• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2018ء کے آغاز میں امریکی صدر ٹرمپ نے خاص امریکی پالیسی کے تحت پاکستان کے خلاف سخت ترین بیان دے کر جہاں ایک طرف ہر شعبہ زندگی کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور پاکستان میں امریکہ مخالف سخت ردعمل آنا شروع ہو گیا ہے۔ جس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہو رہا ہے کہ تمام سیاسی قوتوں کو پارلیمنٹ کے اندر یکجا ہو کر پاکستان کے موقف کی بات کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ جس کا فائدہ عباسی حکومت کو ہو یا نہ ہو، سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو ضرور پہنچے گا۔ اس لئے کہ جب سیاسی جماعتیں اور قائدین ایک قومی ایجنڈے کے تحت کچھ عرصہ کے لئے متفق ہوتے ہیں یا متحد ہوتے ہیں تو اس سے جمہوری استحکام برقرار رکھنے میں خاص مدد مل سکتی ہے۔ جس سے سابق وزیراعظم نواز شریف کو سیاسی طور پر زیادہ فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ان پر آنے والے دنوں میں بڑھنے والے دبائو کی طاقت اور رفتار کم ہو سکتی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ سابق وزیراعظم نے سعودی عرب کے پراسرار دورے کے بعد پاکستان میں جس نئی بحث کا آغاز کیا ہے کہ وہ چار برس میں اپنے خلاف ہونے والی سازشوں اور حالات کا پردہ چاک کر سکتے ہیں، اس کے ردعمل کے طور پر کچھ نئی دستاویزات بمعہ جامع حقائق کے سامنے آ سکتی ہیں۔ شاید سابق وزیراعظم یہ سب کچھ اس لئے بھی کر رہے ہوں کہ والیم 10یا کسی بھی شکل میں کوئی نئی دستاویزات یا حقائق قوم کے سامنے نہ آ سکیں، جس طرح شریف برادران پراسرار طریقے سے سعودی عرب گئے اور واپس مختلف انداز میں آئے، اس سے سابق وزیراعظم زیڈ اے بھٹو کا دورہ تاشقند یاد آ گیا۔ جس کا معمہ آج تک حل نہیں ہو سکا کہ اس میں کس نے کیا حاصل کیا۔ اس طرح شریف برادران کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے بارے میں 25-20دن بعد کچھ نہ کچھ تو سامنے آ ہی جائے گا۔ پھر مسلم لیگ (ن) کے آئندہ انتخابات کے بعد حکومت ملنے کی صورت میں نامزد کئے جانے والے وزیراعظم کے عہدہ کے امیدوار میاں شہباز شریف کا کیا بنے گا۔ جن کا وہاں جانے کا انداز سب نے دیکھا اور پھر واپس آنے کا انداز اور اس کے بعد اپنی پسند کی پریس کے سامنے رویہ بھی سب نے دیکھا کسی بھی مشن میں کامیاب لوگ ایسے واپس نہیں آیا کرتے۔ اگر وہاں کوئی معافی تلافی ہوئی تو بہتر تھا کہ قوم کو سب کچھ بتا دیا جاتا۔ تاکہ کچھ عرصہ بعد جب سب چیزیں عوام کے سامنے آئیں گی تو پھر ان کے پاس کیا جواب ہو گا۔ اس طرح امریکہ کے رویئے کے خلاف مسلم لیگ (ن) اور خاص کر ان کے وزارت عظمیٰ کے عہدہ کے امیدوار کو جس طرح مزاحمتی اور مذمتی بیان یا ردعمل دینے کی ضرورت تھی اور ہے ایسا کیوں کیا جا رہا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ کئی امریکی سینیٹرز سے 1990ء کی دہائی اور پھر 2002کے بعد پیدا کی جانے والی دوستیوں کی وجہ سے یہ احتیاط کی جا رہی ہے تاکہ امریکی کسی آئندہ مرحلہ میں ان کے راستے میں رکاوٹ نہ بنیں۔ ایسا سوچنے کی بجائے وزیر خارجہ خواجہ آصف کا بیان کافی ہے کہ امریکہ یار مار ہے۔ واقعی ایسا ہے۔ مگر اس کے سامنے مزاحمت کرنے کے لئے ہر سیاسی رہنما کو مستقبل کی کسی خواہش کے پس منظر میں احتیاط کرنے کی بجائے کھل کر امریکی رویئے کی مذمت کرنا ہو گی۔ اور اس قومی سطح پر ایک مربوط پالیسی کے تحت خود کفالت اور خود انحصاری کی حکمت عملی اپنانا ہو گی۔ قوم اس کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہے۔ مگر ہمارے سیاسی قائدین کے ریڈار پر شاید یہ ایشو ہائی لائٹ ہی نہیں ہو رہا ہے۔ اب وزیراعظم عباسی کے لئے بہترین موقع ہے کہ وہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلائیں اور اس میں قومی سطح پر خود انحصاری کی جامع پالیسی کے تحت تمام قوم کو مل جل کر قومی ترقی کے لئے ہم ساتھ اور ہم قدم چلنے کی دعوت دیں۔ ہمارا ملک قومی ترقی کے حوالے سے اقتصادی طور پر جتنا مضبوط ہو گا اس سے ہم دنیا کے سامنے اپنے زیادہ وقار سے جی سکیں گے۔ ورنہ امریکہ سے دوستیاں بچانے کے لئے بیان بازی کی حد تک کام چلتا رہے گا اور ایک دن قوم کو تباہی اور بربادی کا نیا امریکی تحفہ مل سکتا ہے۔
kk

تازہ ترین