• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کی مبینہ شادی پر مجھے ایک پرانا انٹرویو یاد آ گیا ہے۔ یہ انٹرویو جیو کے مایہ ناز اینکر پرسن سہیل وڑائچ نے ’’ایک دن جیو کے ساتھ‘‘ میں معروف گلوکارہ طاہرہ سید کا کیا تھا، دورانِ انٹرویو سہیل وڑائچ نے بڑے آرام سے پوچھا کہ ’’مشہور لوگوں کے اسکینڈلز کیوں بنتے ہیں؟‘‘ جتنی سہولت کے ساتھ سوال کیا گیا تھا اتنی ہی سہولت کے ساتھ طاہرہ سید کہنے لگیں ’’اس لئے کہ وہ مشہور ہوتے ہیں‘‘۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرے گھر کی پچھلی گلی سے ایک عام لڑکی بھاگ جائے تو کچھ نہیں ہو گا اور اگر میں کسی کے ساتھ مسکرا کر بات بھی کر لوں یا چائے کافی پی لوں تو اسکینڈل بن جائے گا۔‘‘
طاہرہ سید کی اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسکینڈل ہمیشہ مشہور لوگوں ہی کے بنتے ہیں۔ اگر عمران خان کی زندگی پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی زندگی میں کئی ایک اسکینڈل بنے، وہ ایک لحاظ سے خوش قسمت بھی ہیں کہ دنیا بھر سے کئی عورتیں ان کے ساتھ عشق میں مبتلا رہیں اور یہ سلسلۂ فیض اب تک جاری ہے۔ اب بھی بہت سی عورتوں کے ارمان، خان کے ساتھ ہیں۔ مجھے سابق بھارتی کپتان کپل دیو کا ایک انٹرویو بھی یاد آ رہا ہے وہ کہتے ہیں ’’ہم بالوں کے اسٹائل بھی بدلتے تھے، فیشن بھی کرتے تھے مگر بھارتی لڑکیوں کی زبانوں پر پھر بھی عمران خان ہی کا نام ہوتا تھا‘‘ سو دوستو! عمران خان کے اسکینڈلز بننے کی بڑی وجہ ان کی شہرت ہے، یہی مشہوری انہیں الیکٹرونک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کی زینت بنائے رکھتی ہے ورنہ کچھ وفاقی وزراء نے بھی مبینہ طور پر خفیہ شادیاں کر رکھی ہیں، سو یہ معاملہ شہرت کا ہے، گمنامی کا نہیں۔ اس پر کچھ دلچسپ تبصرے بھی سامنے آئے ہیں، آپ کو بھی سنا دیتے ہیں۔ مثلاً ایک تبصرہ یہ آیا کہ ’’چلو اب پی ٹی آئی روحانی طور پر مضبوط ہو جائے گی‘‘ دوسرا تبصرہ کچھ اس طرح سے تھا کہ ’’تمام بیگمات سے گزارش ہے کہ وہ اپنے شوہروں کا روحانی رہنما چیک کر لیں اگر تو وہ مذکر ہے تو ٹھیک ہے اور اگر وہ مونث ہے تو پھر شوہر کو عمران خان بنتے دیر نہیں لگتی‘‘۔ ایک اور دلچسپ تبصرہ میرے ایک سیاستدان دوست نے کیا ہے ’’یہ خدا کے کام ہیں کہ کسی کو تین بار وزیر اعظم بنا دے اور کسی کو تین بار دولہا، یہ الگ بات ہے کہ مدت دونوں ہی پوری نہیں کر پا رہے‘‘ ایک تبصرہ پنکی اور عمران خان کو دیکھ کر مجھے بھی یاد آ رہا ہے مگر یہ تبصرہ پنجابی میں ہے ’’گرو جنہاں دے ٹینے تے چیلے جان چھڑپ‘‘۔
عمر چیمہ اور اعزاز سید، مجھے دونوں پر بڑا ناز ہے، دونوں کی ابتدائی صحافتی زندگی میں میرے کئی مشورے شامل حال تھے، دونوں نے مشوروں پر عمل کیا، آج دونوں نامور صحافی ہیں۔ عمر چیمہ خبر پر قائم ہیں، مجھے بھی ایسا ہی گمان گزرتا ہے کیونکہ ماضی میں ریحام خان کے معاملے میں بھی عمران خان ایسا کر چکے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب عمران خان نے ریحام خان سے شادی کی تو میں نے ناراضی کا اظہار کیا کیونکہ یہ بات میں نے کہی تھی کہ شادی سے پہلے مذکورہ خاتون ہر ویک اینڈ پر ایک وفاقی وزیر کے ہاں ہونے والی محفل میں شریک ہوتی تھی، جب طلاق ہوئی تو میں نے مبارکباد دی، اس وقت خان صاحب فرمانے لگے ’’ایک آپ نے اور ایک میرے انگلستان سے دوست نے مبارکباد دی ہے‘‘۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ اب شادی نہ کرنا، میں نے دنیا کے کئی رہنمائوں کے حوالے دیئے، کچھ کے نام تو خان صاحب نے خود بتائے، میں نے تو یہاں تک بھی کہہ دیا تھا کہ پاکستان بنانے والے عظیم رہنما نے اگرچہ دو شادیاں کی تھیں مگر ان کی ازدواجی زندگی ڈیڑھ پونے دو سال ہی بنتی ہے، جب انسان کے سامنے کوئی بڑا مشن ہو تو شادی ثانوی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔
یہ باتیں ہو گئیں مگر پھر مہینے ڈیڑھ بعد ہی عمران خان کہنے لگے کہ ’’میں شادی کرنا چاہتا ہوں، میں تہجد گزار ہوں، پانچ وقت کا نمازی ہوں، میرا یہ شرعی حق ہے کہ میں شادی کر لوں۔‘‘ لوگوں نے تو سوشل میڈیا پر شریف فیملی کے بھی کئی قصے بیان کئے ہیں مگر میں ذاتی طور پر اس بات کے خلاف ہوں کہ کسی کی نجی باتوں کو میڈیا میں اچھالا جائے۔ مجھے اس مرحلے پر مریم نواز اور بلاول بھٹو کو شاباش دینی چاہئے کہ ایک نے کہا کہ یہ نجی معاملہ ہے اور دوسرے نے کہا کہ اگر خان صاحب نے شادی کی ہے تو میں مبارکباد دیتا ہوں۔ شادی کی بات بہت ہو گئی اب ذرا سیاست کی بات ہو جائے۔ بلوچستان کے حالیہ بحران کے بارے میں کچھ اشارے پچھلے کالم میں دے چکا ہوں، اب مریم نواز کہتی ہیں کہ ’’ایک کے بعد ایک سازش ہو رہی ہے، بلوچستان میں بھی سازش ہو رہی ہے‘‘ ملک کے وزیر داخلہ پروفیسر احسن اقبال فرماتے ہیں کہ ’’اراکین کو پرائیویٹ نمبروں سے فون آ رہے ہیں‘‘ پتہ نہیں یہ لوگ کہاں سے سازش ڈھونڈ رہے ہیں، انہوں نے تو پیپلزپارٹی پر بھی سازش کرنے کا الزام لگا دیا ہے حالانکہ بلوچستان اسمبلی میں پیپلز پارٹی کا کوئی رکن ہی نہیں ہے البتہ بلاول بھٹو زرداری کی یہ بات سچ ہے کہ بلوچستان کا بحران قومی اسمبلی میں پہنچے گا۔ خواتین و حضرات! بلوچستان کے سیاستدانوں سے پرانے تعلقات کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جائے گی۔ جب پتے بکھرنا شروع ہو جائیں اور حالات بھی نازک ہوں تو پھر پتوں کو اکٹھا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لئے 33ممبران کی ضرورت ہے اور تحریک پیش کرنے والوں کے پاس اب تک 31ممبران ہیں۔ جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو تعداد 33سے زیادہ ہو چکی ہو گی، جو وفاقی وزراء کوئٹہ گئے ہوئے ہیں، تحریک عدم اعتماد کو قابو کرنا ان کے بس سے باہر ہے۔ باقی مشہوری کے لئے کوئی کچھ بھی کر سکتا ہے۔ مشہوری کے لئے تو اداکارہ میرا انگریزی کا ستیاناس کر دیتی ہے جبکہ اداکارہ میگھا نہ صرف خوبصورت انگریزی بولتی ہیں بلکہ شاندار انگریزی لکھتی بھی ہیں۔ گفتگو کرنے کا ڈھنگ ریما کو آتا ہے، وہ چار زبانوں میں گفتگو کر لیتی ہیں۔ اچھی شہرت اور بری شہرت، مشہوری تو دونوں سے ہو جاتی ہے کہ بقول نواب مصطفیٰ خان شیفتہؔ ؎
ہم طالب ِ شہرت ہیں، ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا.

تازہ ترین