• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا عالمی امن اور سیاسی و اقتصادی استحکام کے لئے انٹرنیشنلزم (بین الاقوامیت) کی اہمیت کو جانتی ہے تو اس کے لئے یہ جاننا بھی لازم ہے کہ کسی بھی اعتبار سے دنیا کے دو اہم ممالک میں تعلقات ایک مخصوص و مطلوب درجے تک نہ بھی قائم ہوں تو ان میں (کم از کم ) ایک مستقل یا طویل المدت کشیدگی تو ہرگز نہ ہو۔
عالمی برادری کو مطلوب انٹرنیشنل ازم کا ایک اور بنیادی تقاضا یہ بھی ہے کہ مختلف خطوں کے اہم اور کئی اعتبار سے سرگرم پاکستان جیسے ممالک سے عالمی سیاست کے بڑےچیمپیئنز کی بگڑنے نہ پائے، اوران کے تعلقات خوش گوار یامعمول کے نہیں بھی ہیں تو کم از کم ان میں کشیدگی ہرگز نہیں پیدا نہ ہو۔ ہوگی تو ناصرف ہر دو ممالک اپنے عالمی تعلقات اور اس حوالے سے اپنی ساکھ کو متاثر کریں گے، یہ مطلوب عالمی ماحول کو بھی منفی طور پر متاثر کرتی ہے۔ خصوصاً طاقتور ممالک ایسے کشیدہ تعلقات میں الجھتے جائیں تو ان کا وقار بطور اہم اور ذمے دار ملک کے بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ان کے خارجی امور میں منفی رویے کو عالمی برادری کوئی بڑے پیمانے پر یا فوری رسپانس کرے لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد سے بین الاقوامی تعلقات کی تاریخ سازی میں جو تیزی اور اضافہ ہوا، اس کے کتنے ہی واقعات اس کی واضح نشاندہی کرتے ہیں۔ ہوتا یہ چلا آرہا ہے کہ طاقت ور ملک اپنی طاقت کے تکبر میں اسے محسوس نہیں کر پاتے اور چھوٹے ممالک اپنی کمزوری کے باعث غلط کو غلط کہنے کی جرات نہیں کر پاتے لیکن جب وہ اپنی خودمختاری کے تحفظ کی معمولی کوشش بھی کرتے ہیں تو بڑی طاقت کے رسپانس کشیدگی کی خبریں ہی بناتے ہیں، جبکہ تحکمانہ انداز میں ڈکٹیشن پہلے ہی مخصوص منفی تعلقات کو بڑھا رہی ہوتی ہے۔
آج کل پاکستان اور امریکہ کے تعلق میں پیدا ہونے والی دوری کا اضافہ جنوبی ایشیا میں ایک نئی کشیدگی کو جنم دے رہا ہے تو دوسری جانب امریکہ بطور بڑی طاقت ذمہ دارانہ طرز عمل میں تیزی سے ہوتی کمی میں مبتلا ہے۔ پاکستان، امریکہ کے لئے اور امریکہ پاکستان کے لئے اہم ترین ممالک میں شامل رہے ہیں اور ہیں، ان کے بین الاقوامی تعلقات میں اس پوزیشن کی بے حد اہمیت رہی ہے۔ بلاشبہ امریکہ ایک عالمی طاقت ہے، لیکن اہمیت کے اعتبار سے جو انفرادیت اور امتیاز پاکستان کا رہا اور آج بھی ہے (جس کو سمجھنے میں امریکی حکومتوں خصوصاً ٹرمپ انتظامیہ کو خاصی مشکل پیش آرہی ہے) وہ کسی اور ملک کا نہیں، لیکن آج پاکستان، پاک۔ امریکہ تعلقات کی تاریخ کے کسی بھی عشرے کے برعکس اس پوزیشن میں آگیا ہے، جس میں اس کا امریکہ پر انحصار اور اعتماد کم تر ہوتا جارہا ہے۔ صورت یہ ہے کہ پاکستان کے سر پر تو ایٹمی طاقت بننے کے بعد بھی کوئی علاقائی طاقت بننے کا بھوت سوار نہیں ہوا، نہ ہی اس نے اپنی اس نئی غیر معمولی دفاعی صلاحیت کو اپنے بین الاقوامی تعلقات میں استعمال کیا، ہاں یہ واضح ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں بھارت کی اس خواہش میں حتمی رکاوٹ ہے جو نئی دہلی پورے خطے میں اپنے ناجائز غلبے کو منوانے کے لئے مسلسل بے چین ہے، پھر یہ بھی کہ جس طرح بھارت اپنی سات لاکھ مسلح افواج سے مقبوضہ کشمیر پر قبضے کو برقرار رکھنے اور پاکستان اسے عالمی تنازع کے طور پر زندہ رکھنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔ ایسے میں پاکستان اپنے جائز ترین تاریخی موقف کہ ’’رائے شماری کی بنیاد پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر حل کیا جائے‘‘ سے اس لئے کبھی دستبردار نہ ہوگا کہ اس سے امریکہ کے حوالے سے اپنا کوئی بڑا متنازع قومی مفاد حاصل کرلے۔ افغانستان میں جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہورہا ہے اس میں پاکستان اپنے مبنی برحقائق موقف (جسے خود امریکہ نے برسوں اور عالمی برادری آج بھی تسلیم کرتی ہے) سے کیسے دستبردار ہوسکتا ہے۔ دہشت گردی تو پاکستان کے خلاف افغان سرزمین سے ہورہی ہے اور بڑی شدت سے ہوتی رہی ہے، جہاں امریکہ کی اپنے نیٹو اتحادی اور بھارت کے ساتھ مسلسل عسکری موجودگی، واشنگٹن کے لئے وبال جان بن گئی ہے، ہم تو اتحادی کے طور امریکہ کے ساتھ چلتے رہے اور اتنا بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھایا کہ پاکستان، دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا سب سے متاثرہ ملک بن گیا۔ افغانستان ہمارے مفرور دہشت گرد مجرموں کو اپنی سرزمین پرمکمل دیدہ دلیری سے پناہ دیے ہوئے ہے جو آئے دن خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے شہری زندگی پر دہشت گردانہ حملے کئے جارہے ہیں۔
