• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خدا خدا کر کے تعلیم کے ساتھ تربیت اور کردارسازی کو نصاب میں شامل کرنے کا خیال وفاقی وزارت تعلیم کو آیا، اس پروجیکٹ پر بڑی سوچ بچار ہوئی، کافی کام ہوا، بہت سوں سے مشاورت ہوئی اور پھر فیصلہ یہ ہوا کہ نئے نصاب کو آئندہ تعلیمی سال سے پہلے مرحلہ میں وفاق سے تعلق رکھنے والے اسکولوں میں پرائمری تک کے بچوں کے لیے رائج کر دیا جائے گا۔ لیکن اب نہیں معلوم کہ ایسا ممکن ہو گا بھی کہ نہیں!!! اس کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ عدالتی اسٹے آرڈر ہے!!! وزارت تعلیم کے ذرائع کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بڑی محنت، لگن اور وسیع مشاورت کے بعد نئی نسل کی تربیت کے لیے اقدار اور کردار سازی کے موضوعات کو تعلیمی نصاب میں اس طرح شامل کرنے کا فیصلہ ہو ا کہ بچوں کو عملی طور پر اچھا مسلمان اور اچھا انسان بننے میں مدد کی جائےگی۔ تربیت اور کردار سازی کے لیے اسلامی اصولوں اور اقدار کوبنیادی حیثیت حاصل ہو گی جبکہ کرپشن، ماحولیات، برداشت اور دوسرے کئی عالمی موضوعات کو بھی نئے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔ رٹے کی بجائے پرائمری تک کے بچوں کو activity based اور project based learning دی جائے گی۔ذرائع کے مطابق دوسروں کے علاوہ سات وفاقی وزارتوں کی مشاورت سے اس نصاب کو تیار کیا گیا اور فیصلہ ہو گیا کہ 2018 میں شروع ہونے والے تعلیمی سال میںپہلے مرحلہ میں تربیت اور کردار سازی پر مشتمل اس نصاب کو وفاق کےا سکولوں میں پرائمری لیول تک لاگو کر دیا جائے گا۔ دوسرے مرحلہ میں تعلیم و تربیت کے اس پروگرام کو میٹرک لیول تک لے جانے کا فیصلہ ہوا۔نئے نصاب کی کتب کی اشاعت کے لیے اشتہار بھی دے دیئے گئے تاکہ 15 فروری 2018 تک کتابوں کی اشاعت مکمل ہوجائے اور نئے تعلیمی سال سے قبل مارکیٹ میں نیا نصاب موجود ہو۔ لیکن اس دوران چند writers اسلام آباد ہائی کورٹ ایک پٹیشن لے کر پہنچ گئے جس کے نتیجے میں عدالت نے حکومت کو باقی کام تو جاری رکھنے کی اجازت دے دی لیکن نئے نصاب کی کتب کی اشاعت کے لیے کنٹریکٹ ایوارڈ کرنے سے روک دیا۔ یہ اسٹے آرڈر گزشتہ سال نومبر کے پہلے ہفتہ میں جاری ہوا اور اب وفاقی وزارت تعلیم اس پریشانی میں مبتلا ہے کہ کب عدالت اس کیس کو سنے گی تا کہ نئے نصاب کی کتب کی وقت پراشاعت کی جاسکےاور اگر ایسا نہ ہوا تو 2018 میں شروع ہونے والے نئے تعلیمی سال کے لیے تربیت اور کردار سازی پر مشتمل نصاب نہیں پڑھایا جا سکتا۔ وزارت تعلیم کے ذرائع کے مطابق حکومت اس کیس کو جلد نمٹانے کے لیے عدالت کو ایک دو دن میں درخواست دے گی کیونکہ مشکل یہ ہے کہ اگر دیر ہو گئی تو ساری محنت ضائع ہو جائے گی۔ حکومت نئے نصاب کی کتب کی اشاعت کو فروری کے وسط تک مکمل کرنا چاہتی ہے جو اُسی صورت میں ممکن ہے کہ عدالت فوری اس معاملہ کو نمٹائے۔ ذرائع کے مطابق جن رائٹرز نے عدالت میں اس کام کو روکنے کے لیے پٹیشن دائر کی اُن کا اس نئے نصاب سے کوئی لینا دینا نہیں۔ وزارت کی خواہش یہ ہے کہ عدالت اس کیس کو معمول کے کیسوں کی طرح نہ لٹکائے بلکہ فوری سن کر جو فیصلہ مرضی آئے کر لے۔ اسٹے آرڈر اگر ایسے ہی چلتا رہا تو پھر جو initiative بڑی مشکل سے اور محنت سے لیا گیا اُس کو شدید نقصان پہنچے گا۔ اگر اس سال تعلیم تربیت اور کردار سازی کو تعلیمی نصاب میں شامل نہ کیا گیا تو پھر اگلے سال کیا معلوم کیا حالات ہوں گے، کس کی حکومت ہو گی، کس کی کیا ترجیحات ہوں گی؟محترم چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ جہاں عمومی طور پر مہینوں، سالوں نہ ختم ہونے والے عدالتی اسٹے آرڈرز کے عذاب سے عوام کی جان چھڑوانے کے لیے کوئی تدبیر کریں بلکہ عدالتوں کی اس مخصوص زیادتی کے خلاف ایک سو موٹو ایکشن لیں وہیں اس کیس کو جلد نمٹانے کے لیے ضروری اقدامات کریںتاکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت اور کردار سازی کا کام ہماری تعلیمی اداروں میں جلد از جلد شروع کیا جا سکے۔ بلکہ میری تو چیف جسٹس صاحب سے یہ بھی درخواست ہو گی کہ تربیت اور کردار سازی کو صرف وفاق ہی نہیں بلکہ پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں میں تعلیم کا بنیادی جز بنانے کے احکامات جاری کریں۔ اس سے نہ صرف ہماری نسلیں بلکہ ہمارا مستقبل بھی محفوظ ہو گا۔

تازہ ترین