• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ کے میڈیا میں ہر طرف نئی چھپنے والی کتاب ’’فائر اینڈ فیوری‘‘ زیر بحث ہے۔ کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے اسٹاف میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو احمق، پاگل اور نادان سمجھا جاتا ہے۔ کتاب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک بچے کی طرح ہیں جو فی الفور اپنی خواہشات کی تشفی چاہتا ہے۔ اس سے پہلے امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن پینٹاگون کی ایک میٹنگ میں انہیں احمق قرار دے چکے ہیں۔ اس پس منظر میں دیکھیں تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئے سال کی پہلی پاکستان مخالف ٹویٹ ایک بچے کی نادانی قرار دی جا سکتی ہے۔ امریکہ کے سب سے بڑے اخبارات ، نیو یارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ میں بھی تاثر دیا گیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹویٹ کے پس منظر میں کوئی سوچی سمجھی حکمت عملی نہیں تھی۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ صدر ٹرمپ کی ٹویٹ میں جو کچھ کہا گیا وہ پینٹاگون اور انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیدار پہلے سے ہی کہہ رہے تھے۔ لہٰذا یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ امریکہ میں پاکستان مخالف بیانیہ موجودہ حکمرانوں کی مشترکہ رائے کا اظہار ہے اور آنے والے دنوں میں پاکستان کے گرد حصار تنگ کئے جانے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ بتانا قبل از وقت ہے کہ امریکہ اس میں کس حد تک کامیاب ہو گا اور پاکستان کے پاس اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے کیا راستے موجود ہیں۔
سب سے پہلے تو افغانستان میں امریکی فوجوں کے سربراہ جنرل جان نکلسن نے بار بارالزام لگایا ہے کہ پاکستان اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کر رہااور حسب سابق حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ جیسے دوسرے جہادی گروپوں کی پرورش کر رہا ہے۔ اسی طرح امریکہ کے نائب صدر مائیک پنس نے افغانستان کے دورے پر فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پر طالبان کو پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام لگایا۔ امریکہ نے علاقے کے بارے میں اپنی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے بھی پاکستان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس پورے پس منظر میں دیکھیں تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹویٹ محض ایک بچے کی نادانی نہیں بلکہ یہ امریکہ کی پوری اسٹیبلشمنٹ کی متفقہ رائے کا اظہار ہے۔ اس ٹویٹ کی توثیق نیشنل سیکورٹی کے مشیر جنرل میک ماسٹر نے بھی کی ہے۔ ان کا تو یہ کہنا ہے کہ پاکستان کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ مستقبل میں ایک خوشحال ملک بننا چاہتا ہے یا شمالی کوریا کی طرح تنہائی اور پسماندگی کی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ امریکہ کے ایک سینیٹر اور سابقہ صدارتی امیدوار رینڈ پال سینیٹ میں ایک بل پیش کرنے جا رہے ہیں جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان کو دی جانے والی امداد امریکہ کی سڑکوں اور پلوں کی تعمیر پر خرچ کی جائے۔ غرضیکہ امریکہ میں ہر سطح پر پاکستان مخالف بیانیہ مقبول ہے۔
امریکہ پہلے مرحلے پر پاکستان کو دی جانے والی 225 ملین ڈالر کی فوجی امداد کو معطل کر رہا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان تقریباً ایک بلین ڈالر کی امریکی امداد سے محروم ہو جائے گا۔ پاکستان کے ناقد امریکی حلقوں کی طرف سے تجویز دی جا رہی ہے کہ امریکہ پاکستان کو فوجی ساز و سامان (پرزے وغیرہ) کی سپلائی بند کرنے کے علاوہ عالمی مالیاتی اداروں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو دئیے جانے والے قرضوں پر بھی پابندی لگوادے۔ مزید برآں یہ بھی تجویز کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کے اہم اداروں اور شخصیات پر پابندیاں عائد کر دی جائیں۔ ابھی تک امریکی حکومت نے فوجی امداد کی معطلی کے علاوہ دوسرے اقدامات کے بارے میں کوئی عندیہ نہیں دیا لیکن جس طرح سے پاکستان میں مذہبی آزادیوں کے سلسلے میں پاکستان کو واچ لسٹ میں ڈالا گیا ہے اس سے یہ واضح ہے کہ امریکہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ مہم کا آغاز کر رہا ہے۔ اگر پاکستان امریکہ کو مطمئن نہ کر سکا تو پھر وہ چاہے گا کہ پاکستان پر عالمی پابندیاں عائد کر دی جائیں اور پاکستان کو شمالی کوریا کی طرح تنہا کر دیا جائے۔ لیکن یہ سب کچھ کرنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا پاکستان کے ناقدین سمجھتے ہیں۔
امریکی بیانیے کے جواب میں پاکستان نے بھی سخت موقف اختیار کرتے ہوئے اپنے بیانیے میں پاکستان کی مشکلات کی تمام تر ذمہ داری امریکہ پر ڈال دی ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ امریکہ نہ پاکستان کا اتحادی ہے اور نہ ہی دوست۔ اب دونوں طرف سے افغانستان میں مہم جوئی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ امریکہ نے اس کی زمینی اور فضائی راہداری کو استعمال کرنے کی قیمت ادا نہیں کی۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان امریکہ کے جارحانہ اقدامات کے جواب میں زمینی اور فضائی راہداری بند کردے گا؟ امریکی حلقے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ زمینی راہداری کا تو نعم البدل موجود ہے لیکن فضائی راہداری بند ہونے کی صورت میں امریکہ شدید مشکلات کا شکار ہو جائے گا۔ اگر پاکستان نے فضائی راہداری بند کی تو امریکہ کا غیض و غضب بڑھے گا اور وہ پاکستان پر عالمی پابندیاں لگوانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دے گا۔
پاکستان کو امید واثق ہے کہ امریکہ پاکستان پر عالمی پابندیاں نہیں لگا سکتا کیونکہ چین، روس اور علاقے کے بہت سے ممالک (ایران، ترکی وغیرہ) اس کا ساتھ نہیں دیں گے۔ چین کی وزارت خارجہ نے صدر ٹرمپ کی ٹویٹ سے اگلے روز ہی پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا تھا۔ ویسے بھی چین کی پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہے اور وہ کسی صورت میں یہ نہیں چاہے گا کہ پاکستان میں معاشی بدحالی پیدا ہوا۔ پاکستان اور چین کے باہمی معاشی مفادات دن بدن بڑھ رہے ہیں۔ امریکہ کے حالیہ پاکستان مخالف بیانیے کا لازمی نتیجہ ہو گا کہ پاکستان چین کے مزید قریب ہو جائے گا: یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے چین کا یوان میں لین دین کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے بینکوں کو یوان میں اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت دے دی ہے۔ امریکہ میں کچھ حلقوں میں یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ ڈونلڈٹرمپ انتظامیہ کی پاکستان مخالف پالیسیوں سے اور کچھ ہو نہ ہو پاکستان مکمل طور پر چین کا طرفدار ہو جائے گا۔ اگرچہ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ چین امریکہ کی طرح پاکستان کو امداد اور گرانٹ نہیں دے سکتا لیکن ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ چین دنیا میں امریکہ کے مقابلے کی سپر پاور بننے کے لئے کیا کچھ کر سکتا ہے۔

تازہ ترین