امریکہ کو نہیں معلوم کہ وہ اس کے نتیجے میں سفارتی میدان میں کتنی شکستیں کھا چکا ہے، لیکن بدستور اس پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے وہ دوررس نتائج کے حوالے سے خسارے کی راہ پر ہے، جسے اس کے لئے ریورس کرنا محال ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد چین کے تیزی سے عالمی اقتصادی طاقت بننے کے چیلنج کو واشنگٹن قبول کرتے ہوئے سرد جنگ دور کی آئیڈیولوجیکل وار فیئر کی طرح اکنامک وار فیئر میں مقابل آتا لیکن اس کا الٹا رجحان جنگوں سے قومی مفادات کے حصول کی طرف ہوگیا، جو معدوم ہوتا جارہا ہے۔
عراق پر حملے سے قبل بش انتظامیہ کے بغداد پر وسیع تر تباہی پھیلانے والے اسلحے کے زیر زمین ڈھیر جمع کرنے کے الزامات مکمل طور پر غلط ثابت ہوئے۔ اقوام متحدہ کے انسپکٹر نے انسپکشن رپورٹ عراق پر حملے سے پہلے دے دی تھی، لیکن سابق صدر بش نے اسے اپنے دو عہد مکمل کرنے کے بعد وائٹ ہائوس چھوڑنے سے پہلے تسلیم کیا کہ ’’ہاں عراق پر حملے کی غلطی ہماری اپنی غلط اطلاع کے باعث ہوگئی‘‘ یہ کیسی اور کتنی ذمہ دار امریکی طاقت ہے جس نے لاکھوں معصوم شہریوں کی جانیں جانے اور ملک و تہذیب کی بربادی کے بعد تسلیم کیا کہ ’’غلطی‘‘ ہوگئی، جبکہ حملے کے چند ماہ بعد ’’وار فار آئل‘‘ کی چیخ پکار امریکہ سے اٹھی لیکن اس عوامی کہرام کا امریکی منتخب حکومتوں پر کوئی اثر نہ ہوا اور عراق میں ’’داعش‘‘ پیدا ہوگئی۔
آج امریکی صدر ٹرمپ تمام امریکی غلطیوں اور حال کے حقائق کو نظر انداز کر کے جس طرح اپنے اور بھارت کے مشترکہ مفادات کے حصول کے لئے پاکستان کو ڈرا دھمکا رہے ہیں، اس نے وہ ماحول پیدا کردیا ہے، جو پاکستان اور امریکہ کو تیزی سے دور لے جارہا ہے۔ جبکہ امریکہ سے آنے والے کتنے ہی عندیے واضح کرتے ہیں کہ پاکستان اور امریکی عوام کی سوچ میں حالات حاضرہ کے حوالے سے وہ فرق نہیں، جس کے برعکس ٹرمپ انتظامیہ انتہائی لاپرواہی اور غیر ذمے داری سے، پاکستان کو ڈرا دھمکا رہے اور اسکے خلاف منفی اقدامات کر رہے ہیں جو عقل سےبعید ہے۔ یہ ہم پاکستانیوں کا کہنا ہے نہ ہمیں کوئی اور ایسی خوش فہمی، خود امریکہ میں ایسی خارجہ پالیسی پر شدید تنقید جاری ہے۔ سپریم کورٹ ایران، عراق، شام،لیبیا اور صومالیہ کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے کی صدر ٹرمپ کی پابندی کو رد کر چکی ہے جبکہ ٹرمپ صاحب کے مجموعی صدارتی کردار پر نیویارک اپنی رپورٹ میں رقم طراز ہے کہ ٹرمپ ذہنی مریض ہیں، ان کی شخصیت خوش فہمی لالچی اور شیطانی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ’’قریبی ساتھیوں نے بھی تسلیم کیا ہے ان کی ذہنی حالت عام انسانوں جیسی نہیں اور ان کا علاج انہیں ذاتی طور پر جاننے والے ماہرین نفسیات ہی کرسکتے ہیں۔
ادھر امریکہ کی جارج میسن یونیورسٹی کے پروفیسر جیمروٹ کاکہنا ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر خطے میں امریکی مفادات حاصل نہیں ہوسکتے۔ ٹرمپ نے جنوبی ایشیا میں اہم پارٹنر شپ کو نقصان پہنچایا ہے۔ پروفیسر جیمز جو یونیورسٹی میں امیگریشن ریسرچ کے ڈائریکٹر ہیں کا کہنا ہے کہ اپنے لاابالی پن میں صدر ٹرمپ کو دوسروں کی پروا نہیں ہوتی۔ سفارتی امور کو ٹوئیٹر پر چلانا سفارتی آداب کے خلاف ہے۔ پاک امریکہ تعلقات کی کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیں۔
ادھر روس نے مختلف ملکوں میں امریکی مداخلت پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’دنیا کو باضابطہ طور پر امریکہ کے ہاتھ کاٹنا ہوں گے۔ روسی سینیٹ کی بین الاقوامی کمیٹی کے چیئرمین نے ایرانی مظاہروں میں امریکی کردار کا عندیہ دے کر اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

تازہ ترین