• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

واصف علی واصف، پروفیسر احمد رفیق اختر، اشفاق احمد، قدرت اللہ شہاب اور سرفراز شاہ صاحب۔ ان سب میں ایک قدر مشترک ہے....روحانیت۔ واصف علی واصف صاحب سے میری کوئی ملاقات نہیں البتہ ان کے خوبصورت اقوال پڑھے ہیں۔ ’’خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش ہے۔ غم اور پریشانی دراصل انسانی فیصلے اور اللہ کے حکم کے درمیان فرق کا نام ہے۔ لوگ دوست کو چھوڑ دیتے ہیں، بحث کو نہیں چھوڑتے...!‘‘ خوبصورت چہرے والے اس صوفی کے اقوال بھی خوبصورت ہیں، لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں آپ کا مزار ہے، جب کبھی گزر ہوتا ہے، فاتحہ کے لئے ہاتھ خودبخود اُٹھ جاتے ہیں، خدا اُن کی قبر کو نور سے بھر دے۔ پروفیسر احمد رفیق اختر سے میری ایک آدھ مرتبہ فون پر بات ہوئی، شاید کسی تقریب میں ایک آدھ منٹ کی ملاقات بھی ہوئی تھی، بے حد شفقت سے پیش آئے، فون پر کوئی بات پوچھی تھی، یاد نہیں کیا تھی مگر اتنا ضرور یاد ہے کہ انہوں نے اس کا حل ترنت بتا دیا تھا، انٹرنیٹ پر اُن کے لیکچرز سننے کا اتفاق ضرور ہوا ہے، نہایت عالمانہ گفتگو کرتے ہیں، مختلف موضوعات پر ان کا علم حیران کن ہے، حاضرین کو اپنی تقریر سے مبہوت کر دیتے ہیں، جدید دور کی نسل جو تشکیک، الجھن اور وسوسوں کا شکار ہے پروفیسر صاحب کی گرویدہ ہے کیونکہ آپ ان کی stressed lifeکو یوں آسودہ بناتے ہیں کہ خدا سے ناطہ بھی جڑ جائے اور دنیا داری بھی نہ چھوٹے، اکیسویں صدی میں اور کیا چاہئے!
اشفاق احمد مرحوم کی تو کیا ہی بات تھی، والد صاحب کی وجہ سے مجھے اُن سے ملنے کے کئی مواقع ملے، لڑکپن سے جوانی تک کئی ملاقاتیں ہیں اشفاق صاحب کے ساتھ، جن کی یادیں میری زندگی کا اثاثہ ہیں، ایسا جینئس میں نے نہیں دیکھا، آپ اُ ن سے فلسفے کی مشکل سے مشکل گتھی کا حل پوچھ لیں ایسے سمجھائیں گے کہ اسکول کے بچے کو بھی یاد ہو جائے گا، روحانیت کا بھی یہی عالم تھا، دقیق اور نہ سمجھ میں آنے والی عقل سے ماورا باتوں کا جواب بھی ایسے سادہ انداز میں دیتے کہ روح خوش ہو جاتی۔ خوبصورت اور نفیس انسان تھے، بچوں کے ساتھ بالکل بچہ بن جاتے تھے، میں نے اپنی بیٹی کو اُن سے ملوایا تو اسے گود میں اٹھا لیا اور پوچھنے لگے کھانے میں کیا پسند ہے، اس نے کہا میکڈونلڈز، قہقہہ لگایا اور بولے میرے پوتوں کو بھی یہی پسند ہے مگر جب میں ان کے ساتھ میکڈونلڈز جا کر کہتا ہوں کہ مجھے چپس کھانے ہیں تو وہ ناراض ہو جاتے ہیں، کہتے ہیں دادا ابو چپس نہیں فرنچ فرائز کہتے ہیں۔ اشفاق صاحب کے شاہکار کام تو بے شمار ہیں، مجھے ذاتی طور پر بابا صاحبا اور من چلے کا سودا پسند ہیں۔ من چلے کا سودا میں اشفاق صاحب نے روحانیت کو سمجھیں کوزے میں بند کر دیا ہے، ایک دنیا دار کے ذہن میں روحانیت کے بارے میں جتنے وسوسے اور سوالات آ سکتے ہیں اشفاق صاحب نے کمال خوبصورتی سے ان سب کا شافی جواب دیا ہے، سائنس اور روحانیت کا ناطہ، سلوک کی منازل، عبادت کا مقام، انسان کا کردار، عارف کا برتاؤ، عام زندگی میں چال چلن، مرشد کی تلاش، غرض روحانیت کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس کے بارے میں تفصیلی روشنی اس ڈرامے میں نہ ڈالی گئی ہو، یہ کھیل اسکول میں نصاب کا حصہ ہونا چاہئے۔ آپ ماڈل ٹاؤن لاہور میں دفن ہیں، جب بھی دادا جی کی قبر پر جاتا ہوں اشفاق صاحب کے مرقد پر بھی حاضری دیتا ہوں۔
