• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر خارجہ خواجہ آصف:افغان پناہ گزینوں کو باوقار طریقے سے واپس لے جایا جائے، ہماری توقعات سے بڑھ کر خواجہ آصف امور خارجہ کو حالات کے تناظر میں نمٹا رہے ہیں، قوم ایسے ہی چاہتی تھی کہ امریکہ کو پاکستان کی غیرت مندانہ خارجہ پالیسی کے ذریعے نَپ کے رکھا جائے۔ ٹرمپ جس طرح ٹپ ٹپ پڑ رہے ہیں اس کے جواب میں یہ کہنا برمحل بھی ہے اور ہمارے امن کی ضرورت بھی، ماضی میں بیجا فیاضی کے جوش اور امریکہ کی یاری میں ہم سے جو غلطیاں ہوئیں ان کا مداوا کرنے کی یہ شروعات ہو گی براہ کرم اب افغان مہاجرین کو واپس ان کے وطن لے جایا جائے کیونکہ دہشت گرد ان کے رشتہ دار ہیں اور اسی بنیاد پر اپنی روایتی مہمان نوازی کے تحت وہ نہ صرف رشتہ دار دہشت گردوں کو سہولت دیتے ہیں بلکہ دہشت گردوں کے دہشت گرد یا روں کے بھی ناز اٹھاتے ہیں، اور اس سلسلے میں امریکی ڈالر بھی مؤثر کردار ادا کرتے ہیں، ہماری اپنی آبادی اتنی زیادہ ہے کہ اپنی پوری نہیں پڑتی کسی لاکھوں کے مجمع کو کیسے اپنی معیشت پر سوار کر لیں، اور مہمانداری بھی چند دنوں کی ہوا کرتی ہے یہ تو نہیں کہ مہمان یہاں ہمارے گھونسلوں میں انڈے بچے بھی دینے لگیں، پاکستان کے وزیر خارجہ اس نکتے پر ڈٹے رہیں، افغان مہاجرین کے جانے سے ہمارے لئے امن اور معیشت کے حوالے سے بہت مثبت ماحول پیدا ہو گا، ٹرمپ جو دہشت گردوں کا گاڈ فادر ہے اپنی فیملی اور اس کے لواحقین کو سنبھالے، ہمارے لئے ٹرمپ نے امریکہ جیسے سانڈ کی یاری سے نجات کا موقع خود ہی پیدا کر دیا ہے، لیکن مسٹر ٹرمپ یاد رکھیں کہ ایک دن وہ ہم سے دوستی کی بھیک مانگیں گے اور ہمارا جواب نو مور ہو گا، کیونکہ انہوں نے عالمی سطح پر پاکستان کی جتنی ہتک ہو سکتی تھی کی، اب ڈو مور ہےنہ نو مور، وہ، افغان مہاجرین، دہشت گرد، بھارتی گماشتے اپنے گھر خوش ہم اپنے گھر خوش، بھارت کو امریکہ بیوقوف بنا رہا ہے وہ ضرور بنے لیکن اتنا یاد رکھے کہ ہمارا کمبل نہ چھیڑے ورنہ پھر وہ چھوڑے گا، کمبل نہیں چھوڑے گا۔
٭٭٭٭
سن بابا سن عوام کی سن
کئی شہروں میں بجلی و گیس کی طویل لوڈ شیڈنگ جاری صارفین پریشان، حکمرانی روز بروز، حکومت رانی بنتی جا رہی ہے اب اس کے نخرے کون اٹھائے اور کب تک اٹھائے، گرمیوں میں بجلی کی ضرورت مگر ندارد سردیوں میں گیس کی حاجت مگر گیس تو کجا اس کی شوں شوں بھی نہیں، یہ کیسی ستم ظریفی ہے، بلکہ ستم کی بھی گویا شاعری کہ ہم برا مناتے ہیں نہ مطالبہ کرتے ہیں، بس بل پر بل ادا کرتے اور پریشان ہوتے جاتے ہیں، عوام کی اس برداشت اور شرافت کی حکومت داد ہی دیدے اگر بجلی گیس حسب ضرورت نہیں دے سکتی، حکیم صاحب نے مریض سے پوچھا گیس ہے؟ مریض نے کہا ہمارے گیس آتی ہی نہیں، یہ ایک انتہا ہے کہ مرض بھول گئے گیس یاد رہی، اور پیٹ کی گیس پر چولہے کی غیر موجود گیس غالب آ گئی، وزیراعظم نے گیس کے کتنے ہی معاہدوں پر دستخط کر دیئے ہیں مگر؎
