• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بے شک امریکی الزامات سخت تکلیف دہ ہیں اور حقیقت سے بھی تعلق نہیں رکھتے مگر اُن پر ہمارا اس طرح سیخ پا ہونادرست نہیں ۔بے شک پاکستان کچھ عرصہ پہلے حقانی نیٹ ورک کی تمام خفیہ پناہ گاہیں ختم کر چکا ہے ۔اس وقت مسئلہ صرف اتنا ہے کہ ہم اس کی تفصیلات دنیا کو فراہم کیوں نہیں کررہے ۔پاکستان پر دوسرا الزام افغان طالبان کی حمایت کا ہے ۔وہ بھی سراسر غلط ہے مگر الزامات کے غلط جوابات دے کر ہم اسے بھی صحیح ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔چونکہ کسی زمانے میں ہم افغان طالبان کے حامی ہوا کرتے تھے اس لئے اب بھی کوئی ہم پر شک کرتا ہے تو کر سکتا ہے یہ تو ہمارا کام ہے کہ ہم دنیا پر یہ ثابت کریں کہ وہ ماضی کا قصہ تھا ۔نائن الیون کے بعد پاکستان نے افغان طالبان کی کوئی حمایت نہیں کی ۔سچ یہی ہے کہ ہم دنیا کو درست اندازق میں یہ بات بتانے میں ناکام رہے ہیں ۔ یہ ناکامی ہماری وزارتِ خارجہ کی ہے اور ہماری اجتماعی لیڈر شپ کی ۔افسوس کہ ہم اپنا سچ دنیا کے سامنے نہیں لا سکے مگرابھی بھی کچھ نہیں گیا ۔ہم اب بھی چاہیں تو دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ یہ دونوں الزام غلط ہیں ۔پاکستان اس مقصد کےلئے اسلام آباد میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کر سکتا ہے جس میں تمام ممالک کے سفیروں کو بلا کر تفصیلی پریزنٹیشن دی جا سکتی ہے کہ یہ الزامات ہیں ۔خاص طور پر امریکی حکام کوبلا کر اس موضوع پر مذاکرات کئے جا سکتے ہیں ۔ان سے اِن الزامات کے ثبوت مانگے جا سکتے ہیں اور انہیں غلط ثابت کیا جاسکتا ہے ۔
مجھے امریکہ کے ساتھ جنگ کا کوئی خوف نہیں لیکن میں یہ نہیں چاہتا کہ پاکستان روایتی یا ایٹمی وارسے پہلے میڈیا وار میں شکست کھا جائے ۔ہمیں دنیا کو حقائق بتاتے ہوئے کوئی پریشانی تب ہو جب ہم افغان طالبان کی حمایت کر رہے ہوں جب ایسا نہیں ہے تو ہمیں دنیا کی غلط فہمی دور کرنے میں کیا مسئلہ ہے ۔دنیا بھر میں پاکستانی سفارت خانے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار پر سیمینار کر اسکتے ہیں ۔دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ ہم دہشت گردوں کے حمایتی نہیں بلکہ دہشت گردوں کے زخم خوردہ ہیں ۔ہمارے نزدیک طالبان ’’ظالمان‘‘ ہیں چاہے وہ پاکستانی ہوں یا افغانی ۔ہم ایک بے گناہ شخص کی موت کوپوری انسانیت کی موت سمجھتے ہیں ۔
ہمیں امریکی حکام کوبلانا چاہئے کہ آئیے اور ہمارے ساتھ مذاکرات کیجئے ہمیں بتائیے کہ پاکستان میں کہاں طالبان کی پناہ گاہیں موجود ہیں جن جگہوں کی امریکی حکام نشان دہی کریں وہاں صرف امریکیوں کو نہیں پوری دنیا کے میڈیا کو بلا لیا جائے کہ دیکھ لیجئے یہاں کچھ ایسا نہیں ۔اگر کہیں چھپ چھپا کر دو چار طالبان بھی موجود ہیں اورامریکہ کے علم میں ہےتو وہ پاکستان کو فوری طور پر معلومات فراہم کرے تاکہ ان کے خلاف کارروائی کی جا سکے ۔ایک جھوٹے الزام پر اپنی توپوں کا رخ امریکہ کے خلاف کرلینا قطعاً عقل مندی نہیں ۔ہمیں دنیا میں عزت کے ساتھ رہنے کے طریقے سیکھنے ہونگے ۔غیر ضروری جنگ و جدل سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہوگا ۔