سرفراز شاہ صاحب سے میری کئی ملاقاتیں ہیں، ان کی مہربانی ہے کہ جب بھی میں اُن سے درخواست کرتا ہوں وہ فوراً وقت دیتے ہیں، میں جتنی دیر بھی بیٹھوں وہ پوری توجہ اور سکون سے میری باتوں کا جواب دیتے ہیں، بعض اوقات نادانی میں کچھ سخت باتیں بھی پوچھ لیتا ہوں مگر شاہ صاحب کے ماتھے پر شکن تک نہیں آتی، دل موہ لینے والی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیتے ہیں، سحر انگیز گفتگو کا فن انہیں آتا ہے، روایتی پیروں والی ان میں کوئی بات نہیں، اچھا کھاتے ہیں اچھا پہنتے ہیں، اچھی گاڑیوں کا شوق رکھتے ہیں، لوگ دنیا بھر سے انہیں لیکچرز کے لئے بلاتے ہیں، عوام اور خواص دونوں میں یکساں مقبول ہیں، جدید وضع قطع کے حامل شخص ہیں، پروفیسر احمد رفیق اختر کی طرح شاہ صاحب بھی نئی نسل کو اُن کے jargon میں روحانیت سمجھاتے ہیں، مادہ پرستی کے اس دور میں شاہ صاحب کی باتیں جدید ذہن کے نوجوانوں کو بے حد پُرکشش لگتی ہیں جو بیک وقت cut throat competition نامی بلا سے نمٹنے کا نسخہ بھی بتلاتے ہیں اور خدا سے لو لگانے کا طریقہ بھی، روزمرہ مسائل کا حل بتاتے ہیں اور دعا کے قبول ہونے یا قبول نہ ہونے کی وجوہات سمجھاتے ہیں، روحانیت پر ان کی گرفت کا یہ عالم ہے کہ ان کی لکھی ہوئی تمام کتابوں نے ریکارڈ توڑ مقبولیت حاصل کی ہے، خدا انہیں ایسے ہی شاد رکھے۔
’’بابوں‘‘ سے اپنے قریبی تعلقات بتانے کے چکر میں اندازہ ہی نہیں ہو پایا کب کالم کی تمہید کالم سے ہی طویل ہو گئی۔ خیر، اب آتے ہیں قدرت اللہ شہاب صاحب کی طرف۔ بدقسمتی سے شہاب صاحب سے میری کوئی ملاقات نہیں، ان کے بارے میں وہی جانتا ہوں جو خود انہوں نے اپنے بارے میں شہاب نامہ میں لکھا ہے یا پھر اشفاق صاحب نے بابا صاحبا میں بتایا۔ شہاب نامہ نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی، روحانیت اور سول سروس کے متلاشی نوجوانوں نے بھلے کوئی اور کتاب نہ پڑھی ہو شہاب نامہ ضرور پڑھی ہوگی، شہاب نامہ پڑھنا فیشن ہے مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ شہاب صاحب کا انداز تحریر دل موہ لینے والا ہے، آسان مگر خوبصورت زبان انہوں نے استعمال کی اور اپنی سرکاری نوکری کے دوران پیش آنے والے واقعات کو یوں روانی کے ساتھ بیان کیا کہ قاری خود کو ان کے ساتھ ہمسفر پاتا ہے۔ شہاب نامہ پر مزید کچھ کہنے سے پہلے البتہ ضروری ہے کہ شہاب صاحب کے بارے میں اشفاق احمد کی بابا صاحبا کا ایک اقتباس یہاں نقل کردیا جائے، صفحہ نمبر 285پر اشفاق صاحب رقمطراز ہیں:
’’پھر وہ تینوں اچانک اٹھے اور ہم سے معذرت مانگ کر کمرے سے باہر نکل گئے۔ شہاب صاحب نے کہا ’آپ بیٹھیں، میں ابھی اپنے کمرے سے ہو کر آتا ہوں‘ شہاب صاحب جب بھی اپنے کمرے سے ہو کر آتے اُن کی آنکھیں سرخ اور چہرہ تمتمایا سا ہوتا۔ تھوڑی دیر تک وہ بات کرنے کے قابل نہ ہوتے۔ پھر جب گفتگو شروع کرتے تو ان کے منہ سے ہلکے ہلکے بھپارے سے اٹھتے۔ میں نے اس قسم کی شراب کی خوشبو اس سے پہلے کہیں محسوس نہ کی تھی۔ ایک ڈچ لڑکی جو باؤ سانی سے فارسی پڑھتی تھی، اس کے منہ سے البتہ ایسی سگندھ آیا کرتی تھی لیکن کبھی کبھی!شہاب صاحب بھی چونکہ ہالینڈ سے تشریف لائے تھے، اس لئے اس قسم کی شراب کے عادی دکھائی دیتے تھے۔ ان کا کوٹہ ان کے اٹیچی کیس میں بند تھا اور وہ مقررہ وقت پر جا کر اس میں سے ایک چسکی لگا آتے تھے۔پتہ نہیں ان کو چھپانے کی کیا ضرورت تھی...!‘‘
بابا صاحبا جب شائع ہوئی توشہاب صاحب اس فعل کی وضاحت دینے کے لئے زندہ نہیں تھے مگر جس دو ٹوک اندازمیں اشفاق صاحب نے اُن کی شراب نوشی کا ذکر کیا ہے اس کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ تمام اولیا کرام اور صوفیا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ روحانیت کے راستے کا طالب علم شریعت کا پابند ہوتا ہے، استثنیٰ کسی کو نہیں، تو شہاب صاحب کیسے صوفی تھے جو شراب نوش تھے ؟ کہا جا سکتا ہے کہ اُس وقت شاید انہوں نے روحانیت کی راہ پر چلنا شروع نہ کیا ہو مگر آ پ شہاب نامہ پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ شہاب صاحب کی ’’نائنٹی ‘‘ کے ساتھ خط و کتابت بہت پہلے شروع ہو چکی تھی۔

تازہ ترین