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر ’’عہد‘‘ کا
پائپ میں کب گیس آئے یہ ہمیں معلوم نہیں
خالی خولی باتوں سے تو سیاسی ساکھ، مقبولیت گھٹتی ہے، اسے بڑھانے کا خیال ہی کر لیا جائے؎
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
٭٭٭٭
پرانے جو بادہ کش تھے
کراچی میں ممتاز شاعر رسا چغتائی 90برس کی عمر میں انتقال کر گئے، مگر ان کا یہ شعر کبھی انتقال نہیں کرے گا
تیرے آنے کا انتظار رہا
عمر بھر موسم بہار رہا
انہوں نے لمبی عمر پائی، اللہ کے پاس چلے گئے، ان کا انتظار ختم ہوا مگر انہوں نے اس انتظار کو عبادت بنا دیا۔ حق تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، اچھے عظیم شاعر اٹھتے جاتے ہیں، اب نئی نسل میں موجود شعراء اردو شاعری کو اور اونچا لے جائیں، کیونکہ ان میں بھی شعر گوئی کا نیا جوہر جو ان ہے، خواتین شاعرات بھی اور آگے بڑھیں، حسن جب شاعری کرے تو شاعری پر شاعری رونما ہوتی ہے، زیب النساء مخفیؔ سے لے کر پروین شاکر تک کی شاعری، جمال شعر کے ساتھ معنیٰ خیز بھی ہے، نئے شاعر مطالعے کی وسعت کے ساتھ علم عروض پر بھی توجہ دیں تو شعر میں نیا نکھار پیدا ہوتا ہے، آواز کتنی ہی اچھی ہو مگر موسیقی کی گرامر نہ آتی ہو تو کوئی بڑا گائیک نہیں بن سکتا۔ ہم اکثر یہ انداز شکوہ لطیف کہتے رہتے ہیں کہ روایتی اور طرحی مشاعرے اب نہ ہونے کے برابر ہیں، شعر کا کوئی عہد کوئی ماحول نہیں ہوتا، یہ زمان و مکان سے مبرا ہوتا ہے، اچھا شعر پرانا ہوتا ہے نہ نیا بس وہ ایک حسین بامعنیٰ تناسب فکر ہوتا ہے جو انسانی سوچ میں ایسے شگوفے کھلا دیتا ہے کہ محفلیں باغ و بہار بنا دیتا ہے، اب میر جتنے پرانے ہوتے جاتے ہیں ان کا یہ شعر نیا ہوتا جاتا ہے
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
تیری آنکھوں کی نیم خوابی سے
اور اقبال کا یہ شعر؎
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
٭٭٭٭
وہ باتیں تری وہ فسانے ترے!
....Oپاکستان:امریکہ نقصان اٹھائے گا، پیسے کے لئے نہیں عالمی فائدے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی،
اپنے فائدے کے لئے یہ جنگ لڑنا تھی، کیا فائدہ کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے۔
....Oعمران خان کی اپنی روحانی رہنما سے تیسری خفیہ شادی؟
گویا اب وہ ’’ان‘‘ کے مرشد بن گئے؟
....Oزرداری:نواز شریف نظریاتی نہیں نفسیاتی ہیں۔
مگر کیا؟ یہ تو بتایا نہیں، کیونکہ ان دنوں نظریاتی نفسیاتی مریض عام ہیں، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔
....Oبلاول:پی ٹی آئی حکومت آئی تو ہم دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے؟
پھر پی پی مرکز کے باہر ’’کلوزڈ‘‘ کی تختی لگا لینا۔

تازہ ترین