• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تو ٹرمپ کا ٹوئٹ پڑھ کر ہنسی آرہی ہے، اسے اسی حد تک سنجیدہ لینا چاہئے جس حد تک امریکی شہری یا ڈونلڈ ٹرمپ کے خاندان کے لوگ اسے سنجیدہ لیتے ہیں۔ امریکہ میں مشہور ہے کہ یہ احمق آدمی کسی وقت کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ یہ شخص کبھی سابق امریکی صدور کو بے وقوف کہتا ہے تو کبھی امریکی ماہرین پر تنقید کرتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے متعدد مرتبہ امریکی اداروں کے مختلف افراد کو بھی دھمکیاں دی ہیں۔ لہٰذا میری آپ سے گزارش ہے کہ اس ٹوئٹ کو جسے آپ دھمکی سمجھ رہے ہیں، اسے قطعاً دھمکی نہ سمجھیں بلکہ اسے آپ شاباش کا سرٹیفکیٹ تصور کریں کیونکہ اس ٹوئٹ میں ٹرمپ اعتراف کررہا ہے کہ پاکستانیوں نے امریکیوں کو دھوکہ دیا، ان کے ساتھ جھوٹ بولا گویا پاکستانی، امریکیوں کو چکر دینے میں کامیاب رہے۔
حقیقت حال یہ ہے کہ امریکی ادارے پاکستان کی دہشت گردی کیلئے قربانیوں کو سراہتے ہیں، صرف امریکہ ہی نہیں دنیا سراہتی ہے۔ ٹرمپ کے حالیہ ٹوئٹ کے پس پردہ چند چہرے ہیں اس میں ایک اہم پاکستانی سیاستدان بھی شامل ہے۔ اس سیاستدان کو بہت سی کوششوں کے باوجود این آر او نہیں مل رہا، اب اکتاہٹ ان کے چہرے سے نمایاں ہوتی جارہی ہے۔ ٹرمپ کے حالیہ ٹوئٹ کے پیچھے اس پاکستانی سیاستدان کے علاوہ نریندر مودی، اسرائیلی لابی اور واشنگٹن میں موجود ایک اہم پاکستانی بھی ہے، یہ پاکستانی کئی ذمہ دار عہدوں پر رہ چکا ہے۔ اس تمام کارروائی کے باوجود پاکستان کے اس اہم سیاستدان کو کچھ نہیں ملے گا، اسے اپنی سیاست دفن ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ ویسے تو اس سیاستدان کی صاحبزادی کے ٹوئٹس بھی ٹرمپ کے ٹوئٹس سے ملتے جلتے ہیں۔
پاکستان کو پریشان ہونے کی بالکل ضرورت نہیں، پاکستان کے دوست چین نے برملا کہا ہے کہ چین ہر قسم کے حالات میں پاکستان کے ساتھ ہے، پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کو بھی چین نے سراہا ہے۔ چین کی طاقت کا اندازہ مجھے اس روز ہوا تھا جس روز امریکی صدر ٹرمپ نے چین کا دورہ کیا تھا، چین کے سامنے امریکی کمزوریوں کی وضاحت اس وقت بخوبی ہورہی تھی جب چینی صدر کو خوش کرنے کیلئے ٹرمپ کی نواسی چینی زبان میں نظم پڑھ رہی تھی۔ یہ صرف نظم نہیں پڑھی جارہی تھی یہ شکست کا اعتراف کیا جارہا تھا۔ دنیا کے معاشی ماہرین جانتے ہیں کہ معیشت کی کنجیاں اب چین کے پاس ہیں چین جب چاہے لمحوں میں امریکی معیشت کا تختہ الٹ سکتا ہے اور اس مقصد کیلئے چین کو کسی اور ملک کی مدد کی ضرورت بھی نہیں، طاقت کا یہ عالم ہے کہ چین بغیر کوئی گولی چلائے جب چاہے امریکہ کو شکست دے سکتا ہے۔