اس وقت ناقابل اندیش حکمران بیک زبان ہو کر دعا مانگ رہے ہیں کہ ’’امریکی توپوں میں کیڑے پڑجائیں‘‘۔ افغانستان کے روس کے خلاف امریکی جہاد کرنے والےمجاہدین کہتے پھرتے ہیں کہ ’’ہم نے امریکہ کے خلاف جنگ جیت لی ہے ۔ جنرل حمید گل کی پیشین گوئی پوری ہو گئی ہے کہ جب تاریخ رقم ہوگی تو کہا جائے گا کہ آئی ایس آئی نے امریکہ کی مدد سے سوویت یونین کو افغانستان میں شکست سے دوچار کیا تاہم میں کہتا ہوں کہ آئی ایس آئی نے امریکہ کی مدد سے امریکہ ہی کو شکست دی ۔‘‘ ممکن ہے کہ افغانستان میں امریکہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہا ہو مگر جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بیس بیس گھنٹوں کا طویل ہوائی سفر کرکے امریکی فوج افغانستان میں صرف طالبان کے خاتمہ کےلئے آئی اور کھربوں ڈالر خرچ کر کے سولہ سال سےاِسی امید پر جنگ لڑ رہی کہ آخر ایک دن ہم طالبان کو شکست سےدو چار کرلیں گے تو وہ حقائق سے آنکھیں چرا رہے ہیں ۔امریکی فوجوں کے افغانستان میں مسلسل موجود رہنے کی وجوہات کچھ اور ہیں ۔مگر کیا کیا جائے کہ ہمارےوزیر خارجہ خواجہ آصف نے بھی یہی کہا ہے کہ’’ امریکہ ہمارے خلاف اپنے تمام ہتھیار استعمال کرنا چاہتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری نہیں تھی، ہم نے جعلی جنگ لڑی، یہ جنگ امریکہ کی تھی، جب بھی مشکل وقت آیا امریکہ نے ہمیشہ ہمیں دھوکہ دیا، امریکہ کا کوئی بھی ایسا مطالبہ نہیں ہے جو ہم نے پورا نہ کیا ہوا، امریکہ دنیا کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ انہیںجو کامیابیاں نہیں ملیں وہ پاکستان کی وجہ سے ہے، امریکہ اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانا چاہتا ہے ‘‘
سوال پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کیسے ہماری نہیں تھی ۔ کیا ہم بحیثیت مسلمان مذہب کے نام پر دنیا میں کسی شخص کوبے گناہ قتل کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔ پاک فوج نے پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جتنی کارروائیاں کی ہیں وہ کیسے امریکی جنگ بن گئی ۔دہشت گردوں نے تو ہمارے بچوں کو بھی معاف نہیں کیا ۔ اس جنگ کو امریکی جہاد کہہ کر وزیر خارجہ نے ہمارے ساٹھ ہزار سے زائد شہیدوں کے خون سے مذاق کیا ہے ۔ہاں وہ ضرور امریکی جہاد تھا جو ہم نے جنرل ضیا الحق کے دور میں افغانستان کے اندر جا کر روس کے خلاف کیا تھا ۔جہاں تک یہ بات ہے کہ جب بھی مشکل آیا امریکہ نے ہمیں دھوکہ دیا ممکن ہے یہ سچ ہو مگر کسی حد تک اس کے ذمہ دار ہم خود بھی ہیں ۔اس میں دو باتیں ہیں پہلی یہ کہ کسی کے ساتھ حد سے زیادہ توقعات وابستہ کرنابے وقوفی ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جا سکتا ۔
پاکستان اگر امریکہ سے مراسم ختم کرنے میں اپنی بہتری سمجھتا ہے تو اس کا بھی طریقہ ہے ۔پاکستان سب سے پہلے دنیا کے سامنے امریکی الزامات کو بے بنیاد ثابت کرے ۔امریکہ کو بھی قائل کرے جو کچھ وہ کہہ رہا ہےوہ درست نہیں اور اس کے بعد امریکہ کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کرے ۔
تعارف روگ بن جائے تو اس کا بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کا توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا ہو ناممکن
اسے ایک خوبصورت موڑ دیکر چھوڑنا اچھا.

تازہ ترین