• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نارنجی بالوں والے امریکہ کے اکہترسالہ صدر ڈونلڈ ٹومپ نے نئے سال کی آمد پر پاکستان کے خلاف وہ ٹویٹ کردیا کہ پوری قوم جو اب تک ایک دوسرے کے خلاف ’’صادق‘‘ اور ’’امین‘‘ نہ ہونے کے دعوؤں کے ساتھ ساتھ اس کی تصدیق یا نفی کیلئے عدالتوں سے قانونی سرٹیفکیٹ حاصل کرنے میں ہمہ تن گوش تھی کو اچانک کرنٹ سا لگ گیا۔ حبیبی ٹرمپ نے تو ایک چھوٹے سے پیغام میں پورے پاکستان کو ’’صادق‘‘ اور ’’امین‘‘ نہ ہونے کی صدارتی سند اس لئے پیش کی کہ بقول ان کے پچھلے پندرہ سالوں میں پاکستان نے امریکہ سے ملنے والی مبینہ 33 بلین ڈالر کی امداد کے صلے میں ’’جھوٹ اور دھوکے‘‘ کے سوا کچھ بھی نہیں کیا۔ ان الزامات کے بعد اسلام آباد سے ایک قسم کا قریب قریب یکساں بیانیہ سامنے آرہا ہے جو کہ خوش آئند ہے مگر تجربہ یہی کہتا ہے کہ امریکی صدر کے ہتک آمیز رویے پر پاکستانی اشرافیہ کا یہ اتحاد زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ اس کی وجوہات میں ذاتی عناد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ ساتھ ان حقائق کو بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ بے تحاشہ ڈالروں پر چلنے والے بعض ادارے اور این جی اوز فیض حاصل کررہی ہیں۔
مزید یہ کہ اگرچہ اس بار اسلام آباد کا ری ایکشن ابھی تک قدرے ’’بہادرانہ‘‘ رہا ہے اور واشنگٹن کو واشگاف الفاظ میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیاں اور نقصانات کا تخمینہ دہرایا جارہا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی کئی حلقوں کی جانب سے ’’احتیاط‘‘ برتنے کی صلح بھی دی جارہی ہے جس کا واضح مقصد پاکستان کو ماضی کی طرح امریکی زیادتیوں کو ’’صبر اور برداشت‘‘ سے سہنے کامشورہ دینا ہے۔ آثار و قرائن یہی بتاتے ہیں کہ حالات کا ’’مقابلہ‘‘ صبر اور برداشت سے ہی کیا جائے گا اور شاید پاکستان کیلئے سردست اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار بھی نہیں کیونکہ مشرف دور سے پاکستان امریکی خوشنودی میں اس حد تک چلا گیا ہے کہ اس سے چھٹکارہ پانے کیلئے کسی بہت بڑے معجزے کی ضرورت ہے۔ اس ساری صورتحال میں ’’محب وطن‘‘ پاکستانی ٹرمپ صاحب کی ٹویٹ سے صرف یہ تشفی برآمد کرسکتے ہیں کہ موصوف نے پاکستان کو لتاڑ نے کے ساتھ ساتھ اپنی پرانی قیادت سویلین اور فوجیوں دونوں کو ’’بیوقوف‘‘ جیسے القاب سے نوازا۔ حق تو یہ ہے کہ تازہ خبروں کے مطابق امریکی صدر نے اپنے ایک سابق مشیر سٹیو بینون کو پاگل قرار دیا ہے جس نے ایک تازہ کتاب میں شامل اپنے تبصرے میں ٹرمپ کو نکما اور صدارت کیلئے غیر موزوں قرار دیا ہے۔
پاکستان کیخلاف امریکہ کا معاندانہ رویہ کوئی نئی بات نہیں. ’’وار آن ٹیرر‘‘ کی ابتدا سے ہی پاکستان امریکہ کے لامتناہی ’’ڈو مور‘‘ کے مطالبات اور ’’دہشت گردوں کی پشت پناہی‘‘ جیسے الزامات کی زد میں ہے۔ اگرچہ امریکہ اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں ایک دوسرے کے حلیف اور شراکت دار ہیں مگر اسکے باوجود امریکی ایڈمنسٹریشن اول روز سے ہی پاکستان اور اسکے سیکورٹی اداروں کے خلاف کمر بستہ ہے یہاں تک کہ امریکی فوجی اتحاد نیٹو نے اب تک درجنوں پاکستانی فوجیوں اور سینکڑوں شہریوں کو قتل کیا ہے۔ پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل اشفاق کیانی نے پاکستان کو ’’سب سے زیادہ ستایا اور دھمکایا ہوا حلیف‘‘ قرار دیکر اس صورتحال کا بہترین انداز میں احاطہ کیا تھا،صدر ٹرمپ کا حالیہ بیان سفارتی آداب کی کھلی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ مروجہ بین الاقوامی ضابطوں سے بھی کوسوں پرے ہے،اگرچہ ٹرمپ صاحب اپنی غیر سنجیدہ اور طفلانہ مزاجی میں مشہور زمانہ ہیں مگر پاکستان کے بارے میں انکی رائے امریکی اداروں کے طرز عمل سے چنداں مختلف نہیں،ان حالات میں فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور کا یہ بیان کہ امریکہ اور پاکستان حلیف ممالک ہیں شاید سادہ لوحی کے سوا کچھ اور نہیں۔یہ بات قابل حیرت ہے کہ جس وقت ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان پر جھوٹ اور دھوکہ دہی کے الزامات کی بوچھاڑ کر رہے تھے لگ بھگ اسی وقت مؤقر امریکی روزنامے واشنگٹن پوسٹ نے انکشاف کیا کہ موصوف نے اپنی صدارت کے پہلے سال ( 347 دن) تقریبا 2000 دعوے کئے جو گمراہ کن یا مکمل طور پر غلط تھے،اس حساب سے ٹرمپ نے اپنی صدارت کے ہر روز اوسطا 5.6 گمراہ کن یا غلط دعوے کئے، اس معاملے میں سی این این نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ سچائی کیساتھ ٹرمپ کا تعلق غیر ارادی ہے اور یہ کہ وہ صداقت کے ساتھ رشتہ قائم کرنے سے قاصر ہیں،واشنگٹن پوسٹ کے فیکٹ چیکر بلاگ کے مطابق ٹرمپ نے بار بار اپنے گمراہ کن دعوؤں کو دہرایا اور ساٹھ سے زیادہ گمراہ کن دعوؤں کو پہلے سال کے دوران کم از کم تین بار دہرایا،پوسٹ نے یہ بھی دعوی کیا کہ اس سال کی شروعات میں صدر ٹرمپ نے نیو یارک ٹائمز کے ایک رپورٹر کو دیئے گئے انٹرویو کے دوران کم از کم 24 مرتبہ غلط بیانی سے کام لیا ، اگرچہ سیاستدانوں کا غلط بیانی اور جھوٹ کا سہارا لینا کوئی اچھنبے کی بات نہیں مگر ٹرمپ کا اس حد تک جھوٹ اور غلط بیانی پر انحصار شاید اپنی نوعیت کا بے مثل ماجرا ہو۔
امید کی جاسکتی ہے کہ صدر ٹرمپ آج پیر کے روز امریکی میڈیا سے ’’بد دیانت اور فاسق‘‘ ایوارڈز کا اعلان کریں گے. گزشتہ ہفتے ایک ٹویٹ کے ذریعے انھوں نے ان ایوارڈز کے بارے میں اعلان کرتے ہوئے امریکی میڈیا کے بارے میں ایک بار پھر اپنے مخاصمانہ خیالات کا کھل کر اظہار کیا،انھوں نے میڈیا میں اپنے خلاف ہونے والی رپورٹنگ کو ہمیشہ بے اعتنائی سے ٹھکرا دیا اور اپنی صدارتی کمپین کے دوران ایسی رپورٹس یا مضامین کو فیک نیوز قرار دیکر اس اصطلاح کو مقبول کردیا جس لحاظ سے امریکی صدر ٹویٹر کے ذریعے اپنے مخالفین کو زچ کرتے نظر آتے ہیں اس سے تو یہی لگتا ہے کہ میڈیا کیلئے ٹرمپ کے ’’بددیانت اور فاسق ایوارڈز‘‘ بھی شاید ٹوئٹر کے ذریعے ہی دیئے جائیں گے تاکہ مخالفین کو زیادہ سے زیادہ خوار کیا جاسکے، مگر اسکے باوجود کچھ صحافی اسکو پانے کے جتن کرتے نظر آ رہے ہیں، امریکہ کے بڑے ٹیلی وژن نیٹ ورک سی بی ایس کے ’’لیٹ شو‘‘ کے میزبان سٹیفن کولبرٹ نے اس ’’اعزاز‘‘ کے حصول کیلئے ایک باقاعدہ مہم کا اعلان کردیا ہے،اس کے ساتھ ہی انھوں نے ٹائمز اسکوائر نیو یارک میں ایک بہت بڑا بل بورڈ بھی خریدا جس میں باضابطہ طور ٹرمپ سے انعام کی خاطر گزارش کرنے کے ساتھ ساتھ ’’تمام درجات میں‘‘ ان کے پروگرام کو نامزد کرنے کی درخواست بھی کی گئی ہے۔امریکی سوشل سائنٹسٹ اور جھوٹ پر تحقیق کے ماہر بیلا ڈیپالو نے گزشتہ دسمبر کے اوائل میں واشنگٹن پوسٹ میں لکھے گئے ایک مضمون میں دعوی کیا کہ ’’اتنے سارے جھوٹ بول کر جن میں زیادہ تر نامعقول باتیں شامل ہیں ٹرمپ بنیادی انسانی قدروں اور سماجی اصولوں کی بے انتہا خلاف ورزی کر رہے ہیں۔‘‘
جھوٹ بھی سچ کی طرح بولنا آتا ہے اسے
کوئی لکنت بھی کہیں پر نہیں آنے دیتا
(ظفر صہبائی)

تازہ ترین