ترکی نے بھی پاکستان کی حمایت کی ہے جب چین، روس، ترکی اور ایران آپ کے ساتھ کھڑے ہوں تو آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، باقی شمالی کوریا زندہ باد، ٹرمپ میں ہمت ہے تو ایک ٹوئٹ شمالی کوریا کے بارے میں بھی کر کے دیکھ لیں۔ اگر کرارا جواب نہ آیا تومزہ نہیں آئے گا۔ لہٰذا ٹرمپ اگر مزہ لینا چاہتے ہیں تو انہیں شمالی کوریا کا رخ کرنا چاہئے۔
اب بات کرتے ہیں پاکستانی سیاست کی، جہاں میاں نوازشریف کے چہرے پر پریشانی کے آثار بڑھتے جارہے ہیں، اکتاہٹ اور بے بسی کا بسیرا بھی نظر آرہا ہے۔ پریشانی کے اس عالم میں وہ فرماتے ہیں۔ ’’ایک جماعت کے ہاتھ پائوں باندھ کر لاڈلے کیلئے راستہ ہموار کیا جارہا ہے، سازشیں بند کریں ورنہ 4سال کی پس پردہ کارروائیاں بے نقاب کردوں گا۔‘‘ میاں صاحب سوچ لیں اس میں ڈان لیکس کا معاملہ بھی آجائے گا، اس میں اور بہت کچھ آئے گا، اس میں اجیت کمار دوول اور سجن جندال بھی آئیں گے اس میں بھارتی تجارت بھی آئے گی، کہیں ایسا نہ ہو کہ 2013ء کے انتخابات کی پوری کہانی سامنے آجا ئے، اگر نگاہ ماضی کی طرف چلی گئی تو آئی ایس آئی سے لئے گئے پیسوں کا ذکر بھی آئے گا، آئی جے آئی کیسے بنی، یہ بھی سامنے آجائے گا، پھر یہ بات بھی سامنے آجائے گی کہ 80ء کی دہائی میں آپ خود ہی نگران وزیراعلیٰ بنتے تھے اور الیکشن بھی لڑتے تھے، چپ رہیں ورنہ یہ سامنے آجائے گا کہ آپ کا بزنس کہاں کہاں اور کس کس کے ساتھ ہے، آپ نے بیرون ملک دولت کے انبار کیسے لگائے؟
میاں صاحب کی باتوں کا جواب فواد چوہدری نے اسی دن دے دیا تھا بلکہ انہوں نے ادھورا لطیفہ سناتےہوئے کہا کہ ’’نئیں میں شکایت ہی لگانواں گا‘‘ شام کو فواد چوہدری نے یہ لطیفہ میرے کھاتے میں ڈال دیا کہ یہ لطیفہ انہیں میں نے سنایا تھا۔
خواتین و حضرات! بیانات کی گرمی سردی چلتی رہتی ہے۔ ٹرمپ کا جواب پاکستان کے بہادر سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھرپور انداز میں دے دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’دھمکانے والے سن لیں، کوئی طاقت پاکستان کا بال بیکا نہیں کرسکتی، ایسی فوج کا سربراہ ہوں جس کے جوان ہر دم وطن کیلئے جان دینے کو تیار رہتے ہیں‘‘۔
بلوچستان میں حالیہ سیاسی صورتحال کے پیچھے تین افراد کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، ان تینوں نے دو مہینے پہلے کام شروع کیاتھا، ان افراد میں نواب ذوالفقار مگسی، میر جعفر مندوخیل اور سینیٹر سعید ہاشمی شامل ہیں۔ بلوچستان ہی سے قومی بحران جنم لے سکتا ہے۔
اس تمام صورت حال میں ایک بیان ایسا ہے جسے انتہائی سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ اسی سے ملک کی سیاسی سمت کا تعین ہوگا۔ یہ بیان چیف جسٹس آف پاکستان کا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ’’انتظامیہ ہو یا کوئی اور، ہمارے حکم پر سب کو عمل کرنا ہوگا‘‘۔
سمجھداروں کیلئے کالم میں بیان کیا گیا آخری بیان بہت کچھ کہہ گیا ہے۔ بقول فاخرہ انجم؎
تو کر دے پاک یارب پاک دھرتی
لٹیروں، ظالموں، بازی گروں سے.

تازہ ترین