• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دھمکی آمیز ٹویٹ، امریکی انتظامیہ کی پاکستان مخالف تنقید اور پاکستان کی امداد روکے جانے پر ہر پاکستانی حیرت و صدمے سے دوچار ہے اور غم و غصے کا اظہار کررہا ہے جبکہ پڑوسی دشمن ملک میں جشن کا سماں ہے۔ اس سے پہلے کہ میں امریکہ کے پاکستان مخالف جارحانہ رویئے پر کچھ تبصرہ کروں، قارئین کو ایک واقعہ سناتا چلوں جس کا مقصد یہ بتانا ہے کہ لیڈروں کی سوچ کتنی دور اندیش ہوتی ہے۔
2003ء میں امریکہ، عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا بہانہ کرکے قابض ہونا چاہتا تھا جس کیلئے امریکہ کو آسان ترین راستہ عراق کے پڑوسی ملک ترکی سے دستیاب تھا چنانچہ امریکہ نے ترکی کو پیشکش کی کہ اگر ترکی، امریکی افواج کو اپنی زمینی اور فضائی حدود فراہم کردے تو اِس کے عوض ترکی کو 20 ارب ڈالر کی امداد دی جائے گی لیکن ترک پارلیمنٹ نے ’’پرکشش امریکی پیشکش‘‘ متفقہ طور پر ٹھکراتے ہوئے امریکہ کو اپنی زمینی اور فضائی حدود فراہم کرنے سے صاف انکار کردیا جس کے بعد امریکہ، کویت کے راستے عراق میں داخل ہوکر قابض ہوا۔ عراق پر امریکی قبضے کے بعد ایک غیر ملکی صحافی نے ترک وزیراعظم سے سوال کیا کہ ’’امریکہ تو بالآخر عراق پر قابض ہوگیا مگر ترکی نے 20 ارب ڈالر کی امریکی پیشکش ٹھکراکر بہت بڑی غلطی کی۔‘‘ ترک وزیراعظم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’’ہم نے امریکی پیشکش اِس لئے ٹھکرادی کہ کل عراق کی آئندہ نسلیں ہماری طرف اشارہ کرکے یہ نہ کہیں کہ امریکی افواج ترکی کے راستے اُن کے ملک پر قابض ہوئی تھیں۔‘‘
پاکستان بھی کچھ اسی طرح کی صورتحال سے اُس وقت دوچار ہوا جب 9/11 کے بعد امریکہ القاعدہ کے خلاف آپریشن کیلئے افغانستان پر قابض ہونا چاہتا تھا اور اس مقصد کیلئے امریکہ کو پاکستان کی زمینی و فضائی راستوں کی ضرورت پڑی۔ اُس وقت پاکستان میں فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف برسراقتدار تھے۔ اِسی دوران امریکہ کے دورے پر آئے ہوئے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل محمود کو نائب امریکی وزیر خارجہ رچرڈ آرمٹیج نے 7 مطالبات پر مشتمل ایک فہرست پیش کی جس کے بعد ایک امریکی ٹیلیفون کال پر جنرل پرویز مشرف نے امریکی خوشنودی کیلئے تمام مطالبات تسلیم کرلئے۔ بعد ازاں کسی تحریری دستاویز کے بغیر سندھ اور بلوچستان کی ایئرفیلڈز امریکہ کو استعمال کرنے کی اجازت دیدی گئی جہاں سے امریکی B-52 بمبار طیارے پرواز کرکے افغانستان میں مسلمانوں کا قتل عام کرتے رہے اور بعد میں اِنہی ایئرفیلڈ سے امریکی ڈرون طیاروں نے پاکستانیوں کو نشانہ بنایا۔ کچھ ماہ بعد جنرل پرویز مشرف نے امریکی زمینی افواج کو بلوچستان کے ساحل پر اترنے کی اجازت بھی دیدی جہاں سے امریکی افواج قندھار کے راستے افغانستان پر قابض ہوئیں۔ اُس وقت جنرل پرویز مشرف نے یہ تک نہ سوچا ہوگا کہ کل امریکہ، افغانستان پر قابض ہوکر افغان عوام پر اپنی مرضی کی حکومت مسلط کردے گا اور وہاں بھارت کا اثر و رسوخ قائم ہوجائے گا لیکن جنرل پرویز مشرف نے بلامعاوضہ یہ ساری خدمات امریکی خوشنودی کیلئے انجام دیں تاکہ امریکی اشیرباد حاصل کرکے اپنے اقتدار کو طول دیا جاسکے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد اس طرح کے اشارے کافی عرصے سے مل رہے تھے کہ امریکی صدر اور انتظامیہ، بھارتی خوشنودی کیلئے پاکستان کے خلاف مذموم عزائم رکھتے ہیں اور حالیہ ٹویٹ سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ امریکہ اس طرح کی سخت زبان استعمال کرکے پاکستان کو مشتعل کرنا چاہتا ہے۔ درحقیقت امریکہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا جس پر وہ کئی بار اپنے تحفظات کا اظہار کرچکا ہے۔ امریکہ کو خدشہ ہے کہ اگر سی پیک منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا تو خطے میں چین علاقائی طاقت بن کر ابھرے گا جو امریکہ کو کسی صورت منظور نہیں کیونکہ امریکہ خطے میں بھارت کی چوہدراہٹ چاہتا ہے۔ ہمیں امریکی صدر کے ٹویٹ کو یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کردینا چاہئے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک پاگل شخص ہے بلکہ ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے پاگل شخص سے کسی بھی قسم کے مس ایڈونچر کی توقع کی جاسکتی ہے۔ یہ بات خارج از امکان نہیں کہ امریکہ مستقبل قریب میں پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کی موجودگی کا بہانہ بناکر کچھ پاکستانی علاقوں پر کروز میزائلوں سے حملہ کرسکتا ہے اور ڈرون حملوں میں بھی تیزی آسکتی ہے جبکہ پاکستان کی امداد بند کرکے اقتصادی پابندیاں بھی عائد کی جاسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ورلڈ بینک جہاں امریکی ڈائریکٹرز کی اکثریت ہے، قرضوں کے حصول کیلئے پاکستان پر کڑی شرائط بھی لگاسکتا ہے جس کیلئے ہمیں ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ واضح کردے کہ امریکہ، پاکستان کی خود مختاری کا احترام کرے اور پاکستان کو دیوار سے نہ لگایا جائے، اگر امریکہ نے پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں تو ہماری پرتعیش زندگی ضرور متاثر ہوگی لیکن ہم بھوکے نہیں مریں گے کیونکہ پاکستان زراعت میں خود کفیل ملک ہے۔ ایران اور شمالی کوریا کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں جنہوں نے امریکی پابندیوں اور مشکل حالات کے باوجود امریکہ کا جوانمردی سے مقابلہ کیا۔
ماضی میں امریکہ پریسلر ترمیم کے تحت پاکستان پر پابندیاں عائد کرچکا ہے مگر اسی عرصے میں پاکستان ایٹمی طاقت بنا۔ آج ایک بار پھر امریکی دھمکیوں کے باعث پاکستانی قوم و سیاسی جماعتیں متحد ہوچکی ہیں اور کسی بیرونی جارحیت کی صورت میں پاکستان پہلے سے زیادہ مضبوط اور طاقتور ملک بن کر ابھرے گا۔ آج امریکہ، پاکستان کے ساتھ جو ناروا سلوک اور رویہ اختیار کررہا ہے، اس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود ہیں۔ ماضی میں ہم امریکیوں کے ساتھ مل کر لڑتے رہے اور اپنی غیرت و حمیت حتیٰ کہ اپنا سب کچھ قربان کردیا لیکن آج امریکہ پاکستان کو کمزور اور دشمن ملک بھارت کو اپنا ہمنوا بناکر خطے میں اس کی چوہدراہٹ قائم کرنا چاہتا ہے۔ اگر جنرل پرویز مشرف 16 سال قبل امریکہ کو دی گئی خدمات کے صلے میں منہ مانگا معاوضہ بھی طلب کرتے تو امریکہ کو دینا پڑتا کیونکہ ہمارے سامنے ترکی کی مثال موجود تھی جسے امریکہ نے عراق میں داخلے کے عوض 20 ارب ڈالر کی پیشکش کی تھی، پھر پاکستان کو امریکہ کا طعنہ بھی نہ سننا پڑتا لیکن اگر ہم ترکی کی طرح جرات مندانہ فیصلہ کرتے تو آج پڑوسی اسلامی ملک افغانستان ہمارا اتنا بڑا دشمن نہ ہوتا۔ یہی وہ فرق ہے جو عام انسان اور لیڈروں میں ہوتا ہے۔ ایک عام انسان صرف اپنا ذاتی مفاد دیکھتا ہے مگر لیڈر اپنے وطن سے مخلص اور دوراندیش ہوتا ہے جس کی سوچ کئی صدیوں پر محیط ہوتی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو بھی ترک صدر طیب اردوان کی طرح امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دبنگ انداز میں جواب دینا چاہئے کہ ’’پاکستان اب امریکہ سے کوئی ڈکٹیشن نہیں لے گا اور نہ ہی پاکستانی عوام کسی امریکی دھمکی میں آئیںگے۔‘‘

تازہ ترین