• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے کی ضرورت ہیں اور رہیں گے۔
دنیا بغیر سرحدوں والی ہو یا جنوبی ایشیا کی شعلہ خیز سرحدوں والی۔ پاکستان اور امریکہ کا ایک دوسرے کے بغیر گزارا نہیں ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ امریکہ نے اپنے قومی مفادات ایک ڈیڑھ صدی سے طے کر رکھے ہیں اس نے ڈالر کی سلطنت قائم کرلی ہے۔ اپنے مفادات کے لئے وہ سب کچھ کر گزرتا ہے۔ طاقت کے زور پر۔ ڈالر کے ذریعے۔ سفارت کاری سے۔ پاکستان آج تک اپنے قومی مفادات کا تعین نہیں کرسکا ہے۔ سرد جنگ کا دور ہو یا نئے عالمی نظام یعنی یک طاقتی دنیا۔ نقصان پاکستان کا ہی ہوتا ہے۔
امریکہ دھمکیاں پہلے بھی دیتا رہا ہے۔ فرق یہ ہے کہ اس بار دھمکی ٹویٹ پر آئی ہے۔ امریکہ نے ہمارے حکمرانوں کو عبرت ناک مثال بھی بنایا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کے حکمراں طبقوں نے کبھی امریکہ کے متبادل پر غور نہیں کیا ہے۔ ایک ہفتہ ہو چلا ہے۔ بیانات کے میزائل داغے جارہے ہیں۔ کوئی جامع اور ہمہ پہلو حکمتِ عملی مرتب نہیں کی جارہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں کا لہجہ وہی ہے جو وہ عمران خان کے خلاف اختیار کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی ٹرمپ کو میاں صاحب سمجھ رہی ہے۔ مذہبی جماعتیں ٹرمپ کو اسی طرح جواب دے رہی ہیں۔ جیسے ایک فرقہ دوسرے فرقے کے خلاف بیان جاری کرتا ہے۔ عسکری قیادت کے الفاظ کا وہی ترکش ہے جہاں سے بھارت کے خلاف تیر نکالے جاتے ہیں۔ بعض تقریریں ایسے قبیلوں کی لگتی ہیں۔ جنہیں گزشتہ صدیاں جاتے ہوئے ساتھ لے جانا بھول گئیں۔
ان سب ’’زبانیوں‘‘ کا ماحصل یہی ہے کہ امریکہ کی چاکری سے ہر گز انکار نہیں ہے۔ لیکن ہماری 70 سالہ اور خاص طور پر 18 سالہ خدمات پر شاباش تو دے۔
یہ سارے بیانیے امریکی حکومت کو خاموش کرنے کے لئے نہیں۔ بلکہ پاکستان کے عوام کو مطمئن اور مشتعل رکھنے کے لئے ہیں۔ سپر طاقت کے جواب میں جو بین الاقوامی تناظر۔ منطقی استدلال، سفارتی اصلاحات استعمال ہونی چاہئیں وہ نظر نہیں آئیں۔
ہمارے بیانات وقتی ہوتے ہیں جبکہ امریکی انتظامیہ پاکستان پر برسوں سے یہ الزامات لگاتی آرہی ہے ۔ صدر بدلتے رہے ہیں۔ ہم نے ان الزامات کو اپنے عمل سے غلط ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی ہے یہ پاکستان کے عوام کا معاملہ ہے ہی نہیں۔ ان تک امریکی، چینی یا کسی بھی امداد کے ثمرات نہیں پہنچے ہیں۔ امداد بند ہو یا جاری۔ ان کی صحت متاثر نہیں ہوتی ہے۔ یہ حکومت۔ فوج اور اشرافیہ کا مسئلہ ہے۔ ان کی زندگی امریکہ کے بغیر مشکل سے گزرتی ہے۔ وہ امریکہ کے ناز ہر صورت برداشت کرتے ہیں۔ لیکن ہوتا کیا ہے۔
عمر تو کاٹ دی اس شوخ کی دلداری میں
وقت آیا تو شمارے گئے اغیار میں ہم
سرد جنگ کے طویل اور کانٹوں بھرے برسوں میں پاکستان تھا جو امریکہ کا جائز و ناجائز ساتھ دیتا رہا۔ حتیٰ کہ اس کا سب سے بڑا دشمن سوویت یونین منہدم ہوگیا۔ تو امریکہ نے پاکستان کے سب سے بڑے دشمن بھارت سے عشق شروع کردیا۔ یہ تو نائن الیون نے امریکہ کو پھر ہماری دوستی پر مجبور کردیا۔ امریکہ کےلئے پاکستان کو اپنے دوستوں کی فہرست سے خارج کرنا آسان نہیں ہے۔
طبل صلح بجانے پہ ہی مجبور ہے تو
ایسے پیوست ہوئے ہیں تری تلوار میں ہم
