• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹرمپ نے طبلِ جنگ کیا بجایا،ہمارے معزز ترین بڑے مولانا صاحب بلوچستان اسمبلی کے سامنے مورچہ لگا بیٹھے۔ گویا مناد نے پیش آمدہ حالات کی منادی کردی ۔ ہونی ہو کر رہے گی، منصوبہ ساز اپنے منصوبے پر ہر صورت عمل کریں گے۔ انجام کیا ہوگا خدا جانے۔ جی ہاں بلوچستان میں کھلاڑیوں نے سینیٹ انتخابات سے قبل گریٹ گیم کا آغاز کردیا اور وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری جو ایک معاہدے کے تحت اپنی اڑھائی سالہ مدت اقتدار پوری کرنے کے حقدار قرار پائے تھے۔ عدم اعتماد کی تحریک کاشکارہیں۔ اس بار (ن) لیگ کے وزیراعلیٰ کو شکار کرنے کے لئے حیران کن طورپر بڑے مولانا صاحب نے جال پھینکا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ اس کا انجام کیاہوگا اور ٹرمپ کی دھمکیاں کیا رنگ دکھائیں گی، مولانا صاحب نے یہ بھی خیا ل نہیںکیا کہ وہ کس کھیل کا حصہ بننے جارہے ہیں انہیں تو یہ بھی خیال نہ آیا کہ ان کی بڑے میاں صاحب سے کیا سیاسی قرابت داری ہے۔ انہوں نے فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام رکوانے اور آئندہ عبوری حکومتی سیٹ اپ میں حصہ مانگنے کے لئے جو چال چلی ہے یقیناً سیاسی مفادات کی ایک نئی شکل سامنے آئی ہے۔ محسوس یہی ہوتاہے کہ مولانا صاحب نے بھی تبدیل ہوتے حالات کی بو سُونگھ لی ہے اورہوا کے رخ گھوڑے دوڑا دیئے ہیں لیکن شایدانہیں اندازہ نہیں کہ یہ مہم جوئی اتنی آسان نہیں۔یہ مبہم بھی ہے اور پیچیدہ بھی، مگر ایک چیز واضح ہے کہ اندرونی تبدیلی کی گریٹ گیم کا پہلا مرحلہ ہرصورت ایوان بالا کے انتخابات سے قبل طے پانا ہے۔ اس گریٹ گیم کا دوسرا مرحلہ عبوری حکومت، تیسرا مرحلہ ممکنہ عام انتخابات اور چوتھا اور آخری مرحلہ شطرنج کے اس دلچسپ ، اعصاب شکن اور کش مکش کے کھیل میں صحیح مہروںکو صحیح خانوں میں رکھنا ہے۔ کچھ لوگوں کاخیال ہے اس کے بعد راوی چین ہی چین لکھے گا لیکن گریٹ گیم اگر دوسرے مرحلے یعنی عبوری حکومت کی طوالت پر ہی منتج ہوگئی توراوی کو چین لکھنے میں ایک عشرہ بھی لگ سکتا ہے۔ کیونکہ روایت تو نو اورگیارہ سال کی ہی ہے۔ البتہ ایوب خان کے راوی کو عزت نفس کا مسئلہ آڑے آرہا، تھالہٰذا وہ جلد ہی چھٹی پرروانہ ہوگئے۔
بلوچستان میں جو گریٹ گیم کے نام سے ’’گیم‘‘ کھیلی جارہی ہے، کے درپردہ مقاصد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، یہاں مفادات کا ٹکرائو بھی ہے، دبائو کے تحت مستقبل میں فاٹا انضمام کی آڑ میں سیاسی بقاء کی جنگ بھی لڑی جارہی ہے اور بیک وقت موجودہ جمہوری نظام حکومت جو خدا خدا کرکے مدت پوری کرنے کے قریب ہے اسے لپیٹنے کی سازش بھی نظر آرہی ہے۔ خدشہ ہے کہ کہیں یہ گریٹ گیم ،ڈبل گیم کا رخ اختیار نہ کرلے اورکسی کیلئے جا ل پھینکنے والے خود ہی اس جال میں نہ پھنس جائیں۔31اکتوبر 2017ء ’’راستے کا پتھر نہیں، سر کا تاج بنائیں‘‘ اور 6نومبر2017ء کو ’’بلوچستان کی صورت حال‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے یکے بعد دیگرے دو کالموں میں بلوچستان کی سیاسی صورت حال بارے جن خدشات کا اظہار کیا تھا آج حالات اسی پر کھڑے ہیں۔ قوم ایک طرف آئندہ عام انتخابات کی طرف بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف سرحدوں پر منڈلاتے خطرات اور ٹرمپ انتظامیہ کی پابندیاں ہیں لیکن ہمارے سیاست دانوں کی فکر صرف سینیٹ انتخابات تک محدود ہے اور سینیٹ کے انتخابات کو ہی تمام قوتوں نے پاکستان کی سیاست کا اختتام سمجھ لیا ہے۔ ٹرمپ کی دھمکیاں، ایران کی بگڑتی اندرونی صورت حال، خطے میں امریکی سازشیں اورافغانستان میں ٹرمپ کی تھپکی پر بھارت کی موجودگی اس بات کا تقاضا کررہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ، سول سوسائٹی اور عوام سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ریاست،ریاستی اداروں کے ساتھ کھڑے ہوں۔ زمینی حقائق بھی اس وقت بلوچستان میں کسی بھی بڑی سیاسی مہم جوئی کی اجازت نہیں دے رہے۔ نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کسی بھی صورت، صوبے میں جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دینا چاہتیں۔ ایک دو کے سوا ان کے تمام اراکین اسمبلی مکمل طور پر اپنی سیاسی قیادتوں کے پیچھے کھڑے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ یہ تمام کھیل صرف اور صرف سینیٹ انتخابات رکوانے کے لئے رچایا جارہاہے۔ اس کا واحد مقصد ایک ہی ہے کہ کسی طرح بلوچستان اسمبلی توڑ کر الیکٹورل کالج کو مفلوج کر دیا جائے اور اس کے اثرات دیگر اسمبلیوں پر منتقل کر دیئے جائیں، مگر اندرونی و بیرونی چیلنجز اس بات کے متقاضی ہیں اور حالات چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں اب بھی وقت ہے سنبھل جائو، مگر مفادات کے پجاریوں نے دھن دولت، اقتدار کے سامنے گھٹنے ٹیک رکھے ہیں۔ جرم پر جواز تراشے جارہے ہیں۔ ہر کوئی اپنے اپنے مقاصد کے حصول میں سب کچھ دائو پر لگا رہا ہے۔ عوام کا نام لے لے کر عوام ہی کو بیچنے چلے ہیں۔ سازشوں کا جال بُننے والے یہ نہیں سمجھ رہے کہ جس جال کے تانوں بانوں میں وہ الجھ چکے ہیں وہ مکڑی کا جالا ہے۔ قوم کو فریب دینے والے قوم کے عتاب اور اللہ کے عذاب سے ڈریں۔ بلوچستان میں کھلنے والا سیاسی محاذ جلد ہی لاوا بنے گا اور پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ وقت کی چکی میں گیہوں کے ساتھ ساتھ گھن بھی پسے گا۔ مگر احتساب کی چکی کی زد میں کوئی کوئی ہی آئے گا۔ یہی تو المیہ ہے جو ہر بار نئی طرز کے گھمبیر حالات کو جنم دیتا ہے۔ پاکستان پر کھلی جارحیت کا خطرہ ہے۔ ٹرمپ حساب مانگ رہا ہے مگرہمیں اپنے بہی کھاتوں سے فرصت نہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں، جنوری کے آخر میں ، مارچ سے پہلے مارچ کا جو فیصلہ ہو چکا ہے وہ آپس کی کش مکش اور افراتفری کے بعد کوئی غلط سمت بھی اختیار کرسکتا ہے۔ سمت درست نہ ہو تو قومیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں اور 16برس بعد یاد آتا ہے کہ ہم تو کسی اور کی جنگ لڑ رہے تھے۔
آج ایئر مارشل اصغرخان مرحوم بہت یاد آرہے ہیں جو ضمیر کے قیدی کے طور پر جانے جاتے رہے، جنہوں نے ہمیشہ ضمیر کی آواز پر لبیک کہا، کبھی جھکے نہ بکے، کردارکے دھنی، عمل، ارادوں کے پختہ، جنہوں نے پاک فضائیہ کوایک نئی جہت بخشی، پی آئی اے کے چیئرمین رہے تو پوری دنیامیں پاکستان کا نام روشن کیا۔ سیاست کی تو اصولوں کے مطابق، وہ تاریخ میں اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف بھٹو کے سخت مخالف بھی رہے، قومی اتحاد کے نو ستاروں میں ایک چمکتا دمکتا ستارہ بنے۔ یہ وہی اصغر خان تھے جوایوب خان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو سے اختلاف ضرور رکھتے تھے مگر بطور سیاست دان بھٹو کی گرفتاری کے مخالف اور بھوک ہڑتال کے حامی بھی تھے۔ ایئر مارشل اصغر خان آج اس لئے بھی بہت یاد آرہے ہیں کہ وہ ہمیشہ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے مخالف رہے۔ کاش آج ہمارے سیاست دانوں میں بھی کچھ ضمیر کے قیدی پیدا ہوں جو ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے قوم کی رہنمائی میں اصغر خان جیسا کردار ادا کرسکیں۔ کسی سازش کا حصہ نہ بنیں، ضمیر کی آواز پر فیصلے کریں، دعا ہے اس عظیم شخصیت کی طرح کوئی دوسراسیاست دان ناکام نہ ہو۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا.

تازہ ترین