• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاق المدارس العربیہ دیوبند کے19ہزار مدارس، اہل سنت کے تین بورڈ ہیں جن میں تنظیم المدارس اہل سنت کے10 ہزار مدارس۔ نجیبۃ الامتحانات دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ314، دعوت اسلامی مدرسۃ المدینہ اور جامعۃ المدینہ کے 3303 ہیں، چالیس مدارس تنظیم المدارس سے ملحق ہیں، منہاج القرآن کے منہاج المدارس 28مجموعی طور پر سنی مدارس13645 ہیں۔ رابطۃ المدارس العربیہ جماعت اسلامی1125مدارس، وفاق المدارس سلفیہ اہل حدیث کے 14سو مدارس جبکہ وفاق المدارس الشیعہ کے 450مدارس ہیں۔ اس طرح مجموعی طور پر ملک میں رجسٹرڈ مدارس کی تعداد 35620ہے۔ ’’پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ‘‘ کے سابق چیئرمین ڈاکٹر عامر طسین کے مطابق 3مدارس ہیں۔ ستم بالائے ستم دیکھئے 2100مدارس نے حکومت کو رجسٹریشن کی درخواست دے رکھی ہے جنہیں تاحال رجسٹرڈ نہیں کیا گیا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو چاہئے خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے ان مدارس کو جلد رجسٹرڈ کر کے قومی دھارے میں شامل کریں۔
کچھ گزارشات مدارس کے ناظمین سے ہیں، ضروری نہیں تمام آراء سے متفق ہوا جائے۔ برا منانے کی بجائے، جو بہتر لگیں ان پر فیصلے کریں، میرے لکھنے کا بنیادی مقصد زمانے کے طور طریقوں سے آگاہی اور جدید مسائل کی تفہیم ہے۔ آپ کم وسائل کے باوجود مفت تعلیم دے کر شرح خواندگی میں ریاست کی مدد کر رہے ہیں۔ آپ وارث انبیاء ہونے کی وجہ سے ہمیشہ قرآن وسنت کی روشنی میں لوگوں کی دینی رہنمائی کرتے ہیں۔ علوم اصلیہ اور علوم آلیہ پڑھاتے وقت بچوں میں دین کا تصورِ انبیاء پیدا کریں۔ یہ واحد علم تھا جس کا مقصد ذریعہ معاش نہیں، لیکن اب ایسا کرنا ضروری ہے۔ مدارس جو اسلام کے قلعے ہیں ان کو ذاتی و سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہ کریں، سیاست میں کامیابی مشکل ہے وہاں آپ مقتدی ہی رہیں گے، مولانا فضل الرحمن کی مثال موجود ہے۔ اپنے اندر نظم پیدا کریں، جدید نصاب بنانے کا فیصلہ ذاتی طور پر کریں حکومت سے جہاں ممکن ہو مدد مانگیں۔ الگ بنانے کی بجائے اتحاد تنظیمات مدارس کے پلیٹ فارم سے نصاب بنائیں۔ نصاب میں ایسی تبدیلیاں لائیں جس طرح ہم اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دینے کیلئے سوچ بچار کرتے ہیں۔ شاخیں اور بچوں کی تعداد بڑھانے کی بجائے کوالٹی ایجوکیشن پر توجہ دیں۔ بعض چھوٹے مدارس کمیشن کی بنیاد پر دکانوں اور بسوں سے فنڈ اکٹھا کرکے مدارس کو بدنام نہ کریں۔ آپ دوسرے مسالک کے ساتھ اٹھتے، بیٹھتے ہیں، آگے بڑھیں اپنے شیوخ الحدیث، اساتذہ کو دوسرے مسالک کے درمیان اٹھنے بیٹھنے کے مواقع فراہم کریں، اندرون و بیرون ممالک کانفرنسوں میں اپنے اساتذہ کو شامل کریں۔ ناپختہ بچے والدین نے آپ کے پاس بھیج دیئے اب یہ آپ کا کام ہے کہ آپ ان کے اندر کس کا دینی و دنیوی ذوق و شوق، اعتدال و توازن پیدا کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جو قلبی ادب و احترام آپ کو ملتا ہے، وہ اسکول، کالج اور یورنیورسٹی کے اساتذہ کو نصیب نہیں۔ آٹھ سو سال سے جاری مدرسہ نصاب اصلاح کا متقاضی ہے۔ نصاب میں معاشیات، سیاسیات، لسانیات، سماجیات، فنون، ادب، شعر، بلاغت، فلسفہ، تاریخ اور کمپیوٹر کی تعلیم شامل کریں۔ پورے سال میں پڑھائے جانے والے نصاب کی ماہانہ اور ہفتہ وار تقسیم کریں۔ طلباء کی ماہانہ تعلیمی رپورٹ گھروں میں بھجوائیں۔ بغیر اطلاع کے غیر حاضر طلباء کے گھر الرٹ ایس ایم ایس کریں۔ مار نہیں پیار کے کلچر کو عام کریں۔ بچوں کیلئے ایک وقت دودھ نہیں تو چائے کا اہتمام ضرور کریں۔ حاضری کے نظام کو جدید مشینی طریقہ میں بدلیں۔ معیاری سیکورٹی نظام کا ضرور اہتمام کریں جو بچے فیس دے سکتے ہیں ان سے لیں تاکہ مزید معیار تعلیم بلند ہو۔ تنخواہ سرکاری سسٹم کے مطابق گریڈ کے حساب سے یکم سے پانچ تاریخ تک دینے کی کوشش کریں۔ ملازمین کی تنخواہیں بنک اکائونٹ میں جاری کریں۔ اپنے مالی و انتظامی معاونین کی غمی خوشی میں ضرور شامل ہوں۔ تعاون میں ملنے والی رقم کو روزانہ بنک اکائونٹ میں جمع کرائیں۔ مدارس کے فنڈز، امانت و دیانت کے اصولوں کے مطابق خرچ کریں۔ ناظمین کو متعلقین سے ملنے والے تحائف اور نذرانہ جات مدرسہ کی ملکیت ہیں یا ناظم کی، یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟ کیونکہ نبی ﷺ کی متفق علیہ حدیث کے مطابق اپنے منتخب کردہ عامل زکوٰۃ کو موصول ہونے والے تحائف کو سرکاری خزانے میں جمع کروانے کا حکم دیا گیا تھا۔ مدارس کے فیصلے خود کرنے کی بجائے اداروں میں تھنک ٹینک تشکیل دیں۔ دارالافتاء میں شرارتی ذہن، سخت، ترش لہجے، بلڈپریشر کے مریض، غصیلے، خوشامدی، لالچی، علمی غرور اور گروہی اختلافات والے نہیں بلکہ معتدل مزاج اور حالات حاضرہ کو سمجھنے والے بالغ النظر مفتیان کرام تعینات کریں۔ ہر مدرسہ میں ڈسپنسری اور ایمبولینس سروس کا اہتمام کریں۔ آپ کی معمولی کاوش سے ملک میں 35620ایمبولینس اور ڈسپنسریوں کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ بچوں کے بلڈ گروپ تشکیل دیں تاکہ ہنگامی حالات میں خدمت انسانی میں تاخیر نہ ہو۔ محکمہ صحت کے تعاون سے سہ ماہی میڈیکل رپورٹ بنوائیں۔ کینٹین، باورچی خانہ، پانی کے ٹیسٹ میں محکمہ فوڈ سے مدد لیں، طلباء کو بیمار بکروں کے گوشت سے بچائیں۔ اسمبلی میں قومی ترانے کا آغاز کریں۔ سال میں دو بار تفریحی مقامات کی سیر کروائیں۔ فلسفہ قدیم کی جگہ اگر فلسفہ جدید کو شامل کر لیا جائے تو بچوں کے ذہنی اضطراب کو سمجھنے میں مدد ملے گی، ان کو کسمپرسی کی صورت حال سے نکالیں۔ نبی ﷺ کے مہمانوں کی کسی بھی صورت عزت نفس مجروح نہ ہونے دیں۔ حضور! آٹھ سال درس نظامی پڑھنے والوں کو اگر عربی بولنی، سمجھنی اور لکھنی نہیں آتی تو ذرا سوچئے! قصور کس کا؟ قدیم عربی کے ساتھ جدید عربی کو زندہ زبان کے طور پر پڑھائیں تاکہ ان کو ریڈیو، ٹی وی، فارن دفاتر کے شعبہ تراجم میں ملازمت مل سکے۔ آزاد مطالعہ کی عادت ڈالتے ہوئے مقدمہ ابن خلدون طرز کی کتابیں ضرور پڑھائیں۔ غیرنصابی سرگرمیوں، ورزش اور کھیلوں کے مواقع فراہم کریں۔
اخبار اور ایک گھنٹہ نیوز چینل اور انٹرنیٹ کی سہولت دیں۔ منتہی طلبا کو ابلاغ و تبلیغ کی رفتار کو تیزتر کرنے کیلئے سوشل میڈیا کورسز کروائیں۔ مدرسین کی کم تعداد کو بڑھائیں، چار گھنٹے سے زیادہ اساتذہ سے کام نہ لیں۔ مدرسین کو کرسی اور بیک کیئر (فوم گدا) کی سہولت دیں تحقیق سے ثابت ہے کہ زیادہ بیٹھ کر کام کرنے والے جلد کمر درد کی تکلیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ مدارس کی مساجد کے آئمہ کو 18ویں گریڈ کی مراعات دیں جو لوگ آپ سے مساجد کیلئے امام و خطیب مانگیں گے ان کو اپنی مسجد کی مثال پیش کریں۔ ہاسٹل میں ایک حد سے زیادہ بچوں کو رہائش نہ دیں۔ یہ آپ ہی ہیں جو پسماندہ علاقے کے بچوں کو مستقبل کا خطیب، مدارس، مصنف، محقق اور مبلغ بناتے ہیں۔ بچوں کو بتائیں کہ قانون کو ہاتھ میں لینا شرعاً، اخلاقاً درست نہیں۔ کسی مدرسہ میں طب، ویلڈنگ، بجلی، پکوان، ڈرائیور، فرنیچر کاریگر، درزی، آٹو کیڈ، الیکڑیشن، مالی، کھیتی باڑی، کرکٹر، فٹ بالر، اسکواش، موٹرسائیکل، گاڑی اور رکشہ میکنک پیدا ہونے چاہئیں۔ یہ دور تو سافٹ وئیر، ویب ڈویلپمنٹ اور ایپس کا دور ہے۔ ٹیچرز ٹریننگ کا اہتمام کریں۔ میرے نبی ﷺ کے امتی خواجہ سرائوں کو مدارس کے دینی و علمی ماحول میں لانے کوشش کریں۔ ایسے مدرسین جو پڑھانے کے ساتھ تحریر کا ملکہ رکھتے ہیں ان کو سرچ اور تحقیق کی معیاری لائبریری اور دیگر مطلوبہ سہولتیں فراہم کریں۔ دور جدید کے مسائل شریعت کی روشنی میں حل کرنے کیلئے اجتہادی اور اجماعی ماحول بنائیں۔ اس ہفتہ ادارہ دارالاسلام کے ناشر محمد رضا الحسن نے مولانا سید الحق محمد عاصم بدایونی کی لکھی ہوئی کتاب ’’تحقیق و تفہیم‘‘ بھیجی، میں ان کا مشکور ہوں۔ جمعہ کے دن درود پڑھنے کی فضیلت بڑھ جاتی ہے ’’سارے دکھوں کی دوا! بس درود مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘112 بار ضرور پڑھیں۔

تازہ ترین