2013ء میں شائع ہونے والی ڈبنیل مارکی کی کتاب No Exit From Pakistan (پاکستان سے راہ مفر نہیں) یہی رونا روتی ہے۔ ابتدا میں ہی پاکستان کو ایک اندھا کنواں قرار دیا گیا ہے ملاحظہ کیجیے ’’پاکستان پر فوجی اور سول امداد میں اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد اکثر نمائندگان اور سینیٹرز جس نتیجے پر پہنچے ہیں۔ اس کا اظہار نیو یارک سے ڈیمو کریٹک کانگریس رکن گیری ایکرمین نے یوں کیا: امریکی امداد کے لئے پاکستان ایک ایسا اندھا کنواں ہے جو ہمارے ٹیکس کے ڈالر، ہمارے سفارت کار،ہمارے امدادی کارکن، ہماری امیدیں،ہماری دعائیں سب کچھ نگلے جارہا ہے۔ اس میں سے کوئی اچھائی باہر نہیں نکلتی ہے۔‘‘
یہ تاثر ہے ان منتخب امریکی نمائندوں کا۔ جو حقیقتاً عوام کے چنے ہوئے ہوتے ہیں۔ گویا یہی سوچ امریکی عوام کی بھی ہے۔ امریکی عوام کو کون بتائے کہ اس کے ذمہ دار پاکستانی عوام نہیں ہیں۔ ان تک تو یہ ڈالر کیا سینیٹ بھی نہیں پہنچے ہیں۔ ان کو تو یہ بھی علم نہیں ہے کہ ان کے حکمرانوں نے امریکہ سے کونسے وعدے کئے تھے۔ جن کا صدر ٹرمپ پورے نہ کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ امریکی عوام اپنی انتظامیہ سے پوچھیں کہ وہ ان فوجی اور سول حکمرانوں پر انعامات و کرامات کی بارشیں کیوں کرتا رہا۔ جو عوام کے نمائندے نہیں تھے۔ فوجی حکمرانوں کے آمرانہ رویوں، اظہار خیال پر پابندیوں، حقوق انسانی کی پامالیوں کو کیوں برداشت کرتا رہا۔ سول حکمرانوں کی اربوں روپے کی کرپشن کے باوجود ان کا ساتھ کیوں دیتا رہا۔ المیہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عام پاکستانیوں کے بیٹے فوجی اور سول دونوں اس کا ہدف بن رہے ہیں۔ ساری محاذ آرائی کے باوجود پاکستان کے سارے علاقوں کے نوجوانوں میں اپنے ظاہری اور خفیہ دشمن سے مقابلے میں جان دینے کا جذبہ سرد نہیں ہورہا ہے۔ یہ شہدا اپنے وطن اور اپنے دین کے لئے سر کی بازی لگاتے ہیں۔ انہیں امریکی سیکورٹی فنڈز کا لالچ نہیں ہوتا۔
اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کا تقاضا یہ ہے کہ امریکہ دشمن بیانات، بڑھکیں اور کوسنے دینے کی بجائے امریکہ سے تعلقات کا ہر پہلو سے جائزہ لیا جائے اور یہ طے کیا جائے کہ آئندہ پندرہ بیس برس ہم اپنے لئے کیسا معاشرہ چاہتے ہیں۔ بارہویں تیرہویں صدی کا قبائلی یا اکیسویں صدی کا عالمگیر معاشرہ۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف امریکہ کی جنگ ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی اجازت ہمارا مذہب دیتا ہے نہ آئین۔ یہ انتہا پسندی ہماری ان غفلتوں اور کوتاہیوں کا نتیجہ ہے جو ہم نے اپنے قومی مفادات کا تعین کرنے میں برتی ہے۔ فاٹا۔ بلوچستان اور گلگت بلتستان میں چنگاریاں کب سے سلگ رہی ہیں۔ انہیں بجھانے کے لئے ہم نے کچھ نہ کیا۔ سندھ۔ پنجاب کے اکثر حصوں میں بھی محرومیاں ہیں۔ لاپتہ افراد غلامی کے دور کا احساس دلاتے ہیں۔ان ناانصافیوں اور میرٹ پر آگے نہ بڑھ سکنے کے باعث نوجوان انتہا پسند مذہبی۔ لسانی اور علاقائی تنظیموں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں جو نہ صرف ان کو معاوضہ دیتی ہیں ان کے گھروں کی کفالت بھی کرتی ہیں۔
امریکہ سے ہمیں صرف فوجی نہیں تعلیم،سماجی امور، تربیت،پانی اور دوسرے شعبوں میں بھی امداد مل رہی ہے یہ پیسے کہاں جاتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنا ہے کہ سی پیک کہاں کہاں چبھ رہا ہے۔ چین کا بڑھتا ہوا مالی دبائو بھی امریکہ کو چیخنے پر مجبور کررہا ہے۔ یہ خوف بھی ہے کہ چین ڈالر کی سلطنت ختم کرکے یوآن کو عالمی کرنسی نہ بنادے۔ چین کے محفوظ زرمبادلہ کے ذخائر امریکہ سے کہیں زیادہ ہوچکے ہیں۔ امریکہ کے الزامات کے جواب میں حکمت عملی مرتب کرتے وقت یہ معاشی پہلو بھی زیر غور رہنا چاہئے۔ یہ بھی کہ کیا ہم چینی کرنسی کو ڈالر کی جگہ زرمبادلہ ماننے کو تیار ہیں۔

تازہ ترین