• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شریف فیملی کے سعودی عرب جانے پر ابھی تک دو طرح کی افواہیں گردش کررہی ہیں۔ ایک طرف کسی نئے این آراو کا شور ہے۔ کہا جارہا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف کے سعودیہ جانے اور آنے کے لئے سعودی حکومت نے اپنا طیارہ کیوں بھیجا۔ اسے حیرت انگیز بات قرار دیا گیا کہ جب پاکستان میں کوئی ایسے حالات نہیں تھے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو سعودیہ جانے میں کسی دشواری کا سامنا ہو تو پھر انہیں لینے کے لئے سعودی حکومت کو اپنا طیارہ بھیجنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی اور پھر وہی طیارہ انہیں چھوڑنے بھی پاکستان آیا۔ کیا اس میں بھی کسی کے لئے کوئی پیغام پوشیدہ تھا۔ پچھلی بار جب شریف فیملی کو لینے کے لئے سعودی جہاز آیا تھا تو جنرل مشرف کے ساتھ ایک این آر او ہوا تھا۔ شہباز شریف کے لئے سعودی جہاز کی آمد کو اسی تناظر میں دیکھا گیا اور یہی سمجھا گیا کہ پھر کوئی این آر او ہونے لگا ہے۔ شہباز شریف نے واپسی پر اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا۔ ’’خدا کا خوف کریں میں عمرہ کرنے گیا تھا‘‘
دوسری طرف سعودی شہزادوں کی کرپشن میں شریف فیملی کے ملوث ہونے کی کہانیاں سنائی گئیں۔
سچی بات یہ ہے کہ کچھ معلوم نہیں ہوسکا کہ سعودی عرب نون لیگ کی لیڈر شپ کیوں گئی تھی اور وہاں کیا ہوا ہے۔ البتہ اتنا معلوم ہوا ہے کہ سعودیہ سے واپسی کے بعد شہباز شریف بہت خوش ہیں۔ اُن کی خوشی دیدنی ہے۔ جب کہ میاں نوازشریف پہلے سے زیادہ اداس واپس آئے ہیں۔ یعنی شہباز شریف کا دورہ کامیاب رہا ہے اور نوازشریف کا دورہ ناکام۔ ایک افواہ کے مطابق نوازشریف نے سعودی حکام کی وساطت سے اپنے کسی امریکی دوست سے رابطہ کیا مگر امریکہ کی طرف سے بہت مایوس کن جواب ملا جس پر انہوں نے پاکستان واپس آتے ہی ٹرمپ کے ٹویٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ’’ٹرمپ کا بیان افسوس ناک ہے، ریاست کے سربراہ کو عالمی آداب اور سفارتی اخلاق کا خیال رکھنا چاہیے۔ پاکستان کو امداد کے طعنے نہ دئیے جائیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کی جانب سے ملنے والے کولیشن فنڈز کی رقم کو امداد کا نام نہ دیا جائے، اور پاکستان کو ایسے فنڈز کی ضرورت بھی نہیں ہے۔‘‘ افواج پاکستان کے ترجمان نےبھی نوازشریف کے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے۔ مگر نوازشریف نے اپنے بیان میں یہ کہا ہے کہ سازشیں بند کردی جائیں وگرنہ میں چار سال کی پس پردہ کارروائیاں بے نقاب کردوں گا۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ چوہدری نثار علی اور نوازشریف کے مراسم میں کچھ بہتری آئی ہے۔ یعنی نوازشریف اپنے موقف سے ذرا سا پیچھے ہوئے ہیں۔ نوازشریف نے سعودیہ جانے کے حوالے سے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے مجھ سے ایک بہت اچھا کام لیا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ نواز شریف نے سعودیہ میں جاکر دو برادر اسلامی ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کو بہتر کرانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ نوازشریف اور شہبازشریف نے اپنے انتہائی قریبی لوگوں کو بھی اس بات کی ہوا نہیں لگنے دی کہ وہ سعودی عرب کیوں گئے تھے۔ وہاں کیا معاملہ تھا۔ پاکستان میں سعودی سفیر نے شریف برادرز کے سعودی عرب جانے پر ذرا سی روشنی ڈالی ہے کہ وہ وہاں کسی ذاتی کام کے سلسلے میں گئے تھے اور سعودی عرب پاکستانی اداروں کے ساتھ ہے۔
ایک خبر یہ بھی ہے کہ اس دورہ سعودیہ کے متعلق جتنی افواہیں گردش کررہی ہیں کسی نہ کسی سطح پر وہ تمام حقائق کے قریب ہیں۔ یعنی تھوڑی تھوڑی ساری افواہیں سچ ہیں۔ ایک اور عجیب و غریب بات جو سننے ملی ہے اس پر تو میں بھی ہنس پڑا ہوں۔ وہ افواہ اِس شعر جیسی ہے کہ
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجیو
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا
وہ افواہ بھی سن لیجئے کہ نوازشریف نے سعودی عرب کی وساطت سے امریکہ کو کہا ہے کہ پاکستان پر دبائو ڈالے۔ اسی کے تناظر میں صدر ٹرمپ نے یہ ٹویٹ کیا ہے۔ وگرنہ صدر ٹرمپ کو اتنے پرانے کھاتوں کے رجسٹر کھولنے کی کیا ضرورت تھی۔ صدرٹرمپ جس رقم کا حساب مانگ رہے ہیں وہ رقم وہ ہے جو پچھلے سولہ سترہ سال میں امریکہ نے پاکستان کو دی ہے ۔بہرحال وزیراعلیٰ پنجاب کے چہرے پر پھیلی خوشی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ سعودی عرب میں جو بھی این آر او ہوا ہے اس میں سب سے زیادہ فائدہ میاں محمد شہبازشریف کا ہوا ہے۔

تازہ ترین