی رائے عامہ ہمیں ہر قسم کا الزام دے گی اور ہوائی اڈوں سے لے کر شہروں تک پاکستانیوں کو مشکوک نظروں سے دیکھے گی۔ مشرف دور کے دوران میں امریکہ میں ایک ہوٹل میں کھانا کھانے گیا۔ ٹی وی چل رہا تھا، اتنے میں ٹی وی ا سکرین پر مشرف نظر آیا تو میرے قریب دوسرے میز پر بیٹھے ہوئے امریکی جوڑے نے فوراً کہا’’یہ وہی (Guy)بندہ ہے جو ہر وقت امریکہ سے ڈالر مانگتا ہے‘‘۔ یہ الفاظ سن کر میں سوچ میں ڈوب گیا۔ ہم امریکہ کی جنگ میں مالی، فوجی اور انسانی نقصان اٹھا رہے تھے لیکن امریکی رائے عامہ اس سے بالکل نابلد تھی۔ میں جہاں بھی گیا اور جس محفل میں بھی گیا الزامات کی سوغات جھولی میں ڈال کر واپس لوٹا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ٹرمپ پاکستان پر ڈرون حملے کرے گا اورا سٹرٹیجک ا سٹرائیکس Strategic strikesکرے گا۔ ہم پاکستان کے شہروں میں جلوس نکالیں گے، ہوا میں مکے لہرائیں گے، سیاستدان بیانات میں ایک دوسرے پر بازی لے جائیں گے جبکہ ہندوستان اور افغانستان میں خوشی کے شادیانے بجیں گے لیکن بھری دنیا میں نہ ہمارا کوئی حامی ہوگا اور نہ کسی کو علم ہوگا کہ ہم نے دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کی کتنی خدمت کی ہے، کس طرح اپنی زمین اور فضا امریکہ کے سپرد کئے رکھی ہے، کتنی قیمتی جانوں کا نقصان برداشت کیا ہے اور کس قدر مالی نقصان کا بوجھ اٹھایا ہے۔ مجھے امریکی دھمکی کا غم نہیں لیکن اپنی اس ناکامی کا دکھ ضرور ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ہم ایک ا ستعماری قوت اور تجارتی قوت کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔ استعماری قوت امریکہ نہ صرف داخلی معاملات میں دخل دیتا ہے بلکہ حکم (ڈکٹیٹ Dictate) بھی دیتا ہے جبکہ تجارتی عالمی قوت چین اندرونی معاملات میں دخل نہیں دیتی اور اپنی پوری توجہ تجارت بڑھانے اور مالی مفادات پر مرکوز رکھتی ہے۔ مالی مفادات کے ضمن میں قرضوں میں جکڑی قوم سے گوادر اور افغانستان کے سونے چاندی معدنیات کے ذخائر بھی مانگ سکتی ہے مگر استعماری عالمی پاور اندرونی سیاست میں ہر طرح کی مداخلت کرتی ہے۔ عالمی سیاست کی تنی ہوئی رسی پر نہایت احتیاط اور اعلیٰ درجے کی ڈپلومیسی کے سہارے چلنے کی ضرورت ہے لیکن ہمارا یہ حال ہے کہ جس فلسطین کی حمایت ہم آزادی کے حصول سے بہت پہلے سے کررہے ہیں اور جس فلسطین کا غم ہر پاکستانی کھاتا ہے اس نے پروفیسر سعید کے ساتھ بیٹھا اپنا سفیر دیکھ کر ہندوستانی احتجاج کی لاج رکھتے ہوئے واپس بلالیا ہے اور اس ہندوستان کی تعریف میں بیان بھی جاری کیا ہے جس کے اسرائیل کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔ مودی کا جس طرح اسرائیل میں استقبال ہوا وہ صدر ٹرمپ کے استقبال کے بعد دوسرا بڑا استقبال تھا لیکن اس کا فلسطینی اتھارٹی پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا۔ ٹرمپ کی دھمکیاں اپنی جگہ لیکن ہماری اصل ناکامی ڈپلومیسی کے شعبے میں ہے جس پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین