• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ 3 سالوں میں پاکستان کی ایکسپورٹس 25 ارب ڈالر سے کم ہوکر 20 ارب ڈالر تک آگئی ہیں جس کی اصل وجوہات پیداواری لاگت میں اضافہ، روپے کی غیر حقیقی قیمت، ایکسپورٹرز کے 200 ارب روپے کے سیلز اور انکم ٹیکس ریفنڈز کی گزشتہ تین سالوں سے عدم ادائیگی اور خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بجلی و گیس کے زیادہ مہنگے نرخ ہیں جس نے پاکستانی مصنوعات کو بین الاقوامی مارکیٹ میں غیر مقابلاتی بنادیا ہے۔ نتیجتاً 100 سے زائد ٹیکسٹائل ملز بند ہوچکے ہیں جبکہ اسٹیٹ بینک کے مطابق 25فیصد ٹیکسٹائل صنعتیں بینکوں کی نادہندہ ہوچکی ہیں۔ اس کے برعکس بنگلہ دیش کی ایکسپورٹس ہم سے آدھی اجرتوں، ایک تہائی گیس کے نرخ اور سستی بجلی کے باعث 36 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں جس میں زیادہ تر ٹیکسٹائل مصنوعات ہیں جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ بزنس کمیونٹی نے یہ مسائل وزیراعظم اور وزیر خزانہ کو متعدد بار پیش کئے اور بتایا کہ مذکورہ وجوہات اور ایکسپورٹس پر کئی اِن ڈائریکٹ ٹیکسز کی وجہ سے ہماری پیداواری لاگت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے ہماری ایکسپورٹس متاثر ہوئی ہیں جبکہ دوسری طرف امپورٹس بڑھ کر 52 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں اور امید کی جارہی ہے کہ جون 2018ء تک یہ بڑھ کر 60 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں جبکہ ایکسپورٹس گرکر 22 سے 23 ارب ڈالر تک رہ گئی ہیں جس کی وجہ سے رواں مالی سال تقریباً 38 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ متوقع ہے جو ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور پاکستانی روپے پر دبائو کا باعث ہے۔ حکومت نے حال ہی میں پرتعیش اشیاء کی امپورٹس کی حوصلہ شکنی کیلئے 5 سے 80فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی نافذ کی ہے لیکن ان اشیا میں ایکسپورٹس کیلئے امپورٹ کئے جانے والے خام مال اور کیمیکلز بھی شامل ہیں جن کی درآمدی قیمت میں اضافہ ہوگا۔
زرمبادلہ اور روپے کی قدر پر دبائو کے نتیجے میں 8سے 12 دسمبر کو ڈالر انٹر بینک مارکیٹ میں 112 روپے کی اونچی ترین قیمت پر پہنچ گیا۔ ڈالر جو 104 روپے کی قدر پر کافی عرصے رکھا گیا، روپے کی تقریباً 5 فیصد ڈی ویلیو ایشن کے باعث اب انٹربینک میں 110 اور 111 روپے کے درمیان فروخت ہورہا ہے۔آئی ایم ایف نے بھی اپنی رپورٹ میں پاکستانی روپے کی قدر میں 10 سے 15 فیصد کمی کرنے پر زور دیا تھا۔ میں روپے کی ڈی ویلیو ایشن کے خلاف ہوں کیونکہ ماضی میں ایک دم ڈی ویلیو ایشن کرنے کے اچھے اثرات دیکھنے میں نہیں آئے۔ جب بھی پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی گئی، ایکسپورٹرز نے اِس کا فائدہ بیرونی خریداروں کو ڈسکائونٹ کی شکل میں منتقل کردیا اور ملکی ایکسپورٹس میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ ایکسپورٹس میں اضافے کیلئے ڈی ویلیوایشن کے بجائے حکومت کو ایکسپورٹرز کی مقابلاتی سکت برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ڈی ویلیو ایشن سے بیرونی قرضے مزید بڑھ جائیں گے۔ مثلاً پاکستانی روپے کی قدر میں صرف 5 روپے کم کرنے سے راتوں رات ہمارے بیرونی قرضوں میں 425 ارب روپے کا اضافہ ہوجائے گا بلکہ ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجہ سے امپورٹ کی گئیں پیٹرولیم مصنوعات اور خام مال کی قیمتیں بڑھ جائیں گی جو افراط زر میں اضافے کا سبب بنیں گی اور ملک میں مہنگائی کا طوفان کھڑا ہوسکتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ روپے کی قدر کے تعین کو مارکیٹ قوتوں پر چھوڑ دیا جائے جو ہماری ایکسپورٹ میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔ سابق وزیر خزانہ کی بیرون ملک روانگی کے باعث وزارت خزانہ تقریباً 4 مہینے بغیر وزیر خزانہ کے رہی جس کی وجہ سے ایکسپورٹرز کیلئے وزیراعظم کا 180 ارب روپے کا ٹریڈ کے فروغ کیلئےدیئےگئے پیکیج پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔
حکومت کو 2022ء تک تقریباً 5 ارب ڈالر سالانہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے لیکن وزارت خزانہ کے ایک بیان کے مطابق حکومت کو 2017-18ء میں 6 ارب ڈالر قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہے جس میں سے 2.4 ارب ڈالر کی ادائیگی کردی گئی ہے جبکہ آئندہ 6 مہینے میں 3.6 ارب ڈالر کی مزید ادائیگی کرنا باقی ہے جس کیلئے حکومت نے حال ہی میں ڈھائی ارب ڈالر کے5 اور 10 سالہ سکوک اور یورو بانڈز کا اجرا کیا ہے جبکہ مارچ 2018ء تک مزید ایک ارب ڈالر کے بانڈز کے اجراء کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ ملکی بیرونی ذخائر کو مستحکم رکھا جاسکے۔ امپورٹ کی موجودہ صورتحال اور سی پیک منصوبوں کیلئے پلانٹ اور مشینری کی امپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے ملکی امپورٹس میں اضافہ متوقع ہے جبکہ وزیر خزانہ اور وزیراعظم کے ایکسپورٹرز کو کئے ہوئے وعدوں پر فوری عملدرآمد سے ملکی ایکسپورٹس میں 10 سے 15 فیصد اضافہ متوقع ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے کیلئے ملکی ایکسپورٹس میں اضافے کے علاوہ حکومت کو بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں اضافے، سی پیک منصوبوں میں بیرونی سرمایہ کاری اور پاکستانیوں کے بیرون ملک اثاثوں کو ظاہر کرنے کی اسکیم سے 4 سے 5 ارب ڈالر حاصل کرکے وقتی طور پر بیرونی ذخائر اور روپے کی قیمت پر دبائو کو کم کیا جاسکتا ہے لیکن طویل المیعاد حکمت عملی کے تحت ایکسپورٹس میں اضافے کیلئے ہمیں اپنی پیداواری لاگت کو کم کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں امپورٹ متبادل پر بھی کام کرنا ہوگا۔
حکومت نے تین سالہ پالیسی فریم ورک حکمت عملی کے تحت 2017-18ء میں 35 ارب ڈالر سالانہ کا ایکسپورٹ ہدف مقرر کیا تھا لیکن بدقسمتی سے ملکی ایکسپورٹس میں اضافے کے بجائے کمی ہوئی ہے۔ پاکستان کی تجارت امریکہ اور یورپ کے گرد گھومتی ہے۔ ہم زیادہ تر روایتی 10مصنوعات 10 مارکیٹوں کو ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ میں نے اس کے ساتھ غیر روایتی مصنوعات غیر روایتی مارکیٹوں کو ایکسپورٹ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ شوکت عزیز کے دور میں ہم نے Look Africa کی پالیسی کے تحت افریقی ممالک میں تجارت بڑھانے کی حکمت عملی کا اعلان کیا تھا لیکن 9 سال گزرنے کے باوجود افریقی ممالک سے تجارت بڑھانے کیلئے کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی۔ افریقہ دنیا کا دوسرا بڑا براعظم ہے جس میں 54 ممالک ہیں جن کی مجموعی جی ڈی پی 2.2 ٹریلین ڈالر ہے، ان ممالک کی اوسط جی ڈی پی گروتھ 4.5 فیصد ہے۔ براعظم افریقہ کی آبادی 1.2 ارب نفوس پر مشتمل ہے اور یہ دنیا میں دوسرے نمبر پر آبادی رکھنے والا خطہ ہے۔او آئی سی ممالک کے 57 ممالک میں سے 27 افریقی ممالک ہیں۔ افریقہ کے پوٹینشل کے مدنظر امریکہ، چین، یورپ اور دیگر ممالک مستقبل میں اس خطے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ افریقی ممالک کی مجموعی تجارت 3 ٹریلین ڈالر ہے جس میں پاکستان کی افریقی ممالک کو تجارت صرف 3 بلین ڈالر یعنی 0.3 فیصد ہے۔ افریقہ کے 54 ممالک میں سے صرف 15 ممالک جن میں مصر، لیبیا، نائیجریا، جنوبی افریقہ، سوڈان، تنزانیہ، ماریشس، الیجریا، سینگال، کینیا، نائیجیر، ایتھوپیا، تیونس، مراکش اور زمبابوے شامل ہیں، میں پاکستانی سفارتخانے قائم ہیں اور صرف 4 ممالک کینیا، جنوبی افریقہ، نائیجریا اور مراکش میں کمرشل قونصلرز تعینات ہیں۔ پاکستان کے 13 افریقی ممالک کے مابین مشترکہ وزارتی کمیشن (JMC) قائم ہے لیکن ان کے اجلاس غیر معینہ مدت بعد ہوتے ہیں۔ پاک مراکش مشترکہ وزارتی کمیشن کا اجلاس 9 سال پہلے رباط میں ہوا تھا۔مجھے خوشی ہے کہ ایکسپو 2017ء میں وزارت تجارت نے پاکستان اور افریقی ممالک کے مابین تجارت بڑھانے کیلئے ایک نئی پالیسی اور خصوصی مراعات کا اعلان کیا ہے جن میں 10بڑے افریقی ممالک نائیجریا، کینیا، جنوبی افریقہ، مراکش، سوڈان، الیجریا، تیونس، مصر، تنزانیہ، ماریشس اور ایتھوپیا شامل ہیں جن کی ایکسپورٹ پر 2 فیصد اضاٹی ریبیٹ بھی دیا جائے گا۔
کراچی کے بزنس مین ڈاکٹر مفتاح اسماعیل وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ و معاشی امور کی تعیناتی کے بعد انہوں نے اپنے پہلے پالیسی بیان میں کہا ہے کہ حکومت روپے کی قیمت کے تعین میں دخل اندازی نہیں کرے گی بلکہ روپے کی قیمت کا تعین مارکیٹ قوتیں کریں گی۔ انہوں نے بڑھتے ہوئے کرنٹ اکائونٹ اور تجارتی خسارے کو کم کرنے کیلئے ایکسپورٹس بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا اور تجارتی خسارے کو جی ڈی پی کا 4 فیصد جبکہ کرنٹ اکائونٹ خسارے کو جی ڈی پی کے 5 فیصد تک لانے کا ہدف دیا ہے۔ انہوں نے بزنس کمیونٹی اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس کی طرف سے پاکستانیوں کے بیرون ملک اثاثوں کو ظاہر کرنے کی اسکیم کو سپورٹ کیا جس سے تقریباً 4 سے 5 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر حاصل ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر مفتاح نے ایکسپورٹرز کے 200 ارب روپے کے سیلز اور انکم ٹیکس ریفنڈز کی ترجیحی بنیادوں پر ادائیگی کا وعدہ کیا ہے تاکہ صنعتی سرگرمیاں پھیل سکیں۔ حال ہی میں فیڈریشن کے ایک وفد سے ملاقات میں وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے ایکسپورٹرز کے بجلی کے صنعتی نرخوں میں 20فیصد تک کمی کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن اس کیلئے انہیں اپنی ایکسپورٹس کو 15 فیصد سالانہ بڑھانا ہوگا۔ یہ وہ تمام اقدامات ہیں جو ملکی ایکسپورٹس میں کمی کا باعث بنے ہیں۔ امید ہے کہ ان پر فوری عملدرآمد سے مستقبل میں ایکسپورٹس میں اضافہ کیا جاسکے گا لیکن رواں مالی سال ایکسپورٹس میں قابل قدر اضافہ ایک مشکل امر ہے۔

تازہ ترین